وہ پیر مربی ہیں۔۔محمد وقار اسلم

قارئین کرام! عالم اسلام کے ممتاز عالم دین ، شیخ الحدیث اورامیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ وہ ایک خرقہ پوش شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے خود کو نبی علیہ الصلواۃ والسلام کی ناموس کا چوکیدار نہ صرف کہا بلکہ ہر موڑ پر پہرا دے کر دکھایا۔آج جب وہ رخصت ہوئے تو ان کے لئے ہر آنکھ اشک بار ہے ہر کوئی پکار رہا ہے کہ وہ ایک اچھے انسان تھے وہ بس طبعیت کے سخت تھے لیکن ان کے تمام خصائل عشق سرور کوںین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سرفراز تھے۔دین کے نقب زنوں کو نکیل ڈالنے والا وہ خرقہ پوشاقبالیات و احادیکےکا حافظ مرد برحق دین برحق کی سربلندی کی جنگ اپنی زندگی کی آخری ساعت تک لڑتا رہا۔ وہ چاہتے تو ٹھٹھرتی یخ بستہ ہواؤں سے کچھ پل استراحت کے نکال کر دھرنے کے مورچے سے رخصت لے لیتے لیکن اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی وہ نمونیا اور بخار میں مبتلا تھے لیکن خفیہ کسی ایک کی بات سننے کو بھی تیار ںہ تھے۔ ان کا مدعا حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا جس کے لئے وہ جرح کرتے گئے اور اپںے کھرے مطالبات پر کاربںد رہے۔وہ ایک آرزہ پرداز شخص جو دنیا کے تمام تر تصنع سے عاری اور عشق کا راستہ چن کر اخلاق کی اعلیٰ راہوں پر ثبات کے ساتھ چلتا رہا۔ مجھے یہ فخر ہے کہ علامہ پیر خادم رضوی کے خالص عشق نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مستغرق نظریات کی قدر کرتا رہا اور ان کی حیات میں ہی ان کے فلسفے کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے تگ و دو کرنے لگا۔ ان کی دین کے لئے بیش بہا خدمات ہیں اور ان کی دلیری و فقیری سے ناواقف، نابلد شخصیات نے جب بھی یہ سمجھا کہ اس شخص پرزور زبردستی کا تسلط کیا جا سکتا ہے تو ایسے ناہنجار لوگوں کو منہ کی کھانی پڑی اور اور حوادث اور زیادتیوں سہنے کے باوجود باوجود مولانا ںے ان سب کو لرزہ براندم کرکے رکھ دیا۔انہوں نے بتایا کہ ناموس رسالت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چوکیدار کس قدر متحرک اور ثابت قدم ہے۔ ایک طبقہ خادم رضوی کے گفتار پر نکتہ چینی کرتا رہا جبکہ حقیقت میں علامہ صاحب اخلاق میں دیگر علماء کی نسبت سب سے سربلںد معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی غیرت ایمانی اور رسول اللّٰہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ بعض جگہ جہاں ضرورت پیش آئی سخت بھی ہوئے لیکن اخلاق میں بے حد اچھے تھے۔ ان کے اچھے اخلاق سے شناسائی مجھے ان سے ملاقات کے بعد ہوئی گھنٹوں پر محیط یہ نشست میرے لئے اتنی خوشگوار اور خوش بخت تھی کہ وہ لمحات آج بھی میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ہیں۔اپنے ساتھ پیش آنے والے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی انہوں نے کسی فرد کے خلاف کوئی سخت الفاظ استعمال نہیں کئے۔انہوں نےسرور کونین مصطفیٰ شفیع المذنبین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشاق کی تحریک کا ایک ایسا سمندر ترتیب دیا ہے کہ حرمت رسول پر ہراپنی جان قربان کرںے کے لئے پہلی صف میں کھڑا ہے۔ وہ پورے جوش ولولے سے تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن پر ڈٹے رہے۔ ایک سچے غلام احمد مجتبیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانے پر دل اس قدر دکھی ہے کہ جوش ملیح آبادی کا یہ شعر دل کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔
اےرونقلالہزارواپسآجا۔۔۔۔۔۔۔۔ اےدولتبرگوبارواپسآجا۔۔۔۔۔۔ایسےمیںکہنوبہارہےخلدبدوش۔۔۔۔۔۔اےنازشنوبہارواپسآجا۔
مولانا رضوی نے یہ مشن خالصتاً دین برحق اور نبی علیہ الصلواۃ والسلام کی تعلیمات کو فروزاں کرنے کے لئے شروع کیا ان کے مقاصد میں سیاست تو تھی ہی ںہیں وہ سیاست اور مسند اقتدار آنے میں دلچسپی رکھتے ہی نہیں تھے وہ محض اہل لوگوں کو آگے لانے کے قائل ساتھ ساتھ وہ ان کو دین کی گائیڈ لائن پر چلانے کے خواہشمند تھے۔آج جب فرانس میں آزادی اظہار رائے کے نام پر خاکے بنانے کی ریاستی سرپرستی فرانس حکومت خود کر رہی ہے تو اس کے خلاف ببانگ دہل کوئی طاقت ور آوز اٹھی تو رضوی صاحب کی تھی۔ امت مسلمہ آج خورشید المثل شخصیت سے محروم ہوئی تو ادھر آزادی اظہار رائے کہ ٹھیکیدار علامہ صاحب سے اپنا بغض و عںاد دکھاتے نہیں تھک رہے۔ علامہ صاحب کو مورد الزام ٹھہرا کر ایک انتہاء پسند نسل کو پروان چڑھانے والا کہہ کر اپنے ناخلف اذہان و قلوب کو جھوٹی تسلی دے رہے ہیں اور اغیار کے مذموم مقاصد کو تکمیل دینے کی بھونڈی سازش کا حصہ بن رہے ہیں۔امیر المجاہدین رحمتہ اللہ نے اپنے دروس میں ایک متوازن شخصیت کے ابھار اور دین اسلام کے تفویض کردو فرائض سے روشناس کروایا۔وہ دہشتگرد نہیں بلکہ پیر مربی ہیں جنہوں نے عشق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطوار سکھائے اور امن کے داعی کے طور پر اپنی تحریک کو منوایا ہے۔

Facebook Comments