مٹی کی دستکاری سے تجریدی آرٹ تک سفر۔۔منصور ندیم

انسان اور برتن کا بہت قدیم رشتہ ہے۔ جب سے نسل انسانی میں شعور کی لہریں پھوٹنا شروع ہوئیں اس وقت سے ہی اسے احساس ہونے لگا کہ مختلف چیزیں رکھنے یا ان میں رکھ کر کھانے کیلئے کچھ چیزیں بیحد ضروری ہیں اوراسی سوچ کے تحت انسان نے رفتہ رفتہ برتن بنانے کا کام شروع کیا۔ جو ابتدا میں زیادہ تر مٹی سے تیار ہوتے تھے۔

سنہء 2018 میں جاپان کے کچھ آثار قدیمہ کے ماہرین (اس تحقیقی رپورٹ کو ترتیب دینے کا سہرا یونیورسٹی آف یارک کے ماہر آثار قدیمہ پروفیسر اولیور کریگ اور انکے ساتھیوں کے سر ہے) نے 10ہزار سال قبل جاپان میں سرامک سے بنائے گئے گھڑے دریافت کئے تھے جنہیں اس وقت کے ماہی گیر اپنی پکڑی ہوئی مچھلیوں بالخصوص سالمن کو رکھنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔ ظروف سازی کا کام انسانی تاریخ کی ابتداء سے جاری ہے اور اب تک یقین سے یہ بات کہنا مشکل ہے کہ ابتدائی دور میں انسانوں نے برتن کا استعمال کیسے شروع کیا، مگر اب یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ برتنوں کے استعمال کی مقبولیت برف کے زمانے کے آخری دور میں ماہی گیری کی مقبولیت کیساتھ شروع ہوئی تھی۔ جاپان میں برآمد ہونے والے گڑھے 10 ہزار سال قبل بھی بیحد مقبول تھے اور ان میں مختلف چیزیں رکھی جاتی تھیں۔

ضلع نجران کی قدیم برتن سازی

زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ مٹی کے برتن متروک ہورہے ہیں، اور جن ریاستوں میں معاشی استحکام آگیا ہے وہاں اب جدید طریقوں سے برتنوں میں Stain less Steel, اسٹین لیس اسٹیل ،اسٹیل اور سیرامک کے برتنوں کا رحجان بڑھ رہا ہے، سعودی عرب بھی جہاں معاشی ترقی سے ترقی کی وجہ سے بہت سارے رحجانات کی تبدیلی کے سفر میں آگیا ہے، ایک زمانہ تھا جب سعودی عرب میں مٹی کے برتن اور گھروں میں استعمال ہونے والی بہت ساری اشیا کچی مٹی سے تیار کی جاتی تھیں۔ آرائشی اشیا بھی بنائی جاتی تھیں- روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے آلات بھی اسی سے تیار ہوتے تھے۔

لیکن سعودی عرب کا ضلع نجران آج بھی روایتی دست کاریوں کے لیے مقامی سطح پر آج بھی مشہور ہے۔ کبھی یہاں مٹی کے برتنوں کی صنعت ہر گھر میں ہوتی تھی نجران کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جہاں مٹی کے برتن نہ تیار کیے جاتے تھے۔ ضلع نجران کے عوامی بازار میں مٹی کے برتن تیار کرنے والے مقامی افراد کا ایک پورا محلہ آج بھی موجود ہے جو ’ابو السعود‘ کہلاتا ہے۔ جہاں مٹی کے مقامی برتن ساز رہتے ہیں۔ جنہیں یہ ہنر آباؤ اجداد سے ورثے میں ملا ہے۔ مٹی سے سامان تیار کرنے کا کام بڑا صبر آزما اور محنت طلب ہے۔

مقامی دستکار یہ برتن پہاڑی مٹی سے بناتے ہیں، یہ مٹی سرخی مائل ہوتی ہے، عام مٹی کی پکڑ اچھی نہیں ہوتی، آگ پر رکھتے ہی خراب ہوجاتی ہے، پھر دستکار پہاڑی مٹی میں مناسب مقدار میں پانی ملاتے ہیں اور پھر اس سے مختلف قسم کے برتنوں کی شکلیں تیار کرتے ہیں۔ برتن سازی کے لیے پھر اس مٹی کو چکی کے پاٹ جیسا دائرہ نما ایک پہیہ ہوتا ہے جس پر رکھ کر مختلف چیزوں کی شکلیں بنائی جاتی ہیں۔ پھر اسے دو دن تک دھوپ میں رکھا جاتا ہے خشک ہونے پر مٹی سے بنائی گئی چیزیں بھٹی میں ڈالی جاتی ہیں۔ کھجور کی شاخیں بھٹے میں آگ کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ 8 گھنٹے تک یہ سامان بھٹے میں رہتا ہے، پھر اسے وہاں سے نکال کر صاف کیا جاتا ہے اور اس پر نقش بنائے جاتے ہیں۔

سعودی معاشرے میں آباؤ اجداد کے طور طریقوں، رسم و رواج اور قدیم معاشرے میں رائج گھریلو سامان سے لگاؤ دوبارہ نئے زاویوں سے بڑھتا جارہا ہے۔ پرانی اشیا اور ایسی روایات کے احیاء میں دلچسپی لی جارہی ہے جو اب ماضی کا افسانہ بن چکے ہیں۔

ضلع نجران میں ابھی بھی مٹی کی برتن سازی کا کام ہوتا ہے، مگر اب نجران میں یہ تاریخی تحائف کی مارکیٹ میں زیادہ مقبول ہیں، جہاں مٹی سے مختلف چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ گوشت پکانے والی ہانڈی، صراحی، گملے، پانی کے مٹکے، تنور، بھٹی اور خوشبو والا ڈسپینسر وغیرہ تیار کیا جاتا ہے۔

سعودی خاتون دارین الارفلی کا تجریدی آرٹ:

ایسے ہی اپنے روایت وثقافت کا رحجان رکھنے والی سعودی خاتون دارین الارفلی ہیں، جو مٹی سے انواع و اقسام کی اشیا کی ماہر مانی جاتی ہیں انہوں نے کچی مٹی سے مختلف اشیا کی تیاری کا ہنر باقاعدہ سیکھا، سکالر شپ پر بیرون ملک جاکر اس کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ کوشش کررہی ہیں کہ قدیم اور جدید فن کا حسین امتزاج بنا کر پیش کریں۔ دارین الارفلی کے لئے مٹی کے برتن اور آرائشی اشیا بڑے معنی رکھتی ہیں۔ انہوں نے یہ ہنر باقاعدہ یونیورسٹی میں جاکر سیکھا ہے پھر اس میں کمال پیدا کرنے کے لیے سکالر شپ پر میں بیرون مملکت گئی اور سعودی عرب واپس آئی۔ یہاں آکر باقاعدہ سٹوڈیو قائم کیا۔

دارین الارفلی نے مٹی کی صنعت کو تجریدی آرٹ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ جمالیاتی مجسمے تیار کرتی ہیں۔ مٹی کی دیواریں بناتی ہیں۔ گھریلو برتن تیار کرتی ہیں، کوشش کرتی ہیں کہ درختوں کے پتوں، جانوروں اور پرندوں کی شکل والی نایاب و منفرد اشیاء تیار کریں۔ اور انہوں نے کافی منفرد تاریخی اشیا بھی بنائی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دارین الارفلی نے مختلف شکل و صورت کی مٹی کی چیزیں تیار کیں۔ جنہیں ملکی سطح پر کافی پذیرائی ملی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کے تجریدی نمونوں کو پسندیدگی کے تاثرات مل رہے ہیں۔ مقامی لوگ تاریخی تحائف کے دلدادہ ہیں۔ گھروں میں سجاوٹ کے لیے مختلف قسم کے تحائف خریدتے ہیں۔ بلکہ مقامی سطح پر خواتین تاریخی تحائف کا کاروبار آن لائن بھی کرنے لگی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply