لمیٹڈ کمپنی۔۔وہاراامباکر

نکولس مرے بٹلر نوبل انعام یافتہ دانشور اور کولمبیا یونیورسٹی کے صدر تھے۔ ان سے 1911 میں کسی نے پوچھا کہ سب سے اہم ایجاد کیا تھی جس نے صنعتی انقلاب ممکن کیا؟ بھاپ کا انجن؟ بجلی؟ ان کا جواب تھا کہ نہیں، ایسی ایجادات اس بڑی اور طاقتور دریافت کے آگے کچھ بھی نہیں۔ وہ دریافت جس کی وجہ سے ہم نے جدید دور دریافت کیا۔ یہ “لمیٹڈ کمپنی” تھی۔
لمیٹڈ کمپنی کو دریافت کہنا عجیب لگے لیکن کارپوریشن اچانک ہی نمودار نہیں ہو گئیں۔ کارپوریٹ کا مطلب جسمانی شکل حاصل کرنا ہے۔ یہ فزیکل جسم نہیں بلکہ قانونی جسم ہے۔ قانون کی نظر میں کارپوریشن ایک الگ وجود ہے، جو اس سے منافع کمانے والوں سے، اس کو چلانے والوں سے اور اس میں ملازمت کرنے والوں سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے۔ قانون اس کو کچھ خاص طاقت، ذمہ داری اور حقوق دیتے ہیں۔ اثاثے رکھنے کا حق، معاہدے کرنے کا حق۔ ان کے بغیر یہ لفظ بے معنی ہوتا۔
جدید کارپوریشن کی پیدائش برطانیہ میں 1600 میں ہوئی۔ اس وقت انہیں بنانے کے لئے شاہی فرمان کی ضرورت تھی۔ اور یہ کسی خاص مقصد کے لئے بنائی جاتی تھی۔ چارٹر یہ بتاتا تھا کہ یہ کیا کر سکتی ہے اور اکثر اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ یہ والا کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔
اس پہلی کارپوریٹ کی پیدائش نئے سال کے پہلے روز ہوئی تھی۔ اس کو افریقہ (کیپ آف گڈ ہوپ) کے مشرق میں برطانوی بحری جہازوں کی تجارت کا حق دیا گیا۔ اس میں 218 حصہ دار تھے۔ اور سب سے اہم اور غیرمعمولی چیز یہ کہ ان سب کے لئے کمپنی کے کسی بھی ایکشن کی limited liability تھی۔
یہ اہم کیوں؟ کیونکہ ایسا نہ ہوتا تو سرمایہ کار ذاتی حیثیت میں اس بزنس کے ہر ایکشن کے لئے جوابدہ ہوں۔ اگر بزنس میں نقصان ہوا ہے جو وہ ادا نہیں کر سکتا تو قرض خواہ سرمایہ کار کے پاس وصولی کے لئے ذاتی حیثیت میں آئیں گے۔ اور یہ سوچنے کے لئے اہم نکتہ ہے۔
اگر میں نے ایک کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے اور وہ بالکل ناکام ہو جاتا ہے تو میری سرکایہ کاری ڈوب گئی۔ یہاں تک تو ٹھیک۔ لیکن اگر اس کاروبار میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے میرا گھر بک جاتا ہے یا مجھے جیل خانے بھیج دیا جاتا ہے تو پھر کون کسی کے ساتھ سرمایہ کاری کرے گا؟ شاید میں خاندان کے کسی فرد کے ساتھ ایسا کر لوں یا بہت ہو گیا تو قریبی دوست کے ساتھ۔ لیکن آج کے کاروبار ایسے نہیں ہوتے۔ لوگ ان کمپینیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جن کو چلانے والوں سے انہیں واقفیت بھی نہیں ہوتی۔ اور یہ اس وقت ناقابلِ تصور ہوتا اگر کمپنی کے کئے کی ہر ذمہ داری ذاتی طور پر مجھ پر آ جاتی۔
جب تک کاروبار چھوٹے ہوں، یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن برطانیہ کی آدھی دنیا سے تجارت سنبھالنا چھوٹا کاروبار نہیں تھا۔ ملکہ الزبتھ نے جس کارپوریشن کے قیام کرنے کا شاہی فرمان جاری کیا تھا، یہ تاریخ کی ایک اہم ترین لمیٹڈ کمپنی تھی جس کا نام ایسٹ انڈیا کمپنی تھا۔ اگلی دو صدیوں میں یہ کسی بزنس کے بجائے کسی کالونیل حکومت کی طرف پھیلی اور اس نے پورے برِصغیر پر حکومت کی۔ اس کے پاس اپنے عروج کے وقت دو لاکھ فوجی تھے۔ اس نے سول سروس قائم کی۔ اس میں داخلے کے میرٹ کا نظام قائم کیا۔ اپنے سکے تک جاری کئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی میں صنعتی ٹیکنالوجیز کو سرمایے کی ضرورت تھی اور بہت سے سرمائے کی ضرورت تھی۔ ریلوے، بجلی کے گرڈ جیسے بڑے انفراسٹرکچر بنائے جانے تھے۔ اور اس کے لئے لمیٹڈ کمپنی کی افادیت سامنے آئی۔
ہر ایجاد کی طرح اس کے اپنے مسائل تھے اور ہیں۔ کیا کمپنی چلانے والے پروفیشنل لوگ اس کے حصہ داروں کے پیسے اڑائیں گے یا ٹھیک طریقے سے اسے چلا بھی سکیں گے؟ کارپوریٹ گورنس کے قوانین آئے۔ (جو ہمیشہ کامیاب نہیں رہے)۔ اور ان قوانین نے اپنی ٹینشن پیدا کی۔ یہ سوال پیدا کیا کہ آخر کمپنی کا مقصد کیا ہے؟ اخلاقیات کیا ہیں؟ اور اس کے آسان جواب نہیں۔
ملٹن فریڈمین کا کہنا ہے کہ “بزنس کی سوشل ذمہ داری قانون کے دائرے میں رہ کر زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے۔ اگر لوگوں کو یہ پسند نہیں آتا تو کمپنی کو الزام مت دیں، قانون کو موردِ الزام ٹھہرائیں۔ اور قانون تبدیل کروائیں”۔ یہ اچھا راہنما اصول ہو سکتا تھا لیکن ایک مسئلہ ہے۔
کمپنیاں قوانین پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ اربابِ اختیار کو فنڈ کر سکتی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی سیاستدانوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی افادیت سیکھ لی تھی۔ جب 1770 میں قحطِ بنگال کی وجہ سے کمپنی کی آمدنی ختم ہوئی تو برطانوی قانون سازوں نے اسے دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے قانون سازی کی۔ اس میں چائے کی برآمد سے حاصل ہونے والے محصولات پر ٹیکس سے چھوٹ تھی۔ یہ وہ قانون تھا جس کی وجہ سے بوسٹن ٹی پارٹی کا واقعہ ہوا اور امریکہ کی برطانیہ سے آزادی کا سبب بنا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی آزادی کی ایک وجہ سیاستدانوں پر کارپوریٹ کا زیادہ اثر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارپوریٹ پاور آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے اور اس کی بڑی سادہ سی وجہ ہے۔ کارپوریشن کسی بھی جگہ، کسی بھی ملک میں بزنس منتقل کر سکتی ہیں۔ بار کوڈ، شپنگ کنٹنیر جیسی ایجادات کی وجہ سے عالمی سپلائی چین سکڑ گئی ہے۔ جب برطانوی قانون ساز ایسٹ انڈیا کمپنی سے تنگ آ گئے تھے تو انہوں نے سب سے بڑا حربہ استعمال کیا تھا۔ انہوں نے 1874 میں اس کا چارٹر واپس لے لیا تھا۔ کمپنی ختم ہو گئی تھی۔ آج کی ملٹی نیشل کے ساتھ کوئی بھی ملک ایسا نہیں کر سکتا۔
اور یہاں پر ایک دلچسپ نکتہ ہے۔ آج کی دنیا میں شاید ہی کوئی منصوبہ بند یا مرکزی کنٹرول والی معیشتوں کی طرف جانا پسند کرے۔ ماوٗ یا سٹالن کے نظام جہاں پر مرکزی ہائیرارکی فیصلہ کرتی تھی کہ کیا کرنا ہے۔ لیکن ایک کمپنی کے اندر فیصلے خود بالکل اسی طرح سے ہوتے ہیں۔ مرکزی کنٹرول اور ہائیرارکی ہی طے کرتی ہے کہ کیا ہو گا۔
یقیناً، بڑے اداروں کے بڑے اثر کے بارے میں فکرمند ہونے کے لئے بہت کچھ ہے۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہ لمیٹڈ کمپنی کے تصور کی یہ ایجاد کیا کر چکی ہے۔ اس نے بڑے صنعتی پراجیکٹ، نئی تحقیقات اور ڈھیروں ڈھیر ایجادات کو کئے جانا ممکن بنایا ہے۔ جس کمپنی کی بنائی ڈیوائس پر آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں، جس کمپنی کے مواصلاتی رابطوں سے یہ ڈیٹا پہنچ رہا ہے۔ فیس بک یا گوگل، موبی لنک یا سام سنگ ۔۔ لمیٹڈ کمپنی کے تصور کے بغیر یہ سب ممکن نہ تھا۔ فیملی اینڈ فرینڈز بزنس سے زیادہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ جدید دنیا اور اس کی اکانومی اسی تصور کا نتیجہ ہے جس کو نکولس بٹلر نے تاریخ کی اہم ترین دریافت کہا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply