میں سعودی عرب کا وکیلِ صفائی نہیں ہوں۔۔نذر حافی

فرقہ واریت کی تازہ لہر میں بیرونی ہاتھ یقیناً ملوث ہے، گذشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں سعودی سفیر کی مشکوک سرگرمیوں اور مختلف شخصیات سے ملاقاتوں نے ہر محبِ وطن پاکستانی کو چونکا دیا ہے، یاد رہے کہ میں سعودی عرب کا کوئی وکیل صفائی نہیں ہوں، لیکن عرض یہ کر رہا ہوں کہ ہمیں دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنے اوپر پردے ڈالنے کی لت پڑ چکی ہے۔ بیرونی ہاتھ کی رَٹ لگانے سے اندرونی تخریبی عناصر کا جرم کم نہیں ہو جاتا۔ ہمیں اپنے ملک کے اندر اُس مجرمانہ ذہنیت کو ڈھونڈنا چاہیئے، جو چند ٹکوں کے عوض دشمنوں کی آلہ کار بن جاتی ہے، ہمیں اُن مدارس، کالجز اور یونیورسٹیوں کا سراغ لگانا چاہیئے، جہاں ایسے افراد تربیت پاتے ہیں کہ جو دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر سعودی عرب کا سفیر کسی سے ملاقات نہ بھی کرے تو موساد، سی آئی اے، این ڈی ایس، خاد اور را سمیت کوئی بھی انہیں ڈالر دے کر ہمارے خلاف استعمال کر لیتا ہے۔ اصل مشکل بیرونی اور دشمن ممالک کی طرف سے نہیں بلکہ اصل مشکل ہماری صفوں میں چھپے ہوئے اس اندرونی طبقے کی ہے، جو ہمیشہ ہمارے کسی بھی دشمن سے مل جاتا ہے۔

ابھی جو کچھ مسلسل ہو رہا ہے، یہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے، مثلاً چھپ چھپا کر پنجاب اسمبلی سے فرقہ وارانہ بِل پاس کرانا، ایک قوم اور ایک نصاب کی کاوش کو فرقہ وارانہ پٹڑی پر ڈال دینا، طاہر اشرفی جیسے لوگوں کی طرف سے مسلمانوں کی تکفیر کرنا، مفتی منیب الرحمان جیسی شخصیات کا تکفیریوں کی زبان بولنا، ٹارگٹ کلنگ کی تازہ لہر، دیگر مکاتب فکر کے عقائد کو جبراً تبدیل کیا جانا، لوگوں کو زبردستی پکڑ کر اُن کے مذاہب بدلوانا اور قائداعظم ؒ کے شہر میں ہی قائداعظم ؒ کے فرقے کو کافر کافر کہنا۔۔۔۔ یہ سب دراصل دشمن ایجنسیوں کو گرین سگنل دیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے حالات سے بیرونی آقاوں کو یہ پیغام بھیجا جا رہا ہے کہ ہماری طاقت دیکھ لو، اگر تم حکم کرو تو ہم پاکستان میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

اس صورتحال سے پاکستان کا ہر سُنی و شیعہ مسلمان پر یشان ہے، لیکن نجانے ملکی سکیورٹی پر مامور ادارے کیوں بے حس و حرکت ہیں!؟ یہ ادارے جو یزید کے بھی باپ اور دادے کی توہین پر فوراً حرکت میں آگئے اور انہوں نے نوّے کے قریب لوگوں پر ایف آئی درج کر لیں، لیکن انہوں نے پاکستان کے دوسرے بڑے مذہب اور دنیائے اسلام کے مسلمہ فرقے نیز قائداعظم کی توہین پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ گویا کراچی میں کچھ ہوا ہی نہیں، یعنی صحابہ کرام ؓکے سب سے بڑے اور تاریخی قاتل ابوسفیان، حضرت حمزہ ؓ کا جگر چبانے والی ہندہ، اکابر صحابہ نیز حضرت امام علیؑ کے معاند اور قاتل معاویہ اور نواسہ رسولؑ کے قاتل یزید کی تو اس ملک میں حرمت ہے، لیکن کروڑوں مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلانے والی اور ان کیلئے ایک وطن تشکیل دینے والی محترمہ فاطمہ جناح اور قائداعظم جیسی مقدس ہستیوں کی اس ملک میں کوئی حرمت نہیں!!!؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب یہی عناصر 21 ستمبر کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں وحدتِ اُمت کے نام سے ایک کانفرنس منعقد کرنے جا رہے ہیں، یعنی پرانے شکاری نیا جال لائے ہیں۔ ایسے میں تمام شیعہ و سنی قیادتوں کو چاہیئے کہ وہ باہمی مشاورت سے اس کانفرنس کے بارے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔ اس کانفرنس میں شریک ہونا ہے یا نہیں ہونا، دونوں صورتوں میں مکمل طور پر ہوم ورک کیا جانا چاہیئے۔ اس مرتبہ صرف دعووں، بیانات، دعاوں، فوٹو سیشنز اور نیک خواہشات کے اظہار سے بڑھ کر کچھ ہونا چاہیئے، وہ تبھی ہوسکتا ہے جب تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر مشاورت کی جائے اور شیعہ و سُنی مل کر ان مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو بے نقاب کریں۔ یاد رکھئے! کہ میں سعودی عرب کا کوئی وکیل صفائی نہیں ہوں، لیکن اصل مسئلہ اس بیمار ذہنیت اور مریض ٹولے کا ہے کہ جسے جو ہڈی ڈالتا ہے، وہ اُسی کے اشارے پر پاکستانیوں کو کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply