چھوٹو

کیا نام ہے تمہارا؟
جی صاحب!چھوٹو۔۸ سے۱۰ سالہ بچے نے نائی کی دکان پر مجھے جواب دیا۔
گول مٹول بچے نے میلے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔میں اپنے بیٹے کے بال کٹوانے گیا تھا، جو اس کا ہم عمر تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ،میں اندازہ لگا چکا تھا کہ میرے بیٹے کی اس سے انتظار میں بیٹھے بیٹھے دوستی ہو چکی ہے۔
چھوٹو وہاں ہر طرح کے متفرق کاموں میں مصروف تھا۔ پانی گرم کرو، صفائی کرو اور سارے بال اکٹھے کرو، چادر جھاڑ کر لاوٗ، غرض ہر طرح کے کام کے لیئے اسی سے کہا جا رہا تھا۔ وہ بھی بھاگ بھاگ کر سب کر رہا تھا، اور ساتھ میں ڈانٹ بھی سنتا جا رہا تھا۔ ۳ نائی کام کر رہے تھے اور وہ اکیلا، تینوں کی ضروریات کے لیئے بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ ارے ادھر آ جلدی کر، کپڑا باہر جھاڑ کر لا، اور ہاںیہ پانی تیرا ابا گرم کرے گا؟ بہت سست ہوتا جا رہا ہے تو۔ استاد جی کو تیری شکایت لگانا پڑے گی۔ بعض دفعہ تو ایسے بھی ہوا کہ اس بچارے نے کام کرتے ہوئے معافی مانگی، کہ میری شکایت نہ کرنا ورنہ مجھے ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔
یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے میں تھوڑی دیر میں فارغ ہو چکا تھا۔ اپنے بیٹے کی اس کے ساتھ انسیت دیکھتے ہوئے میں مجبور تھا کہ بیٹے کی ضد پر اس کے لیئے بھی جوس کا ڈبہ لے لوں۔ دکان کے مالک سے چند منٹ کی اجازت لے کر اب میں اس کے ساتھ جوس کی دکان پر کھڑا تھا۔
چھوٹو تو کوئی نام نہ ہوا، تمہارا اصلی نام کیا ہے؟ میں نے پوچھا
امی ، ابو مجھے کامران کہتے ہیں۔ لیکن یہاں کام پر مجھے چھوٹو ہی بلایا جاتا ہے۔ وہ بولا
تمہیں تنخواہ کتنی ملتی ہے؟
وہ تو نہیں ملتی، مگر استاد مجھے کھانا ساتھ کھلاتے ہیں۔ میرا گھر بھی ان کے گھر کے قریب ہے۔ میں انہی کے ساتھ آتا جاتا ہوں۔ استاد کہتے ہیں ابھی میں جب تک کام سیکھ نہیں لیتا، ایسے ہی چلے گا۔ امی ابو بھی کہہ رہے تھے کہ ایک بار کام سیکھ لوں، پھر استاد سے بات کریں گے۔ اکیلے ابو سے گھر کا خرچہ نہیں چلتا، اس لیئے مجھے اسکول سے اٹھا لیا ہے۔
کتنے بہن بھائی ہو تم؟
جی ۹، ۷ بہنیں اور ہم ۲ بھائی۔ بھائی مجھ سے چھوٹا ہے۔ اسے بھی ایک میکینک کے پاس بٹھا دیا ہے۔
کتنا عرصہ ہو گیا ہے یہاں ؟ میں نے پوچھا!!
جی سال سے اوپر ہو گیا ہے۔ استاد کہتے ہیں میرا ہاتھ بڑا سچا ہے۔ اب کبھی کبھی وہ مجھے آخر میں کپڑا اتارنے دیتے ہیں ، اور پوڈ ر تو بس میں ہی لگاتا ہوں۔
میرے لیئے یہ ساری گفتگو بڑی ہی دل خراش تھی۔ مجھے رہ رہ کر اپنے جونئیر ڈاکٹر یاد آ رہے تھے۔ ڈیوٹی پر وقت پر پہنچے کہ نہیں؟ ایسے مریض کی ہسٹری لکھتے ہیں؟لگتا ہے تم نے سفارش سے امتحان پاس کیئے ہیں۔آج صبح میرے آنے سے پہلے سارے مریض کیوں نہیں دیکھے؟ مریض چھوڑ کر کیوں گئے؟ تمہاری ذمہ داری ہے اپنے مریضوں کے سارے ٹیسٹ جا کر کرواوٗ، ٹیسٹ کی رپورٹ خود لایا کرو، مریض کے تیماردار کو کیوں بھیج دیا؟ لگتا ہے تمہاری شکایت پروفیسر صاحب سے لگانا پڑے گی۔ ہاوٗس جاب میں تنخواہ کیسی؟ تمہیں Honorary Job دے دی، یہ تمہارے اوپر احسان ہے۔ اکثر رجسٹرار اور وارڈ کے سینئیر ڈاکٹر House Officers سے اسی طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔
’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ‘‘ ان کو یہ جتاتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ جن کے لیئے وہ استعمال ہو رہے ہیں، وہ اپنے فائدے کو دیکھے بغیر کبھی ان کی حمایت میں کھڑے نہیں ہوں گے۔ کاش’’ چھوٹو‘‘ کی عزت النفس اور کام کو ہم اتنی ہی اہمیت دیں جیسی ہم اپنی عزت اور کام کو دیتے ہیں، بغیر مجروح کیئے۔

Facebook Comments

عمران حسن خان
ایسوسی ایٹ پروفیسر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply