کیا کارل مارکس بھی چربہ ساز تھا؟۔اکمل سومرو

پندرہویں صدی عیسوی میں یورپ کا سماج ارتقاء کے اُس دور سے گزر رہا تھا جب وہاں سائنسی بنیاد پر ابتدائی تجربات اور نئے علوم کی تخلیق ہورہی تھی۔ یورپ کا یہ دور جاگیرداروں کے مظالم کی لمبی داستانوں اور اس طاقتور طبقے کا مذہبی طبقہ جو عیسائیت کے نظریات کا پیروکار تھا ، مضبوط گٹھ جوڑ تھا۔

جب یورپ کا سماج اندھیروں سے روشنی کی طرف سفر کرنے کی جستجو کر رہا تھا تو اسی دور میں تجارت کی بنیاد پر چھوٹے اور بڑے سرمایہ دار بھی ظہور پذیر ہوئے۔ ان سرمایہ داروں نے دولت کی بناء پر سماج کو کنٹرول کرنا شروع کیا، تو معاشی ترقی کے نئے نظریات بھی جنم لینے لگے۔ اس دوران برطانیہ میں ایڈم سمتھ نے 1776ء میں ویلتھ آف نیشن کتاب لکھ کر معاشی ترقی کے نئے اُصول دے دیے جس میں پیدائش دولت سے لے کر تقسیم دولت کے طریقہ کار پر بحث کی گئی۔

یہ کتاب یورپ کے سرمایہ داروں کے لیے بائبل بن گئی اور ایڈم سمتھ کے بنیادی نظریات کی بناء پر یورپ میں سرمایہ دارنہ طبقہ مضبوط ہونے لگا۔ اٹھارویں صدی تک یہ طبقہ بہت طاقتور ہوا، مذہبی پارساؤں اور کلیساؤں نے بھی اسی طبقے کی حمایت کی۔ سرمایہ داروں کے اس ٹولے نے جب دولت کا بہاؤ اپنے کنٹرول میں لے لیا تو سماج میں دولت کی تقسیم کا توازن قائم نہیں رہا اور پھر غریب، متوسط طبقات ان کے معاشی جبر کا شکار ہونے لگے، یورپ کو اس نہج تک پہنچنے میں 300سال لگے۔

معاشی جبر کے رد عمل میں 1779ء میں فرانس میں جمہوری انقلاب برپا ہوا جس نے ان طبقات کے گٹھ جوڑ پر مشتمل بادشاہی نظام کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد یورپ میں سرمایہ داروں کے خلاف لہر اُٹھی اور پسے ہوئے طبقات نے جدوجہد کا آغاز کیا جس کے رد عمل میں کیمونسٹ اور سوشلسٹ نظریات پیدا ہوا۔

کارل مارکس نے جرمنی کے سرمایہ داروں کے خلاف اس جدوجہد کا آغاز کیا جس میں فیڈرک اینگلز بھی شامل رہا۔ اس تحریک نے پرولتاریہ طبقہ(یعنی مزدور طبقہ جس کا پیدائش دولت میں حصہ تھا) کو ساتھ ملا کر بورژوا طبقہ (جو دولت اور حکومت پر قابض تھا) کے خلاف آواز اُٹھائی۔

اگرچہ کارل مارکس نے سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کا آغاز جرمنی سے کیا لیکن کیمونسٹ نظریات پر پہلا انقلاب مارکس کے انتقال کے 34سال بعد روس میں برپا ہوا۔ یورپ میں اس وقت تین طبقات وجود میں آئے، پرولتاریہ، درمیانی طبقہ اور بورژوا ۔ مارکس کا ہدف پرلتاریہ طبقہ کو ساتھ ملا کر بورژوا یعنی سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کرنا تھا، نتیجے میں درمیانی طبقہ (مڈل کلاس) کو نظر انداز کیا گیا ۔ مارکس نے 1848ء میں جو کیمونسٹ منشور لکھا اس میں مارکس کے ذاتی خیالات نہیں تھے بلکہ نومبر1847ء میں لندن میں کیمونسٹ لیگ کے اجلاس میں مارکس اور اینگلز کو پارٹی کا نظریاتی منشور لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور ایک سال بعد یہ منشور تیار ہونے کے بعد شائع کر دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ منشور مارکس کے ذاتی خیالات نہیں تھے تو پھر اس کا مسودہ کہاں سے آیا۔

فرانسیسی سوشلسٹ وکٹر کونسیڈرینٹ نے 1843ء میں “سوشلزم کے اُصول: اُنیسوویں صدی کی جمہوریت کامنشور (Principles of Socialism: Manifesto of Democracy of the Nineteenth Century) ” کے عنوان سے فرانسیسی زبان میں مقالہ تحریر کیا اس کا دوسرا ایڈیشن 1847ء میں پیرس سے چھپا، یعنی مارکس کے کیمونسٹ منشور سے ایک سال پہلے۔ انتہائی دلچسپ بات ہے کہ ان دنوں مارکس ، اینگلز کے ساتھ پیرس میں ہی مقیم تھا۔ ایک سو تینتالیس صفحات پر مشتمل اس پمفلٹ میں وکٹر کونسیڈرنٹ نے سوشلزم کے تمام اُصولوں کو تحریر کیا۔ مارکس اور اینگلز نے 1848ء میں جومنشور تحریر کیا اس کا نظریاتی مواد کونسیڈرنٹ کے پمفلٹ سے اخذ کیا گیا ہے حتیٰ کہ مارکس کے تحریر کردہ منشور کا متن بھی کونسیڈرنٹ کی تحریر کا چربہ ہے جسے آج تک کھل کر منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

وکٹر کونسیڈرنٹ نے باب دوم کا عنوان یوں رکھاتھا؛ The Present Situation & 89; The Bourgeoisie & Proletrains جبکہ مارکس اور اینگلز نے اس باب کا عنوان The Bourgeois & Proletarians رکھا۔ کونسیڈرنٹ نے اپنے پمفلٹ میں جمہوریت پر بھی بحث کی اور سوشلسٹ جمہوریت پر یہ عنوانات مرتب کیے؛1 ۔ جامد جمہوریت،2۔مراجعتی جمہوریت،3۔ مراجعتی جمہوریت میں سوشلسٹ پارٹی۔ دوسری جانب جب مارکس نے یہ منشور چرایا تو ان عنوانات کو تبدیل کر کے یوں رکھ دیا گیا؛ 1۔ رجعت پسند سوشلزم،2۔ قدامت پرست اور بورژوا سوشلزم،3۔ تنقیدی تصوراتی سوشلزم اور کیمونزم۔ انٹونی سی سٹن نے اپنی کتاب فیڈرل ریزرو کنسپائریسی میں اور ڈبلیو کیرکیسوف نے اپنی تصنیف Pages of Socialist History میں اس چربہ سازی پر تفصیل سے بحث کی ہے۔

انہی کتابوں میں یہ بھی درج ہے کہ مارکس کو سرمایہ داروں کے ٹولے کی جانب سے مالیاتی پشت پناہی بھی حاصل تھی کیونکہ مارکس کا ذریعہ معاش کُچھ نہیں تھا۔ کیمونسٹ منشور کی اشاعت ، مارکس اور اینگلز کے اخراجات کے لیے رقوم جرمنی اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے حکمران اشرافیہ سے ملتی تھی۔ کیمونسٹ منشور کی اشاعت کے لیے جین لافٹے کی وساطت سے مالی امداد مارکس کو پہنچائی جاتی تھی، مارکس کو ملنے والی مالی امداد پر تفصیلاتStanley Clisby Arthur کی دو کتابوںJean Laffite, The Gentleman Rover اورThe Journal of Jean Laffite میں موجود ہیں اور ان کتابوں میں کیمونسٹ منشور کی اشاعت کے اخراجات برداشت کرنے کے طریق کار کے بارے میں اصل دستاویزات دیکھی جاسکتی ہیں۔

کارل مارکس کو امریکاسے بھی براہ راست امداد فراہم کی جارہی تھی، مارکس کی مالی مدد کا ذریعہ نیو یارک ٹائمز بنا، اس اخبار کے ایڈیٹر چارلس اینڈرسن ڈانا نے نیو یارک ٹائمز میں لکھنے کے لیے کارل مارکس کی خدمات حاصل کی تھیں۔1851ء سے لے کر 1861ء تک مارکس نے نیو یارک ٹائمز کے لیے پانچ سو سے زائد مضامین تحریر کیے تھے جس کے لیے مارکس کو بھاری رقم ادا کی جاتی تھی۔ اسی طرح مارکس کی مالی معاونت فریڈرک اینگلز اور پروشیا کے اشرافیہ کی جانب سے کی جاتی تھی۔ پروشیا کے ویسٹ فالن خاندان میں مارکس کی شادی ہوئی ، اگرچہ یہ خاندان اشرافیہ کا نمائندہ تھا تاہم اس کے باوجود ویسٹ فالن خاندان مارکس کی کفالت کرتا رہا۔

مارکس نے اگر اپنے منشور کا مواد وکٹر کونسیڈرنٹ کے پمفلٹ سے حاصل کیا تھا تو پھر مارکس کو اس کا کریڈٹ بھی کونسیڈرنٹ کو دینا چاہیے تھا۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ مارکس سے منصوب منشور صرف اسی کے ذہن سے اخذ شدہ نہیں تھا بلکہ اس منشور کو ایک ایسی تحریر سے لیا گیا جو بعد میں تاریخ کے گمنام کوچوں میں چلی گئی۔بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور مارکسزم کے ماننے والوں کے لیے یہ نئی تحقیق نہ صرف حیران کن ہوسکتی ہے بلکہ اسے سرمایہ دارانہ نظام کی کیمونزم کے خلاف سازش بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

ان تمام حقائق کے باوجود یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ کیمونسٹ نظریات، سرمایہ داریت کے خلاف رد عمل کے طور پر پیدا ہوئے اور بنیادی طور پر عالمی سرمایہ داری نظام کو آج 150سال بعد بائیں بازو کے نظریات ہی للکار رہے ہیں۔ مارکس کو مالی امداد فراہم کرنے کے جو بھی مقاصد سرمایہ داروں نے طے کیے تھے وہ اُسے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور دولت کی بنیاد پر دنیا پر قابض ہونے کے خواہشمند ان سرمایہ داروں کے لیے آج بھی کیمونسٹ نظریات کے حامی ممالک مزاحمتی کردار ادا کر رہے ہیں اور اپنے اپنے سماج میںیہ نظریہ انصاف اور دولت کی بنیاد پر ظلم کے خاتمے کا داعی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

سرمایہ داریت کو آج روس اور چین سے شدید پریشانی ہے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایشیاء میں روس اور چین کا بڑھتا ہوا اثر عالمی سرمایہ داروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

بشکریہ ڈان نیوز

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.dawnnews.tv/news/1027059

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply