پروفیسر سلمان حیدر کا اغوا اور ریاستی ذمہ داریاں

پروفیسر سلمان حیدر کا اغوا اور ریاستی ذمہ داریاں
پاکستان میں بسنے والوں کی یہ بد قسمتی ہے کہ ذہین دماغ اور سچ بولنے والے لبوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔پروفیسر سلمان حیدر فاطمہ جناح یونیورسٹی میں شعبہ تدریس سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ایک معروف اور سر گرم سماجی کارکن بھی ہیں اور ملک میں اچانک گھروں سے غائب ہونے والے افراد بالخصوص بلوچوں کے لیے وہ ایک طاقتور آواز بھی۔اسی طرح وہ سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت کلاسیکی لہجے کےشاعر بھی ہیں ۔ بنیاد پرستی اور تکفیریت کے خلاف ان کی لکھی گئی نظم نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ہے۔وہ بے شک بیک وقت کئی محاذوں پہ انسانیت کے لیے لڑ رہے ہیں اور ان کی سوچ نے معاشرے کے عدل پسند اور اہل درد افراد کو متاثر کیا۔ سلمان حیدر کی سرگرمیاں بے شک ظلمت کے سفیروں کے لیے نا پسندیدہ ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد کی فاطمہ جناح یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر سلمان حیدر جمعہ چھ جنوری کی رات سے لاپتہ ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان کی گاڑی مل گئی ہے لیکن وہ خود کہاں ہیں، اس بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں۔سلمان حیدر پاکستان میں بنیاد پرستی کے خلاف آواز اٹھانے والی ایک ممتاز شخصیت قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کی اہلیہ کے مطابق ان کا اپنے شوہر سے آخری رابطہ جمعے کی رات ہوا تھا، جس دوران پروفیسر حیدر نے کہا تھا کہ وہ شب آٹھ بجے تک گھر لوٹ آئیں گے۔سلمان حیدر کے بھائی ذیشان حیدر کے مطابق جب رات دس بجے تک سلمان گھر واپس نہ آئے تو انہوں نے موبائل فون سے رابطے کی کوشش کی لیکن سلمان کا فون بند تھا۔ ذیشان حیدر نے بتایا کہ سلمان اپنے دوستوں کے ہمراہ بنی گالا گئے تھے۔پروفیسر سلمان حیدر کے بھائی ذیشان حیدر نے میڈیا و پولیس کو یہ بھی بتایا کہ بعد ازاں سلمان کے موبائل فون سے ہی ان کی اہلیہ کو ایک ایس ایم ایس پیغام موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا ان کی گاڑی کورال چوک پر موجود ہے اور کوئی جا کر اسے لے آئے۔مقامی میڈٰیا نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ سلمان حیدر کی گاڑی کورنگ ٹاؤن کے قریب سے ملی ہے جبکہ تھانہ لوئی بھیر میں ان کے اغواء کی رپورٹ درج کر لی گئی ہے۔ یہ مقدمہ سلمان حیدر کے بھائی ذیشان حیدر کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے سلمان حیدر کے لاپتہ ہو جانے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ان کی بازیابی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
یہ وہ ابتدائی معلومات ہیں جو ابھی تک میڈیا میں پولیس اور سلمان حیدر کے بھائی کے ذریعے نشر ہو چکی ہیں۔ابھی تک سلمان حیدر کے اغوا کی کسی گروپ یا تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔اگرچہ وزیر داخلہ نے پولیس کو تمام تر وسائل بروئے کار لا کر سلمان حیدر کو بازیاب کرانے کا ٹاسک دیا ہے ،مگر کیا یہ وہی ملک نہیں ہے جہاں سے ایک سابق وزیر اعظم کا بیٹا اغوا ہوا اور اسے کوئی بھی بازیاب نہ کرا سکا ،الا کہ اغوا کاروں نے اسے مجبوراً ہی چھوڑ دیا؟ کیا یہ وہی ملک نہیں ہے کہ جہاں سے ایک سابق مقتول گورنر کے بیٹے کا اغوا کر لیا گیا اور پھر اغوا کاروں نے اپنی مرضی سے اسے چھوڑ دیا،البتہ کوئی ادارہ ان مذکور مغویوں کو بازیاب نہ کرا سکا۔حالانکہ سابق وزیر اعظم نے تو مدرسہ اکوڑہ خٹک سے بھی اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے باقاعدہ مدد مانگی تھی۔یہ دو مثالیں دینے کا مقصد یہی ہے کہ وزیر اعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔اگر اس کا بیٹا مدتوں اغوا رہا اور ملک کا وزیر اعظم رہنے والا شخص ایک مدرسے کے مولوی سے مدد مانگ رہا ہو تو پھر جان لیجئے کہ ملک پر بنیاد پرست قوتوں کی کمان کس قدر مضبوط اور خطرناک ہے۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ تو بھی کافر،میں بھی کافر،نظم تخلیق کرنے کے بعد پروفیسر صاحب کچھ عرصہ آزاد بھی گھومتے رہے اور دوستوں کے ساتھ محفلیں بھی جماتے رہے۔ وگرنہ اتنی جرات کے بعد فتویٰ گرانِ شہر متحرک ہوجایا کرتےہیں اور پھر کوئی نہ کوئی حوروں کا متلاشی روشنی کی دیے کو پھونک مار دیتا ہے۔
وہ معاشرے جہاں کفر و قتل اور جنت و دوزخ کے ٹکٹ ہاتھوں ہوتھ دیے جاتے ہوں وہاں اہل درد اور سوچنے والے دماغوں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اہل درد کہاں یہ احتیاطیں برتتے ہیں۔ ان کے دلوں میں جہان کا درد سمایا ہوتا ہے۔بلوچوں کو ٹھوکر لگے یا ہزارہ کمیونٹی کی منصوبہ بند ٹارگٹ کلنک ہو،اے پی ایس کا واقعہ ہو یا پھر دہشت گردوں کا کوئی بھی وار۔ہر شہید اور ہر زخمی،انھیں اپنا محسوس ہوتا ہے۔بے جرم و خطا کالی کوٹھڑیوں میں ڈال دیے جانے والے بھی تو سلمان حیدر کو دکھی کرتے تھے اور سچ کا یہ علمبردار ان کے لیے آواز بلند کرتا تھا۔ہمیں حیرت ہوتی ہے ملک میں کالعدم تنظیموں کے نمائندے تو سرکاری پروٹوکول اور حفاظتی انتظام میں پھرتے ہیں مگر وطن کا اصل اثاثہ،سکالرز اور ادیب سر راہ اٹھا لیے جاتے ہیں اور کسی بھی سیکیورٹی ادارے کو خبر نہیں ہوتی۔ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پروفیسر سلمان حیدر کی بازیابی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے،اغوا کار البتہ جان لیں کہ ہر وہ شخص جو اپنے دماغ سے سوچتا ہے،ہر وہ شخص جو امن کا خواہاں ہے ارو ہر وہ شخص جو بنیاد پرستی و تکفیریت کا مخالف ہے وہ اپنی ذات میں پروفیسر سلمان حیدر ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply