“یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب”۔۔سھل شعیب ہمام

سارے کا سارا جھگڑا ،رولا رپھڑا اصطلاحات کا ہے اور یہ گھمن گھمیریاں فلسفہ و  منطق کی عطا ہیں جنہوں نے تصوف کو گنجلک نظام بنا دیاہے۔

تصوف،عرفان،روحانیت،فقر،معرفت،سلوک،زہد،طریقت،  ،وجودوشہود،فناوبقا،غوث و قطب و ابدال اور ایسی ہی کٰئی اور اصطلاحات ہیں جو اسلام کے صوفی دبستان سے جڑی ہوئی ہیں۔یہ ساری اصطلاحات اولین سطح پر لغوی معنی اور پھر اگلی سطح پر تعبیراتی و اطلاقی معانی کی کثرت کی وجہ سے اپنے مفاہیم میں بہت پیچیدگی لیۓ ہوۓ ہیں۔کچھ ارباب علم و دانش کے نزدیک یہ سارا سلسلہ ہی متنازع ہے اور متوازی دین کہہ کر اس کو”اصل” سے انحراف گرداناجاتا ہے۔یہ اس لیۓ ہے کہ ہم اس معاشرے میں پلے بڑھے ہیں جس کی فکری بنیادوں میں مناظرانہ خطابت کا اہم کردار رہا ہے جس کا پہلا اصول ہی مخالف نقطہ نظر کی تفہیم کی بجاۓتردید بمع تضحیک ہے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم مذہبی مباحث کو تاریخ اور سیاسی روایات کے اختلاف سے جوڑے رکھنے کے خوگر ہیں۔اس لیۓ ہمارے ہاں عربوں ،ترکوں،منگولوں کی تاریخ کو “ئاریخ اسلام” کا نام دیا جاتا ہے۔ماضی پرستی نے امت کے سیاسی زوال کے دنوں میں برتری کا عجیب خبط پیدا کر دیا کہ خود کو “اہل ایمان،ناجی اور مفلحون”قرار دینے کےلیۓ دوسرے کی تکفیر ضروری سمجھی جانے لگی ۔نو آبادیاتی نظام کے بعد مغربی تعلیم کے دروازے کھلے تو دینی مدارس کی الگ شناخت قائم ہوئی  اور علماۓ دین کی اجارہ داری قائم ہو گئی  کہ ان کے علاوہ  دینی مسائل پر راۓ رکھنے ،راۓ دینے کا کسی کو اختیار نہیں۔ دینی شناخت  اور سیاسی وابستگی بالعموم والدین اور اساتذہ سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور جس شدومد سے نظریاتی فیڈنگ ہوتی ہے،اسی شدت سے نئی  نسل اپناتی ہے۔چند ایک استثنائی  مثالیں ہو سکتی ہیں جنہوں نے اپنا راستہ خود تراشا۔والدین،ملا،پیر(مرشد)،حتیٰ کہ انگلش میڈیم سکولز کے اساتذہ اپنے من پسند عقائد اس طرح باربار ذہن نشین کراتے ہیں کہ ان کی گرفت سے نکلنے کے لیۓ ایک عمر تھوڑی پڑجاتی ہے۔

جب صوفیاء کے سلسلے کو متوازی دین اور “اصل” سے انحراف کہا جاۓ گا تو پھر “اصل” کی تلاش ضروری ہو جاتی ہے تاکہ اس راۓ کے حق یا خلاف بات آگے بڑھائی  جا سکے ۔مجھ سے طالبان علم بات ہی آگے بڑھا سکتے ہیں،حق یا باطل کا تعین نہیں کر سکتے۔جو معاملے پروردگار نے کھلے چھوڑ دیۓ ہیں،ان پر بات کرنے کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے بشرطیکہ  حتمیت اور قطعیت پر اصرار نہ کیا جاۓ کہ ایسا کرنا ایک تو منشاۓ خداۓ لم یزل کے خلاف ہوگا اور دوسرے یہ عمل کشادہ روی اور کشادہ ذہنی کے بنیادی علمی تقاضے کے خلاف ہے۔

دین اسلام کی اصل “اللہ سے جڑت” ہے۔توحید ،رسالت،آخرت کے عقائد اسی جڑت کا منشور و نظریاتی فریم ورک ہیں اور پھر کتاب و سنت اور احکام شریعت کی پاسداری وہ طریق ہے جس کا مقصود مکارم اخلاق کی تکمیل ہے۔کیا ان امور کے علاوہ بھی دین کی کوئی  اصل ہے؟میرے خیال میں “نہیں”۔اب آ جائیں تصوف کے موضوع پر۔تصوف کیا ہے؟اکابرین نے مختلف کتب میں تصوف کی مختلف تعریفیں اور تعبیرات بیان کی ہیں جن کو اس مقام پہ  دوہرانا مقصود نہیں۔اختصار ملحوظ رکھتے ہوۓ ان متفرق تعریفوں کا  خلاصہ پیش ہے:

“تصوف اس کا نام ہے کہ دل صاف کیا جاۓ اور شریعت میں حضرت محمد ﷺ کی پیروی کی جاۓ۔دل “اللہ”کےلیۓ خالی ہو اور ماسوا سے پاک ہو۔تصوف اس اشتیاق کا نام ہے جو ایک سالک کے دل و دماغ اور اس کی پوری جذباتی اور عقلی زندگی پر غالب آ جاتا ہے۔مذہب کا مقصود “اللہ” کے ساتھ مستقل و مسلسل ربط ہے اور تصوف کا طریق خبردار کرتا رہتا ہے کہ کہیں مقصود نگاہ سے اوجھل نہ ہو جاۓ۔”

یہ تعریفیں مختلف مشاہیر کے اقوال سے ماخوذ ہیں اور اس روڈمیپ کی طرف نشاندہی کرتی ہیں جو تصوف کی بنیادی شعریات کو متعین کرتاہے۔پروفیسر احمد رفیق اختر کا ایک جملہ مذکورہ سب تعریفوں پہ بھاری ہے کہ” تصوف اللہ کو ہر کام میں ترجیح اول بنانے کا نام ہے”۔اکثر اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ معترضین کو تصوف کی مبادیات سے زیادہ تصوف کے نام اور اس سے جڑی اصطلاحات پر اعتراض ہے جو صوفیاء کے باطنی احوال و مشاہدات کے مطالعہ اور بیان کےلیۓ رواج پا چکی ہیں۔اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کو دین کا مآخذ سمجھتے ہیں اور جب کوئی معترض شخص ان اصطلاحات کو قرآن و حدیث میں ڈھونڈتا ہے تو نہ پاکر اودھم مچاتا ہے۔گویا معترضین کے نزدیک قرآن مجید اور کتب احادیث کو ہدایت اور علوم کا سرچشمہ کی بجاۓ ” اصطلاحات کی ڈکشنری”ہونا چاہیۓ تھا۔

جسمانی امراض کے لیۓ طب کا علم بہت پرانا ہے۔آج کے زمانے میں جس قدر اس کے تخصیصی شعبے جنم لے چکے ہیں،کیا اس کی نظیر قدیم حکمت میں ملتی ہے؟اسی طرح نفس انسانی کا مطالعہ قدیم فلسفہ کے اساسی موضوعات میں شامل رہا ہے مگر آج “نفسیات” کا علم جس قدر وسیع ہو چکا ہے اور جس قدر اس کی نئ شاخیں اور نئ اصطلاحات مروج ہیں،ان کا پہلے تصور نہ تھا۔کیا اس بنا پر ان علوم کو رد کر دینا چاہیۓ؟ ہرگز نہیں۔اسی طرح شرعی مسائل آپ ﷺ کی حیات مبارکہ اور خلفاۓ راشدین کے عہدمیں ابھرتے رہے،ان کا حل بتایا جاتا رہا۔بعد کے زمانے میں روزمرہ زندگی کے مسائل کے شرعی حل کےلیۓ باقاعدہ اصول وضع کیۓ گۓ اور یوں ایک منظم علم فقہ وجود میں آگیا۔کیا اس عمل کو غیر اسلامی کہا جاۓ گا؟ہرگز نہیں،کیونکہ اصول فقہ کی باقاعدہ ترویج سے پہلے بھی روزمرہ مسائل کا حل پیش کیا جاتا تھا اور بعد میں بھی ۔گویا  فرق صرف اصول فقہ کی علمی تشکیل کا ہے۔

تصوف علوم دینیہ کا ایک شعبہ ہے جو انسان کی باطنی اصلاح اور تربیت و تزکیہ کے لیۓ رواج پایا جس طرح ظاہری مسائل کے حل کےلیۓ علم فقہ وجود میں آیا۔تصوف کی اصطلاح سے پہلے بھی زہد،معرفت،پرہیزگاری،خشیت الہیہ،تقویٰ اور تزکیہ کی عملی مثالیں موجود تھیں ،فرق یہ آیا ہے کہ تصوف نے اس سارے طریق کی علمی تشکیل کی ہے۔برے اخلاق سے بچنا،رذائل سے دوری اختیار کرنا،اپنے اعمال کی اصلاح،بہتر انسان بننے کے لیۓ سعی کرنا اور سب سے بڑھ کر اللہ سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے جانا ہے۔صوفیاء کے مجاہدے میں ہروہ کوشش شامل ہے جو سالک کو مالک سے جوڑتی ہے اور ساتھی انسانوں کے لیۓ نقصان دہ بننے سے بچاتی ہے۔گویا مفید انسان تشکیل دیتی ہے۔جب ہر طرف حرص و ہوس کا بازار گرم ہو اور ملوکیت و ملکیت انسان کا سکون پامال کر رہے ہوں تو صوفی کی خانقاہ جاۓ امان بن جاتی ہے۔اس سارے سلسلے کو متوازی دین کہنا یا اسلام کی اصل سے انحراف قرار دینا کچھ مناسب نہیں لگتا۔ابن عربی اور دیگر صوفیا کے خیالات و نظریات سے جزوی کلی اختلاف کیا جا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی بزرگ کی کوئی  بھی بات حرف آخر نہیں۔کئی صوفیا ء نے ایک دوسرے کی فکر سے اختلاف کیا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ حرف آخر تو بس کتاب اللہ اور اسوہء رسول ﷺ ہیں۔شیخ اکبر ابن عربی اور شیخ مجدد الف ثانی سمیت جن بزرگوٖں نے تصوف پر لکھا ہے،وہ تصوف کی نظریاتی تشکیل ہیں اور جن صوفیاۓ کرام نے راہ سلوک کی منازل طے کیں،وہ اس کی اصولی تشکیل ہیں۔نظریے بدلتے بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں مگر اصول اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ اصل مقصود تو اللہ کو ماننا اور ایسے ماننا ہے کہ اس کی رضا میں ڈھل جانا ہے۔یہی تصوف ہے اور یہی وہ راہ فقر ہے جس کے راہبر و راہنما آخری رسول حضرت محمد ﷺ ہیں۔اپنی بات کو حضرت امام جعفر صادق سے منسوب قول پر ختم کرتا ہوں۔

“من عاش فی باطن رسول اللہ فھو صوفی۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

جو باطن رسول اللہ پر زندگی بسر کرے،وہ صوفی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply