پرائیویٹ اساتذہ بھی انسان ہیں….عبد الستار

یہ ہمارے سماج کا وہ باہمت طبقہ ہے جو اپنے نامساعد اور بُرے حالات کا مقابلہ بڑی ہمت اورجراءت  کے ساتھ کرتا ہے ۔یہ معاشرے کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے چھوٹی موٹی ہوم ٹیوشن پڑھا کر اپنے تعلیمی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں .بہت  سارے تو اپنی گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے  خود پڑھنے کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اداروں میں ٹیچنگ بھی کر رہے ہوتے ہیں ۔گریجوایشن اور ماسٹرز کرنے کے بعد کچھ کی جاب ہو جاتی ہے مگر ایک کثیر تعداد کچھ مسائل کی وجہ سے جاب سے محروم رہ جاتی ہے ۔اس محروم طبقہ کی اکثریت سماج اور حکومت پر بوجھ بننے کی بجائے اپنے محدود وسائل کے ساتھ پرائیویٹ سکول ،ٹیوشن سینٹر یا کوچنگ سینٹر قائم کرلیتی ہے تاکہ زندگی کی گاڑی چلتی رہے ۔گزشتہ فروری کے مہینہ میں کرونا وباء کا چرچا ہوا اور ا س کے نتیجہ میں حکومت نے ایک طویل لاک ڈاؤن کا نفاذ کردیا۔سکول کالج اور یونیورسٹی حتٰی کہ بازار تک بند کر دیے گئے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وباءنےجہاں بڑے بڑے طبقات کو متاثر کیا وہیں  معاشرے کے اس سفید پوش طبقے کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ۔طویل لاک ڈاؤن  ہونے کی وجہ سے بہت سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بند ہوگئے اور بہت سارے اساتذہ بلڈنگ مالکان کا کرایہ بروقت ادا نہ کرنے کی وجہ سے مستقل طور پر اپنے ادارے بند کرنے پر مجبور ہوگئے ۔حالانکہ سرکاری فرمان کی روشنی میں بلڈنگ مالکان نے تین ماہ کا کرایہ وصول نہیں کرنا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا اور بے شمار اساتذہ فاقوں پر مجبور ہوگئے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ ان پرائیویٹ اساتذہ میں  خواتین کی بھی ایک کثیر تعداد ہے جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے محض 6،7 ہزار کے عوض پرائیویٹ سکولز میں پڑھاتی ہیں وہ بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر  مجبور ہوگئی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابھی پچھلے بدترین حالات کے آفٹر شاکس سے پوری طرح باہر نہیں نکل پائے تھے کہ اچانک ایک نیا شاہی فرمان جاری ہوگیا اس فرمان کی روشنی میں 10جنوری تک تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے ۔سوچنے اور سمجھنے کا تکلف ہی نہیں کیا گیاکہ پرائیویٹ اساتذہ کا کیا بنے گا؟یہ کوئی سرکاری ملازم تو نہیں ہوتے کہ ان کو تنخواہ گھر بیٹھے ملتی رہے گی ۔پرائیویٹ اساتذہ کی ایک کثیر تعداد  اپنے محدود وسائل کے ساتھ اپنا اور اپنے خاندان کی کفالت کا فریضہ بھی ادا کرتی ہے ۔شوگر اور  بلڈ پریشر جیسا موذی مرض  جو کہ بہت عام پایا جاتا ہے اور زندگی کو چلانے کے لیے مرتے دم تک اس ادویات لینی پڑتی ہیں۔ذرا سوچیے کہ جب اس طبقے کی آمدن ہی صفر ہو جائے تو پھر یہ اپنے نظام کو کیسے چلائیں گے ۔میں ایسے بےشمار اساتذہ کو جانتا ہوں جو اپنی فیملی کا سرکٹ چلانے کے لیے بہت سارے پرائیویٹ اداروں میں پڑھانے پر مجبور ہیں مگر  جب ادارے ہی بند کردیے گئے تو پھر یہ کیا کریں گے ؟ اس طبقے نے تو اپنے محدود وسائل کے ساتھ اپنے گھر کا چولہا جلانا ہوتا ہے اگر وہ بھی چھن جائے تو پھر یہ طبقہ کیا کرے ؟مہنگائی کے اس طوفان نے پہلے ہی جینا مشکل بنا دیا ہے اور ر ہی سہی کسر ریاست مدینہ کے دعویداروں کے احمقانہ فیصلوں نے پوری کر دی ہے ۔حالانکہ جتنا زیادہ  ایس او پیز کاخیال تعلیمی اداروں میں رکھا جاتا ہے کہیں اور بالکل بھی نہیں رکھا جاتا ۔مگر  یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ کرونا صرف اور صرف تعلیمی اداروں میں ہی پایا جاتاہے،جلسے جلوسوں،بازاروں اور عوامی اجتماعات میں کرونا چھٹی پر چلاجاتا ہے ۔خدا را تعلیم کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں اور کوئی جامع پالیسی بنا کر  پرائیویٹ اساتذہ کوکسمپرسی کی زندگی گزارنے سے بچانے کی کوئی تدبیر کریں۔معاشرے کے یہ خوددار  لوگ اپنے حوصلے اور ہمت سے معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کی بھر پورکوشش کرتے ہیں۔براہ کرم اس طبقے کا بھرم مت توڑیے۔شاہان وقت سے ا لتماس ہے کہ اپنے فیصلوں کو ری وزٹ کر کے کوئی جامع پالیسی تشکیل دیں اور ایک میکنزم بنا کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو چلنے دیں۔خدارااس طبقے کو ہاتھ پھیلانے پر  مجبور مت کیجیے اور انہیں چند ٹکے لائن میں کھڑا کر کے دینے کی بجائے ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے میں مدد کیجیے۔ 

Facebook Comments