سوشل میڈیا رائٹرز اور احتیاط

سوشل میڈیا رائٹرز اور احتیاط
سالار کوکب
سوشل میڈیا اظہار رائے کا ایک موثر ترین ذریعہ ہے – لیکن کیا یہ ذریعہ محفوظ ترین بھی ہے؟ کم از کم پاکستان جیسے ملکوں میں نہیں – کیا اسے مکمل طور پرمحفوظ بنایا جا سکتا ہے ؟ شائد نہیں – ہاں کچھ تدابیر ضرور اختیار کی جا سکتی ہیں جو فعال لوگوں کو کم از کم غیر حکومتی کرداروں سے کچھ تحفظ دے سکتی ہیں – اگر کوئی فرد ایسے خیالات رکھتا ہے جن سے ریاست ، کاروبار یا دوسرے ادارے خطرہ محسوس کر سکتے ہوں تو ایسے فرد کے لیے ایک بہتر راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ہم خیال سیاسی گروہ کا حصّہ بن جائے – ایک سیاسی گروہ کا حصّہ ہونے کا مطلب ہو گا کہ گروہ کا ڈسپلن یہ فیصلہ کرے گا کہ کب اور کیا کہنا ہے؟ فرد کی ذاتی قربانی گروہ کی جدوجہد کو آگے بڑھائے گی اور کسی مشکل کی صورت میں فرد کو دوسرے ساتھیوں کی عملی مدد حاصل ہو گی –ایسے پیشوں کو اپنانا جن میں پیشہ وارانہ انجمنیں زیادہ مضبوط ہیں جیسے صحافت ، وکالت وغیرہ ایک طویل المدت حل ثابت ہو سکتا ہے – لیکن اگر کسی کو اپنی انفرادیت قائم رکھنی ہے تو ایک احتیاط یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنے اصل نام کی بجائے کسی اور نام سے آئ ڈی بنائی جائے – تاہم دوسری احتیاطوں کی عدم موجودگی میں یہ احتیاط غالب نظام کو للکارنے والے کسی فرد کو حکومتی ردعمل سے صرف اس وقت تک بچا سکتی ہے جب تک حکومت اس کو نشانہ بنانے سے گریز کرے – نوجوان نسل کے لیے یہ احتیاط ویسے ہی اس لیے ضروری ہے کہ ملازمت دینے والوں میں امیدوار کے سوشل پروفائل کو دیکھنے کا رحجان بڑھ رہا ہے – کسی امیدوار کی صرف ایک غیر محتاط فیس بک پوسٹ اسے متوقع ملازمت یا ترقی سے محروم کر سکتی ہے –

Advertisements
julia rana solicitors

IP ایڈریس کے ذریعے کسی ڈیوائس کے استعمال ، کسی دوسرے IP کو بھیجے گئے پیکٹ سے متعلق معلومات ، ای میل کی interception ، پہلے سے بھیجی گئی ای میلز تک رسائی – یہ وہ تمام معلومات ہیں جو کسی بھی حکومت کو بہت آسانی سے میسر ہوتی ہیں – IP کو موثر طور پرچھپانا ایک عارضی حل ہو سکتا ہے لیکن حکومتیں ایسے افراد کو خاص طور پر مشکوک قرار دیتی ہیں – کمپیوٹر ، موبائل اور دوسری ڈیوائسز پر گوگل سمیت بہت سی مفت اور قیمت دے کر خریدی جانے والی سہولیات افراد، ان کے مزاج ، ضروریات ، خرچ کرنے کی ترجیحات وغیرہ کے متعلق معلومات اکٹھی کر رہی ہوتی ہیں – ان معلومات کو اکٹھا کرنے کا بیان کردہ مقصد اہم اور متعلقہ صارفین کی تلاش ہوتا ہے لیکن ان معلومات میں ایسی معلومات بھی ہوتی ہیں جن کا فوری طور پر کوئی استعمال نہیں ہوتا – بہت سی کمپنیاں یہ معلومات یا ان کا بڑا حصّہ مخصوص وقت کے بعد ضائع نہیں کرتیں بلکہ اسے مستقبل کے کسی متوقع منافع کے لیے ایکڑوں میں پھیلی ہوئی عمارتوں میں محفوظ رکھتی ہیں – ان معلومات کو ایسی شکل دی جاتی ہے کہ کسی صارف کے رحجانات سے متعلق بہتر اندازے لگائے جا سکیں – دوسری کمپنیاں انہی معلومات کو خرید کر اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں – معلومات کو محفوظ رکھنے کے اس نظام سے حکومتیں بھی بہت زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہیں -دہشت گردی سے متعلق اور دوسرے قوانین حکومتوں کو حق دیتے ہیں کہ وہ یہ معلومات حاصل کر سکیں – ان تمام کمپنیوں میں علیحدہ سے ایسے ملازمین ہوتے ہیں جو حکومتوں کی طرف سے آنے والی درخواست کا کم سے وقت میں جواب دے سکیں – ایک ایسی ہی کمپنی کے متعلق کہا گیا ہے کہ امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے ادائیگی کرکے اس کی ویب سائٹ سے اسے استعمال کرنے والے کسی بھی فرد کا GPS ریکارڈ حاصل کر سکتے ہیں –مختلف لوگوں کے پروفائل ان کے درمیان مشترکہ خصوصیات حتی کہ یہ اندازہ لگانے کہ وہ ایک ہی شخصیت کے پروفائل ہیں کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں –
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انٹرنیٹ کے آنے سے حکومتی نگرانی کا نظام بہت مضبوط ہوا ہے – جو لوگ انٹرنیٹ پر activism کرتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے تمام تر پہلوؤں کو ذہن میں رکھ کر اپنی حکمت عملی ترتیب دیں –
نوٹ : یہ مختصر سی تحریر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کے لیے نہیں بلکہ Surveillance Studies کے حوالے سے فیس بک کے عام user کو کچھ معلومات دینے کے لیے لکھی گئی ہے –

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply