لاعلمی یا جہالت ایک نعمت ہے۔۔عمیر فاروق

لگتا ہے ہمارے افغان دوستوں اور انکے ہمنواؤں نے اس فقرے کو طنز کی بجائے سنجیدہ لےلیا ہے۔

افغانستان نام کے ملک کا قیام براہ راست برطانوی فوج کشی کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ فوج کشی بری تھی تو افغانستان کا قیام اور وجود بھی برا ہے اور اگر افغانستان کا قیام اور وجود اچھا ہے تو وہ فوج کشی انکے لئے باعث رحمت تھی۔ اس میں اگر کسی نے مدد کی تو اسکی تعریف کرنا بنتا ہےنہ کہ طعنے دینا۔

افغانستان کا تعلق احمد شاہ ابدالی کی سلطنت سے جوڑنا ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملتان کے پیدائشی احمد شاہ کی سلطنت جس میں موجودہ افغانستان اور پاکستان دونوں ہی شامل تھے ، انگریز کی آمد سے قبل ہی ختم ہوچکی تھی۔ سندھ پہ بالاخر انگریز قابض ہوچکے تھے،پنجاب ، کے پی اور قبائلی علاقہ جات پہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سکھ سلطنت تھی ، ابدالی کےآخری جانشین شاہ شجاع کابل بدر ہونے کے بعد لاہور میں سکھوں کے پاس پناہ گزین تھے۔ اورباقی ماندہ ولایت خراسان ، یاغستان یا سرزمین بے آئین بن چکی تھی۔

انگریز سندھ اور بلوچستان میں بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے انکی قبضہ میں کوئی دلچسپی ہوتی تو کم سےکم ولایت خراسان پہ ہی قبضہ کر لیتے۔

انکی دلچسپی تب بیدار ہونا شروع ہوئی جب ان تک یہ اطلاع پہنچی کہ روس اور ایران نےولایت خراسان کے حصے بخرے کرکے آپس میں بانٹنے کا معاہدہ کرلیا ہے وہ زار نکولس کی بحر ہنداور گرم پانیوں تک پہنچنے کی سٹریٹجی سے خوب واقف تھے سو انکی تشویش کی وجہ یہ بنی انہوں نےفیصلہ کیا کہ اگر کوئی طاقت خراسان میں پیشقدمی کرتی ہے تو وہ لازماً اسکا راستہ روکیں گے۔ یہ مشہور زمانہ “ گریٹ گیم “ کا آغاز تھا۔

بالآخر ایران نے یہ موقع دیا اور وہ ہرات پہ قابض ہوگیا تب انگریزی فوج حرکت میں آئی۔ لیکن اس ضمن میں پنجاب یا لاہوریوں کے تعاون کا الزام سراسر لغو ہے رنجیت سنگھ نے تو انگریزی فوج کو اپنی سلطنت سے گزرنے کا رستہ بھی نہ دیا اور وہ درہ بولان کے راستے بلوچستان کی طرف سے حملہ آور ہوئے اسی طرح انکی فوج بھی بنگال اور مدراس رجمنٹ کے بنگالی اور مدراسی سپاہیوں پہ مبنی تھی۔

انہوں نے ہرات سے ایران کو نکالا اور کابل کے تخت پہ شاہ شجاع کو تخت نشین کیا۔ لیکن   یہ بندوبست چل نہ سکا بہت جلد مقامی بارک زئی قبائل نے امیر دوست محمد کی معیت میں بغاوت کی اور شاہ شجاع کو فارغ کردیا اس طرح انکا ابدالی سلطنت سے آخری رشتہ بھی ٹوٹ گیااب بارک زئی خراسان کے مالک تھے۔ لیکن انگریز نے کسی فوج کشی کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ دوست محمد جیسے مضبوط حکمران کے ہوتے اگر روس جنوب کا رخ کرتا تو لازماً دوست محمدمزاحمت کرتا اور انگریز اسکی مدد کرکے روس کو وہیں روک دیتے اور یہی انکا مطمع نظر تھا۔

البتہ 1885 تک امیر دوست محمد کے انتقال پہ حالات بدل گئے اسکے بعد امیر یعقوب علی اورایوب خان کے درمیان جانشینی کی جنگ چھڑ گئی اور روس نے موقع کا فائدہ اٹھاتے جنوب کاقصد کیا اور پنج دیہہ پہ قبضہ کر لیا۔ اب انگریزوں کے ہاں خطرے کی گھنٹی بج گئی روس نےجنوب کی طرف پیش قدمی شروع کردی تھی اور گرم پانی اسکی منزل لگ رہے تھے۔

تب دوسری اینگلو افغان وار ہوئی لیکن اس بار انگریزوں نے روسی خطرے کا مستقل بندوبست کرنے کا تہیہ کرلیا تھا انہوں نے اس بار نہ صرف امیر یعقوب علی کو کابل کے تخت پہ بٹھایا بلکہ ایک مستقل ریاست قائم کرنے کی بھی ٹھان لی انہوں نے روس اور ایران سے معاہداتکرکے اس ریاست کی سرحدیں طے کیں اور پشتون کے لئے فارسی لفظ افغان کی رعایت سےریاست کا نام افغانستان طے کیا۔

یہ سوال بالکل جائز ہے کہ انگریز نے مذکورہ ریاست پہ اپنی مرضی کا بادشاہ بٹھانے کی بجائے خودبراہ راست حکومت کیوں نہ کی ؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہوشیار انگریز یہ بھانپ چکے تھے کہ افغانستان کو بطور ریاست چلانے کے لئے جتنے خرچے کی ضرورت ہے وہ افغانستان کے وسائل سے پورےنہیں ہوسکتے لہذا یہ ڈھول اپنے گلے باندھنے کی بجائے انہون نے امیر یعقوب کے گلے باندھا۔اور اگر روس جنوب کی سمت پیش قدمی کرتا تو افغان ریاست خود بخود مزاحمت کرتی اور انگریزاسکی مدد کرکے روس کو وہیں روک دیتا۔

انگریزوں کا اندازہ درست ثابت ہوا امیر یعقوب علی کو گوناگوں مسائل نے گھیر لیا۔ قبائل کے جھگڑے، ناکافی ریاستی آمدن اور امن و امان براقرار رکھنے کے لئے انگریزی دباؤ اتنا شدید تھاکہ وہ جلد ہی یہ کہہ کر دستبردار ہوا کہ

میں اس( افغانستان ) کی بادشاہت پہ آپ ( انگریز ) کا مالی یا گھوڑوں کا سائیس بننے کو ترجیح دونگا۔

طرح امیر یعقوب نے اپنی جان چھڑائی اور افغانستان کا بوجھ دوبارہ انگریز کے کاندھے پہ لاددیا۔

انگریز نے یہ تجربہ ناکام ہوتے دیکھا تو اس کا حل یہ نکالا کہ امیر عبدالرحمن کو افغانستان کابادشاہ مقرر کیا لیکن اسکی سالانہ مالی امداد شروع کردی تاکہ یہ انگریزی ایجاد ناکام نہ ہو اورافغانستان، انگریز و روسی سلطنت کے درمیان ایک بفر سٹیٹ کے طور پہ قائم رہے۔

ریاست چلانے کے اخراجات اور ناکافی آمدن کا بھوت شروع سے ہی افغانستان کےحکمرانوں کے سر پہ منڈلاتا رہا اور آج تک منڈلا رہا ہے۔

انگریز اپنے جانے تک افغانستان کو سالانہ بنیادوں پہ امداد مہیا کرتا رہا جو اس کے جانے کے بعدبند ہوئی تو افغان حکمرانوں کو پھر اسی بھوت نے گھیر لیا۔

ماضی میں محمود غزنوی اور احمد شاہ نے اسکا حل یہ نکالا تھا کہ خراسان کے پہاڑوں کے ساتھموجودہ پاکستان کے زرخیز میدانوں کو بھی اپنی قلمرو کا حصہ بنائے رکھا تاکہ میدانی زرعی علاقہ کےمحصولات کی مدد سے سلطنت کا کاروبار چلائے رکھیں ، افغان حکمران اپنی ریاست کا تعلق جذباتی طور پہ انہی سے جوڑتے تھے تو انہوں نے بھی اب لاشعوری طور پہ مشرق کی طرف ہی دیکھا لیکن اب حالات مختلف تھے یہاں پاکستان موجود تھا جو ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور ترقی یافتہ تھا سوفوج کشی کا آپشن انکے پاس موجود نہ تھا ان حالات میں انہوں نے ملی جلی پالیسی اپنائی اورڈیورنڈ لائن کا انکار کرکے پاکستانی علاقہ پہ دعوی شروع کردیا انکا خیال تھا کہ بالآخر یہاں کی پشتوناور بلوچ آبادی میں بغاوت پیدا کرکے وہ مشرق کی جانب توسیع کر سکتے ہیں۔

اسی لئے انہوں نے یہاں پشتونستان کے سٹنٹ یا دیگر علیحدگی پسندی کی سرپرستی شروعکردی لیکن یہ پالیسی بہت بودی تھی انہوں نے یہ غور نہ کیا کہ اگر پاکستان بھی جواباً یہی پالیسی اپناتا ہے تو انکے اپنے اندر خوفناک خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے اور یہی ہوا جب پاکستان نےبھٹو کے دور میں اسی پالیسی سے جواب دینا شروع کیا تو افغانستان اس دلدل میں پھنس گیا جس سے آج تک نہیں نکل سکا۔

ایک عجیب تضاد یہ ہے کہ جہاں افغان عوام کسی غیر ملکی طاقت کی آمد کے سخت خلاف ہیں وہیں افغان اشرافیہ اس کی قائل ہے کہ کسی غیر ملکی امداد کے بغیر وہ اس ملک کو نہیں چلا سکتےاسی لئے وہ کسی بیرونی طاقت کا سہارا یا تو ڈھونڈتے ہیں یا اسے آنے کی دعوت دیتے ہیں تب خانہ جنگی لازمی نتیجہ نکلتی ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کے برعکس روس اس دلدل میں اتفاقاً پھنس گیا تھا اور اس کی ذمہ دارافغان اشرافیہ تھی۔ امریکہ اور برطانیہ اگرچہ سوچ سمجھ کر عمداً آئے تھے لیکن برطانیوں کی یہ ہوشیاری کہ ، افغانستان کا سارا بوجھ اپنے کاندھوں پہ نہ لو، امریکی نہ نبھا سکے انہوں نے سارابوجھ ہی اپنے کاندھوں پہ لے لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف افغان مزاحمت سے نمٹنے کے فوجی ا  خراجات، دوسری طرف افغانستان کو چلانے کے مصارف اور اس پہ  مستزاد افغان عوام کوخوش رکھنے کے لئے افغان معیشت پہ پیسہ خرچ کرتے جانا، یہ سب بوجھ مل جل کر امریکہ کےلئے ٹریلین ڈالرز کی کھیل بن گیا۔

ہوشیار طالبان اس کو سمجھتے تھے اسی لئے کہتے تھے کہ تمہارے پاس گھڑیاں ہیں اور ہمارےپاس وقت ہے

کہ بالآخر امریکہ ان لاحاصل خرچوں سے تنگ ہوکر افغانستان سے نکل جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب امریکی تو جا رہے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے اور کسی بھی افغان سیٹ اپ پہ یہ بھوت منڈلاتا رہے گا

Facebook Comments