تذکرہ غداران وطن کی کچھ مزید غداریوں کا۔۔۔ راشد احمد

احمدی مسلئہ بقول بھٹو صاحب ہمیشہ کیلئے حل ہو چکا مگر پھر بھی ہر کچھ عرصہ بعد قوم اس مسلئہ کو زندہ کر لیتی ہے۔ کیپٹن صفدر کی حالیہ تقریر کے بعد اک بار پھر اس پر بات ہو رہی ہے۔ مکالمہ اس سے دور رہنا  چاہتا تھا مگر دوستوں کا خیال ہے کہ انکو موقف دینے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اطمنان البتہ یہ ہے کہ بھائی ظفر ہوں یا بھائی راشد، مکالمہ، مکالمہ کے اصولوں کے مطابق ہی کر رہے ہیں۔ دونوں کے مضامین قاری کو جذباتیت کے بجائے سوچ سے کام لینے اور  تحقیق کی دعوت دیتے ہیں۔مذہبی مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ لیکن ہمیں بس اتنی کوشش کرنی چاہیے کہ اک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں اور کسی بھی گروہ کے خلاف ایسی نفرت نا پھیلائیں جو پاکستان کو کمزور کرے۔ چیف ایڈیٹر

 

ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب اور اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھنے والے جناب ظفر الاسلام سیفی صاحب کا مضمون خاکسار کے ایک مضمون کے جواب میں مکالمہ پہ شائع  ہوا ہے جس میں آنجناب نے غداران وطن یعنی قادیانیوں  کی ملک وملت سے کی جانے والی  غداریوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔گواپنے  مضمون میں اس خاکسار نے جو’’ غداریاں‘‘ گنوائی تھیں  مضمون نگار ان کا توڑ تو نہیں کرسکے لیکن مزید کچھ افسانے کہے گئے ہیں۔موصوف کے اعتراضات کا خلاصہ کچھ یوں  ہے:

۱۔جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے قیام پاکستان میں قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا تھا کے جواب میں  سیفی صاحب فرماتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے فرمایا کہ ’’میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ملک کو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘چنانچہ خلیفہ صاحب کی ذاتی رائے کی وجہ سے  یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ احمدی غدار ہیں،یعنی سبحان اللہ۔

۲۔جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا یہ فرمانا کہ  ’’ یہ خدا کی مرضی ہے کہ ہندوستاں متحد رہے ،اگر ہم ہندوستاں کی تقسیم پر راضی رہے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کرینگے کہ کسی نہ کسی طرح متحد ہو جائیں ‘‘ سے بھی اس امر کی کافی شہادت حاصل ہوجاتی ہے  کہ احمدی پاکستان کے غدار ہیں۔

۳۔علامہ اقبال  نے کشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے جماعت احمدیہ  کے خلیفہ کا نام پیش نہیں کیا تھا کیونکہ اقبال ختم نبوت  کے عاشق تھے۔سبحان اللہ

۴۔چوہدری ظفراللہ خان نے کشمیر تک پہنچنے کے لئے انڈیا کو راستہ دیا اور باونڈری کمیشن میں حکومت کی اجازت کے بغیر رائے پیش کی۔ہوگئے ناں غدار؟

۵۔چوہدری ظفراللہ خان کو وزیر خارجہ قائداعظم نے مجبوری میں بنایا تھا  ورنہ وہ حسین سہروردی کو وزیر خارجہ بنانا چاہ رہے تھے۔اف خدایا ایسی بھی کیا مجبوری کہ ایک غدار اور دشمن دین وایماں کو وزارت خارجہ جیسی اہم ذمہ داری سونپ دی۔یہاں تو چوہدری صاحب سے  بڑے ’’مجرم‘‘ تو قائداعظم ٹھہرتے ہیں۔

۶۔چوہدری ظفراللہ خان ملک کے غدار تھے کیونکہ مسلم لیگ کے سئنیر رکن اسمبلی میاں افتخار الدین کا اسمبلی فلور پر بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ جس میں انہوں نے کہاکہ:’’ جناب عالی ،ہمارا وزیر خارجہ سر ظفراللہ کیا کر رہا ہے ،یہ شخص لازمی طور پر برطانوی مفادات کا نگہبان ہے ،ہمارا معزز وزیر خارجہ ہم سے بلکہ امریکہ سے بھی زیادہ برطانیہ کا وفادار ہے ،یہ کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑرہا بلکہ مزید اسکو الجھا رہا ہے۔ـ‘‘

۷۔راوالپنڈی سازش کیس میں احمدی افسران کا ملوث ہونا بھی بتلاتا ہے کہ احمدی غدار اور وطن کے دشمن ہیں۔

۸۔احمدی غدار ہیں کیونکہ  بھارت کے مشہور اخبار ’’ ہندوستان ٹائمز ‘‘ میں بھارت کے سابق کمشنر سری پرکاش کی خود نوشت سوانح عمری جو انیس سو چونسٹھ میں شائع ہوئی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ظفراللہ قادیانی نے انکے سامنے قائد اعظم کو گالی دی اور کہا کہ اگر پاکستان بن گیا توہندووں سے زیادہ مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔‘‘

۹۔احمدی ملک کے دشمن ہیں کیونکہ مشہور صحافی نیر زیدی لکھتے ہیں کہ جب کشمیر سے واپسی پر قائد اعظم سے یہ سوال پوچھا گیا کہ قادیانیوں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے تو آپ نے فرمایا کہ ’’ میری وہی رائے ہے جو علمائے کرام اور پوری امت کی ہے ۔‘‘

۱۰۔پچیس جولائی ۱۹۷۴ ء کو جسٹس ہمدانی کی عدالت میں ایک فوری نوعیت کا کیس زیر سماعت  ہوا جس کے بعض اجزاء خبر رساں ایجنسیوں کے حوالے کیے گئے جس کے مطابق قادیانی سربراہ مرزا ناصر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں بھٹو قتل کی منصوبہ بندی کی گئی۔

کچھ باتیں سیفی صاحب نے مزید برآں بھی ارشاد فرمائی ہیں لیکن ان کے الزامات کا خلاصہ  اوپر کے  دس پوائنٹس میں آگیا ہے۔آئیں ذرا تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے جیسے فاضل مضمون نگار فرما رہے ہیں یا کہانی کچھ اور ہے۔

سیفی صاحب جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ پوری تاریخ میں سے من پسند چیز اٹھا کر اسے من بھاتے معانی پہنا کر اپنا مقدمہ سچ کرنے کی سعی ناکام کرتے ہیں.یہ نہیں جانتے کہ تاریخ اپنا فیصلہ سنا چکی ہے کہ قیام پاکستان کی ہر بنیادی اینٹ پر جماعت احمدیہ کی بھرپور کاوشیں نقش ہیں۔دشمن بھی جن کا اقرار کرنے پہ مجبور ہے!

پاکستان کی بنیاد بننے والے 1946 کے الیکشن ہوں یا قائد اعظم کو انگلستان سے واپس لانے کی کوششیں ہوں جماعت احمدیہ ہمیشہ پیش پیش رہی ہے.ہندوستانی سیاست سے مایوس ہوکر لندن جا بیٹھنے والے قائد اعظم کو لندن مشن کے امام مولانا عبدالرحیم درد صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی ہدایت پہ قائل کیا کہ وہ ہندوستان واپس تشریف لاکر مسلمانان ہند کی خدمت کریں.قائد اعظم خود اس حوالہ سے فرماتے ہیں:

“The eloquent persuasion of the Imam left me no escape,”

ترجمہ:۔ امام (بیت الفضل لندن)کی وسیع و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کےلئے نہ چھوڑی۔ ‘‘

(Madras Mail 7th April 1933)

یہ غداران وطن کا کارنامہ تھا کہ روٹھے ہوئے قائد کو منا کر واپس لائے جس کا اقرار خود قائد کو بھی تھا۔اگر قائداعظم واپس نہ آتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی اور شاید پاکستان کا وجود بھی نہ ہوتا لیکن سیفی صاحب جیسے محبین وطن کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ رکھنے والوں کی نظر میں  یہ بھی  غداری ہی ہے۔

1946 کے الیکشن میں جب اکثر مذہبی تنظیمیں کانگریس کے پرچم تلے  ایک ہوئی ہوئی تھیں اس وقت جماعت احمدیہ پوری قوت سے مسلم لیگ کے ساتھ کھڑی تھی اور اسی وجہ سے احمدیوں نے اپنے شدید مخالفین کو بھی ووٹ دیئے کیونکہ وہ مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔سردار شوکت حیات قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔آئیں ذرا ان کی گواہی دیکھتے ہیں۔وہ اپنی کتاب ’’گم گشتہ قوم‘‘ کے صفحہ ۱۳۹ پہ لکھتے ہیں:

“ایک دن مجھے قائداعظم کی طرف سے پیغام ملا شوکت!مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم بٹالہ جا رہے ہو جو قادیان سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔تم وہاں جاو اور حضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاو کہ وہ پاکستان کے حصول کے لئے اپنی نیک دعاوں اور حمایت سے نوازیں۔جلسہ کے اختتام کے بعد نصف شب تقریبا بارہ بجے قادیان پہنچا تو حضرت صاحب آرام فرما رہے تھے۔میں نے ان تک پیغام پہنچایا کہ میں قائداعظم کا پیغام لیکر حاضر ہوا ہوں۔وہ اسی وقت نیچے تشریف لائے اور استفسار کیا کہ قائداعظم کے کیا احکامات ہیں؟میں نے کہا وہ آپ کی دعا اور معاونت کے طلبگار ہیں۔انہوں نے جوابا کہا کہ وہ شروع سے ہی ان کے مشن کے لئے دعا گو ہیں اور جہاں تک ان کے پیروکاروں کا تعلق ہے کوئی احمدی مسلم لیگ کے خلاف انتخاب میں کھڑا نہ ہوگا اور اگر کوئی اس سے غداری کرے گا تو ان کی جماعت کی حمایت سے محروم رہے گا۔‘‘

انہی انتخابات کے بعد جماعت احمدیہ کی بھرپور مدد اور تعاون سے مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ تنظیم کے طور پر سامنے آئی اور یہی انتخابات قیام پاکستان کی بنیاد بنے۔قائداعظم نے اپنے اخبار ’’ڈان‘‘ میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا خط بھی شائع کیا جس میں تمام احمدیوں کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

بصد احترام سوال یہ ہے کہ کیا غدار اپنی غداریاں یونہی انجام دیا کرتے ہیں  ؟سردار شوکت حیات احمدی نہیں تھے لیکن سچی گواہی انہوں بھی بیان کردی۔

جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ  جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی رائے تھی کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  اس کے جواب میں صرف اس قدر کافی ہوگا کہ علامہ اقبال  سے لیکر مولانا مودودی تک ہر ایک کی یہی رائے تھی کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہئے۔علامہ اقبال کے جس خطبہ کی وجہ سے انہیں پاکستان کا مصور مان لیا گیا ہے اس میں بھی مسلمان صوبوں کے قیام کی بات کی گئی تھی نہ کہ علیحدہ وطن کی۔اگر یہ رائے رکھنے سے جماعت احمدیہ کے خلیفہ خدانخواستہ غدار ہیں تو اس غداری کے سرغنہ تو اقبال ہوئے۔خودقائداعظم کی آخر تک یہی کوشش تھی کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو،لیکن یہ حقائق ان لوگوں کے لئے ہیں جو تاریخ میں شعوری دلچسپی رکھتے ہیں۔جن کا شغل دن رات نظریاتی سرحدوں کے نقش بنابنا کر ان کی حفاظت پہ خود کو مامور کرنا ہو انہیں  یہ باتیں دور ازکار اور غداری  معلوم ہوتی ہیں۔

جماعت احمدیہ کے خلیفہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے واپس ہندوستان جانے کی بات کی ہے تو اس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:

’’دراصل بات یہ ہے کہ ایک خبررساں ایجنسی کے مالک نے مجھ سے پوچھا کہ کیا احمدی قادیان جانے کا خیال رکھتے ہیں یا ربوہ ان کا مستقل مرکز ہوگا۔ میں نے ان سے جواباً کہا کہ ’’قادیان ایک مذہبی مرکز ہے اور اس سے ہر ملک کے احمدی مذہبی عقیدت رکھتے ہیں اس لئے اس کے مرکز ہونے کی حیثیت کو میں یا کوئی اور تبدیل نہیں کرسکتا۔ جب بھی وہاں حالات سازگار ہوں گے وہ احمدی جو وہاں عقیدت یا کام کی وجہ سے جاسکتے ہوں جائیں گے۔ اس کے علاوہ انتظامی طور پر میں نے ہندوستان یونین کے سوا دوسرے تمام احمدیوں کو پاکستان کے ماتحت کردیا ہے تاکہ کوئی سیاسی پیچیدگی پاکستان کے خلاف پیدا نہ ہو اور اسی وقت دوسرے ممالک کے احمدیوں کو قادیان کے ماتحت کیا جائے گا جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو الجھن ہے وہ دور ہوجائے۔ یقیناً یہ بات پاکستان کے حق میں تھی اور ہے۔ اگر پاکستان سے ہمیں وفاداری نہ ہوتی تو پاکستان کے باہر احمدیوں کو ہم پاکستان کے مرکز کے ماتحت کیوں کرتے۔؟‘‘

جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا پاکستان سے  اس غیر مشروط وفاداری  کا یہ بیان اس وقت کے ملکی اخبارات میں نہ صرف شائع شدہ موجود ہے بلکہ سیاسی تاریخ کی کتب میں بھی درج ہے،لیکن آنکھ جب من پسند چیزوں کو ہی پسند کرنے لگ پڑے تو سفید بھی سیاہ ہی دکھتا ہے۔

رئیس احمد جعفری  اپنی کتاب ’’قائد اعظم اور ان کا عہد‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’مسلم قوم کی مرکزیت،پاکستان یعنی ایک آزاد اسلامی حکومت کے قیام کی تائید مسلمانوں کے یاس انگیز مستقبل پرتشویس عامۃ المسلمین کی صلاح وفلاح نجاح ومرام کی کامیابی،تفریق بین المسلمین کے خلاف برہمی اور غصہ کا اظہار کون کررہا ہے؟امر باالمعروف اور نہی عن المنکر اور جماعت حزب اللہ کا داعی اور امام الہند؟نہیں!پھر کیا جانشین شیخ الہند اور دیوبند کا شیخ الحدیث؟ وہ بھی نہیں؟پھر کون لوگ؟

وہ لوگ جن کے خلاف ’’کفر‘‘ کے فتووں کا پشتارہ موجود ہے۔جن کی نامسلمانی کا چرچا گھر گھر ہے۔جن کا ایمان جن کا عقیدہ مشکوک مشتبہ اور محل نظر ہے۔کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے

کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی

کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے

سیفی صاحب نے فرمایا ہے کہ اقبال چونکہ ختم نبوت کے عاشق تھے اس لئے وہ جماعت احمدیہ کے امام کا نام بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی کے پیش ہی نہیں کر Image result for ‫قائداعظم اور انکا عہد ریئس‬‎سکتے تھے ۔سیفی صاحب کی معلومات میں یہ بات یقینا ازحد اضافہ کرے گی  کہ اقبال ایک وقت میں نہ صرف احمدی تھے بلکہ احمدیت کو اسلام کا ٹھیٹھ نمونہ کہتے تھے۔میں سیفی صاحب کی طرح  ’’نامعلوم‘‘ حوالہ جات کی بات نہیں کررہا  بلکہ  اقبال کی پچاسویں برسی کے موقع پر اقبال اکادمی نے ایک ضخیم مجلہ شائع کیا تھا اس میں اقبال کا یہ بیان شامل ہے جو انہوں نے 1910 کے خطبہ علی گڑھ میں  کہا تھا:

’’جماعت احمدیہ اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے‘‘

اقبال کے قادیان جاکر حضرت مرزا صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی گواہی  مولوی محی الدین قصوری ایڈووکیٹ’’  منیر انکوائری رپورٹ‘‘ میں دے چکے ہیں  کہ اقبال نے ان کے ہمراہ 1897 میں قادیان جاکر بانی سلسلہ احمدیہ کی بیعت کی تھی۔گو اقبال اس بیعت کو نباہ نہ سکے لیکن  یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اقبال  ۱۹۳۵ تک جماعت احمدیہ کی مساعی کی  تعریف کرتے تھے۔اقبال نے اپنے بیٹے آفتاب اقبال کوقادیان حصول تعلیم کے لئے بھجوایا تھا۔1935 میں امام جماعت احمدیہ نے اقبال کی مخالفت پر انہیں ایک خط لکھا جس میں  انہیں مخاطب کرکے کہا گیا کہ آپ کے والد احمدی تھے اور آپ کے بڑے بھائی صاحب جو اس وقت آپ کی کوٹھی میں مقیم ہیں  وہ بھی احمدی  ہیں  اور آپ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد بھی احمدی ہیں۔اقبال  بڑے بھائی کی موجودگی میں ان حقائق کی  تردید کی جرات نہیں کرسکے۔اس لئے یہ کہنا کہ اقبال ختم نبوت کے عاشق تھے اور جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا نام پیش نہیں کرسکتے تھے دعوی بلا دلیل ہے جس کے حق میں مصنف کے  توشہ خانے میں چند اشعار کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

اگر سیفی صاحب کی تسلی نہیں ہوئی تو اقبال کے گھر کی گواہی پیش ہے۔فرزند اقبال اور مصنف ’’زندہ رود‘‘ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب صفحہ نمبر  ۵۸۴ پر  لکھتے ہیں:

’’برصغیر کے بیشتر علماء نے تو ابتداء ہی سے مرزا غلام احمد کے دعوی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔۔۔یہ سب حقائق اقبال کے علم میں تھے لیکن اس کے باوجود وہ خاموش رہے۔اقبال نے کم از کم مولانا سید میر حسن یا شیخ نور محمد کی زندگی میں احمدیوں سے کسی بھی قسم کا مناظرہ کرنے سے احتراز کیا۔‘‘

اقبال نے جماعت احمدیہ کی مخالفت ۱۹۳۵ میں شروع کی۔اگر ختم نبوت کے موصوف اتنے ہی عاشق تھے تو ۱۹۳۵ تک کیوں لب سیئے رہے۔فرزند اقبال لکھتے ہیں:

’’اقبال احمدیوں سے من حیث الجماعت ۱۹۳۳ میں مایوس ہوئے لیکن انہوں نے تحریک احمدیہ کے خلاف اپنا پہلا بیان دو سال بعد یعنی ۱۹۳۵ میں دیا۔‘‘

1935میں مخالفت پر کمر بستہ ہونے کی داستان بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔یہ وہی سال ہے جس میں وائسرائے کونسل کے رکن سر فضل حسین  کی رکنیت ختم ہورہی تھی۔ان کے جانشینی کے لئے سر اقبال اور چوہدری ظفراللہ خان کے نام لئے جارہے تھے۔وزیر ہند نے اس عہدہ پر چوہدری ظفراللہ صاحب کا تقرر کردیا۔مئی ۱۹۳۵ میں چوہدری صاحب نے چارج لیا تھا۔یہ وہی دور تھا جب مجلس احرار وہمنوا احمدیت مخالفت میں دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔اپریل 1935 میں اقبال اس مہم میں شریک نہیں تھے لیکن مئی 1935 میں اس مہم میں شامل ہوگئے۔ہے ناں دلچسپ بات؟اگر اقبال کا تقرر بطور رکن کونسل ہوجاتا تو شاید آج اقبال بھی گالیاں کھا رہا ہوتا ۔اس دلچسپ امر پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار ’’سیاست‘‘ لاہور نے لکھا:

’’چوہدری ظفراللہ خان کے تقرر کے بعد اقبال کی حمیت ختم رسل(فدا ابی وامی) میں کیوں جوش آیا؟‘‘

کشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا نام بھی اقبال نے ہی پیش کیا تھا۔ایم ڈی تاثیر کی بیگم اپنی کتاب  ’’دی کشمیر آف شیخ عبداللہ‘‘ میں لکھتی ہیں:

’’علامہ اقبال نے  تحریک احمدیہ کے سپریم ہیڈ مرزا بشیرالدین محمود احمدکی خدمت میں  درخواست کی کہ وہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ بنیں۔‘‘

اس کے علاوہ علامہ اقبال کے خطوط بھی موجود ہیں جن میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے امام کو منظم جماعت کا امام ہونے کے ناطے ’’بہت مفید کام‘‘ مسلمانوں کے لئے سرانجام دینے کی  بات کی ہے۔سیفی صاحب امید ہے اتنے ہی لکھے کو بہت جانیں گے۔

اگلا اعتراض سیفی صاحب کا یہ ہے کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے باونڈری کمیشن میں  حکومت کی اجازت کے بغیر ایسی دستاوزی جمع کروائیں جن سے کشمیر ہندوستان کی جھولی میں جاگرا۔یہ موضوع الگ سے مضمون کا تقاضا کرتا ہے جس پہ فقیر کا الگ سے شائع شدہ مضمون موجود ہے۔خلاصہ یہ کہ سیفی صاحب کو یہ تک معلوم نہیں کہ اس وقت  کسی ’’حکومت‘‘ کا وجود ہی نہیں تھا جس سے اجازت لینے کی نوبت آتی۔قائداعظم نے خود مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے چوہدری صاحب کو منتخب کیا تھا۔ باونڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے وکیل شیخ بشیر احمد صاحب نے میمورنڈم پیش کیا تھا نہ کہ سر ظفراللہ خان صاحب نے۔ اس امر سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ یار لوگ کس طرح سنی سنائی پہ اکتفا کرتے ہوئے الزام جڑ دیتے ہیں معمولی سی تحقیق کی بھی زحمت نہیں کرتے۔

سابق سفیر اور وزیر سید احمد سعید کرمانی باونڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے والے سنئیر وکیل سر محمد ظفر اللہ خان کے معاون وکلا میں شامل تھے ایک انٹرویو کے دوران احمد سعید کرمانی صاحب ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

”چودھری صاحب نےجو پھر بحث کی ،ایڈوکیسی کی ہسٹری میں، انڈیا کی نہیں، انگلینڈ کی نہیں، امریکہ کی نہیں، پوری دنیا میں اس کی ایک مثال نہیں۔ اور سیتل واڈا جو بعد میں انڈیا کا اٹارنی جنرل بنا وہ انڈیا کی طرف سے پیش ہو رہا تھا کانگریس کی طرف سے، اس نے کہا کہ اگر اس مقدمے کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہونا ہے توظفر اللہ خان جیت چکے ہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اچھے آرگومنٹس مسلم انڈیا کی طرف سے کوئی پیش کر سکتا ہے ۔‘‘

(از انٹرویو سعید احمد کرمانی مطبوعہ قومی ڈائجسٹ اگست2002صفحہ29۔30)

جسٹس منیر صاحب جو اس کمیشن کا حصہ تھے،سر ظفراللہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزام لگائے گئے ہیں کہ باونڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائد اعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے۔ لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملہ میں کی تھی۔ یہ حقیقت باونڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس معاملے میں دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے ۔چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے۔ ‘‘

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 209)

اس شرمناک ناشکرے پن کا سلسلہ ابھی تک پوری شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ ایسے بے بنیاد الزامات کی اوٹ سے کشمیر کا قضیہ چوہدری صاحب کے سرمنڈھنے کا افسانہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ سر ظفراللہ خان جیسے دور اندیش اور محنتی کارکنان کے ساتھ ہی قائد ملک بنانے میں کامیاب ہوئے، جنہوں نے اپنی زندگیوں کے قیمتی لمحات قائد کے نام کئے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ آج ان پر بے سروپا الزامات سے ان کا قد تو گھٹنے سے رہا، معترضین کی اپنی لاعلمی ضرور ظاہر ہوتی ہے۔

سیفی صاحب فرماتے ہیں کہ قائداعظم نے چوہدری ظفراللہ صاحب کو مجبوری کی وجہ سے وزیر خارجہ بنایا تھا حالانکہ وہ چاہتے نہیں تھے۔اس بے حوالہ و بے سند دعوے کی وجہ سے سیفی صاحب کے مطابق تو قائداعظم ہی مجرم ٹھہرتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے دشمن اور ایک غدار شخص کو محض مجبوری کی وجہ سے اتنا اہم عہدہ تفویض کردیا۔سیفی صاحب !یہ کوئی مجبوری نہیں تھی یہ وہی چوہدری صاحب تھے جن کا تزکرہ ابھی اوپر آپ پڑھ چکے ہیں جن کی خداداد صلاحیتوں سے قائداعظم جیسا دور اندیش شخص فائدہ اٹھا رہا تھا۔قائداعظم اصفہانی صاحب کے نام خط میں فرماتے ہیں:

’’ہمیں ظفراللہ خان جیسے آدمیوں کی ضرورت ہے ۔ہمارے پاس استعداد رکھنے والوں  لوگوں کی کمی ہے خاص کر چوہدری صاحب جیسی  صلاحیتیں رکھنے والوں کی اس لئے ہمیں پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے ہماری نظریں ظفراللہ خان کی طرف ہی اٹھتی ہیں۔‘‘

قائداعظم اور اصفہانی صاحب اس خط وکتابت کا عکس درج ذیل ہے۔اصفہانی صاحب کا جواب پڑھئے اور پھر بھی دل نہ مانے تو بیشک نعرہ لگائیے  گا کہ قائد نے انہیں مجبوری کی وجہ سے وزیر خارجہ لگایا تھا۔

جہاں تک میاں افتخارالدین کے بیان کی وجہ سے کسی کو غدار قرار دینے کا تعلق ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے  کیپٹن صفدر کی  حالیہ تقریر  کی وجہ سے کل کوئی کہنا شروع کردے کہ چونکہ کیپٹن صفدر نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ احمدی ملک دشمن ہیں اس لئے ثابت ہوگیا کہ احمدی ملک دشمن ہیں۔ہندوستان کے ’’کمشنر‘‘ کے بیان کی روایت و درایت دونوں مشکوک ہیں ۔خدا معلوم یہ کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کا ذکر ہورہا ہے یا  کسی ایمبیسی کے کمشنرکا۔سیفی صاحب مزید معلومات ارزاں کرسکیں تو ہم اپنا تبصرہ بھی اس پہ ضرور دیں گے۔جو آدمی ساری عمر قائد کے ساتھ رہا ہو اس کے اشاروں پہ کام کیا ہو اس کی طرف قائد کو گالیاں دینے کی بات منسوب کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ مودودی صاحب نے قائد اعظم کو کامیابی کی دعا دی تھی۔اگر قائد اعظم کے وفادار ساتھی ہی کھوٹے سکے تھے تو کھرے سکے کیا مودودی صاحب اور مولانا ابوالکلام آزاد کہلائیں گے جو قائدکے مشن کے خلاف تھے؟

سیفی صاحب نے ایک مشہور صحافی نیر زیدی کی طرف بھی بلا حوالہ ایک بات منسوب کی ہے کہ قائداعظم نے فرمایا کہ احمدیوں کے متعلق میری وہی رائے ہے  جو علمائے کرام اور پوری امت کی ہے۔یہ بیان فی ذتہ بتلا رہا ہے کہ اس کی درایت میں کافی پیچیدگیاں درآئی ہیں کیونکہ قائداعظم کو یہی ’’علمائے کرام‘‘ کافراعظم اور نجانے کیا کچھ کہہ رہے تھے اس لئے قائدکی طرف ایسی بات منسوب ہونا بظاہر لایعنی ہے۔

سیفی صاحب نے بڑے شدومد سے راوالپنڈی سازش کیس کا تذکرہ فرما کر احمدیوں کے غدار ہونے پر گویا مہر ہی لگادی حالانکہ اس غداری کیس میں ’’غداری‘‘ کے سوا سب کچھ تھا۔یہ ایک سیاسی چال سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا جسے اس وقت کے وزیر اعظم صاحب نے ہمدردی کی لہر حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔10مارچ کو الیکشن ہونا تھے جبکہ 8مارچ کو اس سازش کی بلی تھیلے سے باہر آئی اور حیرتناک حد تک میں اس میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سرکردہ لوگوں کو ملوث بتلایا گیا۔فیض صاحب جیسے نفیس انسان بھی اس ’’غداری‘‘ میں شامل تھے جنہوں نے فرمایا تھا کہ

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

سارے فسانے میں جو بات تھی ہی نہیں وہ یہ مبینہ ’’غداری‘‘ تھی۔سیفی صاحب فرماتے ہیں کہ :’’ ۔سجاد ظہیر کی کتاب ’’ پنڈی کیس ‘‘ پڑھ لی جائے تو طیعت اجلی ہوجائے گی‘‘ واقعتا طبعیت اجلی ہوگئی ہے کیونکہ سجاد ظہیر کی اس نام سے کوئی کتاب کبھی شائع ہی نہیں ہوئی۔سجاد ظہیر صاحب تو خود اس ’’غداری‘‘ میں ’’ملوث‘‘ تھے اور دیگر ’’غداروں‘‘ کے ساتھ حیدرآباد سینٹرل جیل میں مشاعرے پڑھ رہے تھے۔اگر اس میں ’’ملوث‘‘ احمدی افسران کی وجہ سے احمدی غدار ہیں تو اس میں ملوث دیوبندیوں کی وجہ سے دیوبندیوں کو غدار قرار دیں۔سلفیوں اور  بریلویوں کو بھی اسی غداری  کی لاٹھی سے ہانکیں۔صرف احمدی ہی کیوں؟اگر حکومت کے خلاف کسی ایجی ٹیشن کو غداری قرار ہی دینا ہے تو ایسی غداریوں کے سرغنہ ہمیشہ سرکاری مسلمان ہی رہے ہیں۔ایوب خان سے لیکر سید پرویز مشرف تک کبھی کوئی احمدی بفضلہ تعالی اس ’’غداری‘‘ میں شامل نہیں ہوا۔نجانے کیوں اس ’’سازش کیس‘‘ میں سیفی صاحب کی دلچسپی دیکھ کر وہ لطیفہ یاد آرہا ہے جس کے آخر میں بیرا یہ کہہ کر گاہک کا منہ  بند کرتا ہے کہ جناب کیا کشمیر پلاؤ میں آپ کو پورا کشمیر ڈال کر پیش کریں؟جس طرح کشمیر پلاو میں کشمیر نہیں ہوتا بعینہ پنڈی سازش کیس میں سازش بھی نہیں تھی۔اس موضوع پہ جتنی وقیع کتب دستیاب ہیں ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ کسی طرح کی کوئی غداری کبھی ہوئی ہی نہیں۔

ایئر مارشل ظفر چوہدری صاحب کی خودنوشت سوانح عرصہ سے شائع شدہ موجود ہے جس میں انہوں نے بھٹو سے اپنے مثالی تعلقات سے لیکر اختلافات تک کی ساری کہانی لکھی ہے اسے پڑھ لیجئے ان شاء اللہ طبعیت اجلی ہوجائے گی۔ سجاد ظہیر کی کتاب کی طرح نہیں جوکہ موجود ہی نہیں ظفر چوہدری کی کتاب موجود ہے۔

جماعت احمدیہ کے خلیفہ  کے خلاف  بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی و الا الزام بھی سجاد ظہیر کی کتاب کی طرح ہے جس کا کبھی وجود ہی نہیں رہا۔جسٹس ہمدانی نام کا کوئی کمیشن بھی کبھی بنا ہی نہیں۔ہاں البتہ جسٹس صمدانی کمیشن ضرور بنا تھا جس نے ربوہ میں ہونے والے واقعہ کی تحقیق کرکے  اس الزام کے غبارے سے ہوا نکالی تھی کہ ربوہ میں نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ  کو جانوروں کی طرح پیٹا گیا۔متعدد کو جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے اور متعدد شدید زخمی۔کمیشن  کی تحقیقات یہ تھیں کہ چند طلبہ کو بس معمولی چوٹیں ہی آئیں تو کیوں نہ یہ قیاس کرلیاجائے کہ قتل کا الزام بھی اسی قبیل سے تھا۔مزیدبرآں جماعت احمدیہ کے امام پاکستان میں ہی موجود رہے اور اس کے بعد لمبا عرصہ پارلیمنٹ میں حاضر ہوکر اپنے عقائد بیان کرتے رہے۔اگر وہ خدانخواستہ غدار تھے اور سربراہ مملکت کے قتل کی سازش کررہے تھے تو حکومت نے انہیں گرفتار کیوں نہ کیا؟انسان کو اتنی لمبی چھوڑی چاہئے جس پر بعد میں گرفت بھی ممکن ہوسکے۔

سیفی صاحب کو جرمنی کے ایک احمدی  کی ذاتی رائے تو نظر آگئی جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایٹم بم نہیں بنانا چاہئے تھا لیکن اس وقت کے پاکستان میں جماعت احمدیہ کے سربراہ اور موجودہ خلیفہ مرزا مسرو احمد صاحب کا وہ پیغام نظر نہیں آیا جو انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب کو لکھا تھا  کہ ہم آپ کو اس موقع پہ مبارک باد پیش کرتے ہیں۔یہ پیغام جماعت احمدیہ کے اخبار روزنامہ الفضل میں نمایاں طور پر شائع ہوگیا تھا۔جمہوریت میں اظہار ارائے کی آزادی ہے۔اگر کسی شہری کے نزدیک ریاست کو ایٹمی دھماکے نہیں کرنے چاہئیں  تو وہ یہ رائے رکھنے میں آزاد ہے۔اس سے کسی کو غدار قرار دے دینا  حماقت ہی نہیں مزید حماقت شمار ہوگی۔سوال یہ ہے کہ کیا جماعت احمدیہ نے اس الزام کو اون کیا یہ ڈس اون کیا؟تو جواب ہے کہ مذکورہ صاحب کو ان کے عہدے سے برخواست کرکے جماعت احمدیہ نے اس انفرادی بیان کو ڈس اون کیا۔جماعت کا موقف وہی ہے جو الفضل میں شائع چکا۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا پاکستان چھوڑنا غداری ہے تو جتنے پاکستانی بیرون ملک آباد ہیں کیا وہ سب بھی غدار ٹھہریں گے؟کیا سلام صاحب بعد میں پاکستان آتے نہیں رہے؟کیا وہ پاکستان میں سائنسی تعلیم کی ترویج کے لئے کوشاں نہیں رہے؟کیا انہوں نے خطیر رقم پاکستانی طلبہ کے لئے وقف نہیں کی؟کیا سلام نے باوجود متعدد آفرز کے باوجود  دیگر ملکوں کی شہریت   رد نہیں کی؟ان سب کا جواب مثبت میں ہے۔کیا سلام نے بعداز مرگ اپنی مٹی میں دفن ہونا پسند نہیں کیا؟ملک سے غداری کرنے والا ایسا ہی کیا کرتا ہے؟عجب آپ کے معیار ہیں ایمان کے بھی۔حب الوطنی کے بھی!قومی لباس پہن کر اور قرآن مجید کی تلاوت کرکے اپنا انعام وصولنے والا غدار اور قوم کے بیٹوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والے اپنے بھٹکے ہوئے بھائی۔آہ افسوس اس قوم پر جو مچھر چھانتی ہے اور اونٹ نگل جاتی ہے۔

آخر پر ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب اور اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھنے والے جناب ظفر الاسلام سیفی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ ہمارا مطالبہ قطعاً یہ نہیں کہ آپ اپنے مذہبی معتقدات کو چھوڑ دیں۔۔ ہماری گذارشات کا حاصل فقط اس قدر ہے کہ آپ ہمیں اپنے مذہبی معتقدات کے مطابق رہنے دیں۔‘‘ یعنی سبحان اللہ۔احمدیوں سے مطالبہ یہ ہے کہ خود کو مسلمان نہ کہو،کلمہ نہ پڑھو،قرآن مجید کی تلاوت نہ کرو روزے نہ رکھو حج پہ مت جاو لیکن فرمان عالیشان یہ کہ اپنے مذہبی معتقدات کو نہ چھوڑیں۔ہمیں قانون پاس کرکے کافر آپ کہیں لیکن  الزام ہم پہ یہ کہ ہم آپ کو مذہبی معتقدات سے ہٹا رہے ہیں۔ہم نے کب شکوہ کیا کہ ہمیں گائے ذبح کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہمارا شکوہ تو یہی ہے کہ ہمارے جو عقائد ہیں ہمیں ان پہ عمل کرنے دیا جائے لیکن آپ کہتے ہیں نہیں ایسا نہیں ہوگا۔کسی احمدی نے کبھی بھی  کسی کے مذہبی اعتقادات کو بدلنے کی کوئی بات ہی نہیں کی۔ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے جس طرح چاہے اپنے عقائد کااظہار کرے لیکن احمدیوں کو ’’سرکاری کافر‘‘ قرار دینے کے بعد بھی آپ فرماتے ہیں کہ بھئی ناں سلام نہیں کرنا قرنہ تین سال کے لئے جیل میں بند کردیں گے۔اسے خدا کی خود ساختہ ترجمانی کے علاوہ بھی کوئی نام دیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے۔

 

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply