میں “کریم کیپٹن “طاہرہ حبیب جالب ہوں۔۔۔اظہر مشتاق

کریم اور اوبر نامی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو پاکستان میں متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، ٹرانسپورٹ کی دونوں سہولیات سے استفادہ کرنے کے لئے آپکو زیادہ تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی ، اگر آپ کے پاس سمارٹ فون  اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے  تو آپ باآسانی ایک ایپلیکیشن کو استعمال  کرتے ہوئے  کسی بھی وقت ٹیکسی اپنے گھر  یا دفتر کی دہلیز پر منگوا سکتے ہیں۔ کسی بھی شہر میں اندرونِ شہر سفر کرنے کیلئے دونوں آن لائن ٹیکسی کی خدمات  بہتر اور قابل اعتماد سمجھی جاتی ہیں۔  پاکستان میں کریم اور اوبر کے آنے سے عام انسانوں کے لئے بالعموم اور خواتین کے  لیئے بالخصوص سہولت کے ساتھ ساتھ  جہاں سفر محفوظ  ہوا، وہاں سفید پوش مردوں کے لئے روزگار کے مواقعے بھی  فراہم ہوئے  ۔ جو لوگ اپنی ملازمت سے اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتے تھے اور ان کے پاس ذاتی گاڑی کی سہولت اور سمارٹ فون موجود تھے، انہوں نے اپنی آمدنی میں اضافے کے لئے  اپنے دفتری اوقات کے بعد  جزوقتی طور پر کریم یا اوبر کو اپنی خدمات دینی شروع کیں یوں عام عوام کو نسبتاً سنجیدہ اور سلجھے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ سفر کی سہولت ملی۔

کریم  کمپنی نے پاکستان کے بڑے شہروں میں عورتوں کے عدم تحفظ کے احساس کو پرکھتے ہوئے  ایک نئی سہولت  ” فیمیل کیپٹن ” کے  نام سے متعارف کروائی جس سے معاشی طور پر مجبور اور سفید پوش خواتین نے بنکوں سے قرضے  سےیا کسی دوسرے ذریعہ سے اپنی گاڑیاں لیکر  کریم کمپنی کو اپنی خدمات پیش کیں۔  انہی خواتین میں ایک نام پاکستان کے معروف  انقلابی شاعر جناب حبیب جالب کی بیٹی  طاہرہ حبیب جالب بھی ہیں ۔ وہی جالب جس کو پاکستان میں ایک عوامی شاعر یا شاعرِ انقلاب کے طور پر جانا جاتا ہے۔  جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے  اور جہاں جہاں مزاحمتی سیاست  کاکوئی بھی کردار اردو سمجھتا ہے وہ اپنی تقریر اور تحریر میں حبیب جالب کی شاعری کا استعمال فرضِ عین سمجھتا ہے۔

حبیب جالب کی زندگی  کا ایک واقعہ بہت اہم ہے ، 1965 میں پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس وقت کی معروف اداکارہ  عابدہ ریاض المعروف “نیلو” کو جب  مغربی پاکستان کے گورنر  ملک امیر محمد خان نے شاہ ایران کے  سرکاری دورے کے دوران اس کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کو کہا تو  اداکارہ نے نجی محفل میں فن کا مظاہرہ کرنے  یا بعض  موءرخین کے مطابق  رقص کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک شاہی فرمان  کی حکم عدولی  کے نتیجے میں “نیلو” قرار واقعی سزا سے کیسے بچ سکتی تھیں ؟ انہیں اتنا تنگ کیا گیا کہ وہ  خود کشی کرنےپر مجبور ہوگئیں  اور انہوں نے گورنر ہاؤس کے سامنےخود کشی کی کوشش کی مگر انہیں اسپتال پہنچا دیا گیا  اور ڈاکٹروں  کی محنت نے  انکی زندگی  بچا لی۔   حبیب جالب جب اسپتال میں نیلو کو دیکھنے گئے  تو انہوں نے شہرہ آفاق  غزل  کہی جس کا مطلع کچھ یوں ہے،

تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی،

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔

اس واقعے پرحبیب جالب کے ردِ عمل سے اُن کی حساسیت اور  معاشرے کے سبھی مرد و خواتین کے لئے دردِ دل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حبیب جالب نہ مالی طور پر کوئی مستحکم انسان تھے اور نہ ہی کسی سرمایہ دار یا  بالادست کے دُم چھلے، انہوں نے نہ کبھی  کسی سے نوکری کی توقع کی اور نہ ہی وہ کسی مصلحت کا شکار ہوکر  کسی آمر کے  سامنے جھکے، انہوں نے اذیتیں اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں مگر  اپنی خودداری اور کلمہءِ حق کہنا ترک نہ کیا۔یہی وجہ ہیکہ جالب کے گزر جانے کے بعد  بھی یومِ مئی ہو یا مزدوروں کا کوئی اور  جلسہ، کسانوں کی ریلی ہو یا  ہاریوں کی سنگت، مزاحمتی تحریک ہو یا انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا معاملہ، جمہوریت کی بحالی کی تحریک ہو یا حزبِ اختلاف کی تقریر حبیب جالب کے شعر اس کا لازمی حصہ ہوتے ہیں ۔  حبیب جالب کے بائیں بازو کے نظریات کے مخالف انتہائی دائیں بازو کے  سیاسی زعماء  اوران کے اشعار جھوم جھوم کر پڑھنے والے،  جومحنت کش عوام کو بیوقوف بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے  بھی جالب کے اشعار کو اپنی تقاریر کا جزوِ لاینفک سمجھتے ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا مرد حُر جس کے سیاسی مخالفین بھی اس کی سیاسی استقامت اور انقلابی شاعری کے معترف ہوں ، اسکی اولاد اس جیسی استقامت نہ دکھائے۔ طاہرہ حبیب جالب نے بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جالب صاحب  جیسی خودداری کو اپنائے رکھا، اسی لئے وہ آجکل اپنی روزی روٹی اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کریم کی خاتون کیپٹن بننے کو مناسب سمجھا۔  طاہرہ حبیب جالب چاہتیں تو دیگر موقع پرست خواتین کی طرح کوئی فاونڈیشن یا سماجی تنظیم قائم کر کے  دیگر خواتین کو بھی جعلی ترقی یا صنفی مساوات کے بھاشن دے سکتی تھیںمگر انہوں نے محنت کش خواتین کے لئے خود کو ایک مثال کے طور  پیش کیا۔ وہ اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ بائیس کروڑ آباد ی کے اس ملک کی اکثر خواتین جو خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گذار رہی ہیں وہ گاڑی خرید کر باعزت روزگار کمانا تو کجا گاڑی پر سفر کرنے کے اخراجات برداشت کرنے سے بھی معذور ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس اور پاکستان کے مؤقر اخبارات اور جرائد نے طاہرہ حبیب جالب کی اس خبر کو ہمدردی  کے احساس کے ساتھ چھاپا ہے اور حبیب جالب کی وفات کے بعد ان کی بیوہ کو ملنے والے پچیس ہزار روپے وظیفہ کی بندش  پر کڑی تنقید کی ہے۔ طاہرہ حبیب جالب اور ان جیسی دوسری کئی خواتین جن کے باپ شاعر یا سیاسی کارکن نہ رہے  ہوں اس سماج کی  شکوہ کناں عورتوں کے لئے ایک مثال ہیں ۔  حقیقی صنفی مساوات اور عورت کا بااختیار بنانے کا عمل  معاشرے سے صنفی تفریق  کے خاتمے اور مردوں کے عورتوں کو ایک مکمل انسان سمجھنے کی سوچ میں مضمر ہے۔  طاہرہ جالب اگر اپنی محنت سے معاشرے کی دوسری عورتوں کے لئے ایک مثال بننے جارہی ہیں تو ان کے اس عمل سے محض ہمدردی دکھانا اور حکومتِ وقت سے ان کے لئے امداد کی اپیل کرنا شائد انہیں کمزور کرنے کے مترادف ہوگا۔    سوچنا ہوگا کہ کیا پاکستانی ریاست سماج کی 52 فیصد عورتوں کے مسائل یا انکےدیگرسماجی یا معاشی   مسائل  کو سمجھنے میں سنجیدہ ہے؟  شاید نہیں۔۔۔۔ لیکن اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بنیادی انسانی حقوق یا ریاست کے فرائض کی جدوجہد ہی ترک کر دی جائے ۔ مگر طاہرہ حبیب  جالب کو دیگر محنت کش خواتین کے لئے ایک مثال بننے کی کوشش کو ہمدردی کے جذبات سے کمزور کرنا بھی درست عمل نہیں۔ پاکستانی سماج کے   خواتین  وافراد کو طاہرہ حبیب جالب جیسی دلیر عورت کو  احترام ،  باعزت معاشرتی مقام اور ان کےپیشے میں ترقی کرنے میں آگے بڑھنے کے عمل میں انکی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی تاکہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر کمزور نہ پڑیں۔

طاہرہ حبیب جالب کی کریم کمپنی کی آئی ڈی

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply