ڈاکٹر صاحب/تحریر:محمد علی جعفری

جس دوران میں قانون کا طالب علم تھا تو 2014 کے اوائل میں حبیب پبلک اسکول میں سینئر کیمرج کو اسلامیات پڑھانے کا اتفاق ہوا، یہ وہی حبیب اسکول ہے جس میں داخلہ کسی زمانے میں کراچی والوں کی اولین خواہش ہوا کرتا تھا۔

اسٹاف روم میں آتے ہی میری نظر فرنچ کٹ والی خوبصورت سی ٹائی پہنی بارعب شخصیت پر پڑی اور ان سے علیک سلیک ہوئی ۔ آپ نے ہمارا نام پوچھا، مشاغل جانے؛ اور یہاں آنے کی غایت دریافت کی۔ ان سے دلچسپی کے امور پر گفتگو رہی پھر ان نے اسکول کا گشت کروایا اور دیگر ٹیچرز سے متعرف بھی۔

الہ آباد کے نستعلیق لہجے میں اردو بولنے و کیمسٹری پڑھانے والے یہ صاحب ڈاکٹر علی احمد نقوی تھے جنہوں نے میری پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو اپنے مربیانہ انداز سے نکھارا۔ اور احسن طریقے سے ہمیشہ میری اصلاح کی۔

آپ الہ آباد کے زمینداروں میں سے ہیں اور آپ کا گھرانہ علم و فضل کے لئے ہی مشہور ہے۔ تاریخ، اردو ادب، اور سیاسیات پر آپ کی گرفت قابلِ رشک ہے۔

الہ آباد یونیورسٹی میں آپ زمانہ طالب علمی کے دوران امیتابھ بچن کے جونئیر تھے، اور اس تھیٹر کلب کے لئے لکھتے بھی تھے جس میں امیتابھ ایکٹنگ کرتے۔

ادبی سرگرمیوں کے علاوہ آپ کا جھکاؤ سوشلزم/اشتراکیت کی جانب بھی کافی رہا اور اس متعلق اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر بھی رہے۔ لیکن نام کسی اور کا ہوتا تاکہ کام میں خلل واقع نہ ہو اور ہنگامِ گرفتاری انہیں نہ لے جایا جائے۔ بی ایس سی کے بعد ایم ایس سی کیا اور ادارے کے تعصب کی وجہ سے اس فیلڈ کو چھوڑ کر اردو میں پی ایچ ڈی کیا۔ تحقیق کے لئے پورے ہند و پاک کا سفر کیا، ادبا کے انٹرویو کیے اور انہیں اپنے مقالے کا حصہ بنایا۔

لکھنئو کی ایک یخ بستہ شب کو جس محفل میں بسببِ بسیار نوشی مجاز نے مجازی دنیا کو چھوڑا، اس میں آپ موجود تھے۔ موسکو، سوویت یونین نے فیض کو جب لینن پیس پرائز دیا اس وقت آپ وہیں پاس کھڑے تھے اور ہند میں رات کے گزرے پہر، فیض کے مشاعروں کے لئے ان کی پسندیدہ سگریٹوں کا آپ ہی نے انتظام کروایا تھا۔

پروفیسر احتشام حسین، فراق، جوش، قرات العین حیدر، و دیگر شعراء و ترقی پسند مصنفین سے آپ کا مسلسل رابطہ رہتا۔ آپ کا قلمی نام شکیل ہے۔

آپ بہت سی کتب کے مصنف بھی رہے اور تنقید آپ کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اور تو اور شمس الرحمن فاروقی آپ کے قریبی دوستوں میں سے تھے جو ایک دوسرے علمی پر مضامین کی مدد سے حملے کرتے اور حظ اٹھاتے۔ شمس الرحمن نے آپ پر ایک مضمون، ” جرِّ ثقیل کے قتیل، جناب شکیل”، بھی تصنیف کیا جس کا جواب بھی ڈاکٹر صاحب نے خوب دیا۔

آپ نے الہ آباد یونیورسٹی، اور اکبر الہ آبادی کے عشرت کالج میں بھی پڑھایا۔ کراچی میں آپ حبیب پبلک اسکول کے ہیڈ ماسٹر رہے اور وہاں 2016 تک علم کے موتی لٹاتے رہے۔ آپ ہمیشہ مجھ سے شفقت فرماتے اور معلمی کے شعبے پر اپنے تجربے کی روشنی میں میری رہنمائی کرتے۔ متانت اور پروقار انداز سے چلتے۔ وقت کے ایسے پابند کے آپ کو دیکھ کر گھڑی کا وقت درست کیا جائے۔ اسکول بریک/وقفے کے دوران جیسی علمی گفتگو حبیب اسکول کے اسٹاف روم میں ہوتی، شاذ ہی کہیں نظر آئے۔

اسکول انتظامیہ نے جب میری حق تلفی کی تو ڈاکٹر جمال فاطمہ اور ڈاکٹر علی احمد ہی ببانگ دہل ہمارے ساتھ تھے۔

دس سال پہلے جب پہلی دفعہ میں آپ کے درِ دولت آیا تھا تو اس وقت آپ کی پہلی پوتی کی عمر یہی ہوگی جو آپ کے پوتے موسی کی ہے یعنی قریباً ایک سوا سال۔

آپ کے شاگرد کل جہان میں خوشبو کی طرح بکھرے ہوئے ہیں جن سے گاہے ماہے سرِ راہ ملاقات ہوجاتی ہے، اور کچھ تو عالی منصب پر بھی فائز ہیں، لیکن جہاں آپ سے ملاقات ہو، وہاں سب در کنار کرکے ایک شاگرد استاد کی قدم بوسی کرتا نظر آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا سے دعا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو عمرِ خضر عطا کرے اور نسلِ نو کو آپ کے علم و تجربے سے مستفیض کرے۔

Facebook Comments

محمد علی
علم کو خونِ رگِِِ جاں بنانا چاہتاہوں اور آسمان اوڑھ کے سوتا ہوں ماسٹرز کر رہا ہوں قانون میں اور خونچکاں خامہ فرسا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply