سلمان حیدر نے خواب دیکھا

ہمارے اجداد یقینناً دیوتا نہیں تھے. اشوکا کے بدھ مت تسلیم کر لینے کےبعد کوئی کسر نہیں رہتی کہ وہ دیوتا نہیں تھے. یقیناً پرومیتھیس سے نیوس تک وہ کسی کی خصوصیات نہ رکھتے. تاریخی طور پر بھی انہوں نے ایسا سراغ نہ چھوڑا کہ ہم میں سے کوئی یہ جان سکتے کہ وہ کیا تھے اور کیا نہیں تھے. وہ یقیناً بھول بھلیوں کو پسند کرتے تھے. پھر یہی کچھ بارہویں صدی سے انیسویں تک چلا اور بیسویں میں تو منکشف ہو گیا کہ انہیں دیوتا سمجھنا سورج کو چراغ دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں. بھلا اگر وہ دیوتا ہوتے تو کبھی منوں یا مہاویر جیسے شخص کو جنم دیتے جو انہی کے بھائی بندوں کو گوشت کھانے سے روکتا اور وہ جانوروں کی بجائے انسان کاٹ ڈالتے, یا اشوکا جیسا امن پسند اور بدھا جیسا سادھو.
اور شطرنج کھیلنے والے نواب, کیا پرومیتیھس سے باغی بن سکتے تھے.
حتیٰ کہ وہ اسقدر مقید تھے کہ کسی بورخیس نے انکے ہاں جنم نہ لیا, جو انہیں خواب میں ہی سہی, آزاد تو کر دیتا. وہ کوئی کتاب خانہ بناتا جس میں ساری دنیا کی کتابیں رکھی ہوتیں, ان کتابوں کے تراجم اور لغات اور انکو پڑھ کر ہم اس دنیا میں چلے جاتے جہاں ہم جانا چاہتے. اور ہم فقط ہمزاد کیساتھ جنگ کو ہی اصل جنگ خیال کرتے.
مگر افسوس ایسا کچھ نہ ہونا تھا.
پھر کچھ لوگوں نے خواب دیکھے, ایسے خواب جن کو ہر کوئی دیکھنا چاہتا ہے, امن و آشتی کے خواب, عشق و چاہ کے خواب, برابری و رواداری کے خواب. ایسے خواب جو ولی سورنسن نے اپنے افسانوں میں لکھے یا مارٹن لوتھر نے اپنی تقریروں میں بتائے.
مگر یہ خواب شطرنج کی ان بازیوں پہ مشتمل تھے جن کا جوا جان سے ہاتھ دھونا رکھا گیا یا اذیت, ایسی اذیت جو جولیس فیوچک نے سہی, اور پھر بھی انہوں نے اسے قبول کیا.
اس قبیلے کا سب سے حالیہ خواب گر سلمان حیدر تھا, شاید اسے اسکی شرط یاد کرائی جانی ہو یا عین ممکن ہے وہ یہ شرط ہار جائے لیکن وہ خواب دیکھنے والوں میں شامل تھا.
کیا سلمان حیدر مات کھا جائے گا.
وہ خواب دیکھنے والا سلمان حیدر

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply