ٹارگٹ ،ٹارگٹ ،ٹارگٹ ۔کرنل ضیا شہزاد/قسط13

بجلی کے تار اور ایمنگ سرکل!
سکول آف آرٹلری سے کورس کر کے واپس یونٹ میں پہنچے تو ہمیں گن پوزیشن آفیسر تعینات کیا گیا۔ اکتوبر کا مہینہ آتے ہی یونٹ تین مہینے کے لیے موسم سرما کی جنگی مشقوں کے لیے پشاور سے نوشہرہ کے علاقے میں جا کر ڈیپلائے ہو گئی۔ ہماری ذمہ داری چھ عدد توپوں (گنز) کو تازہ ترین جنگی صورتحال کے مطابق دیے گئے علاقے میں ڈیپلائے کرانا اور ان سے مطلوبہ ہدف پر کارگر فائر گرانا تھا۔ بات بہرحال اتنی سادہ نہیں تھی جتنی بیان کی گئی ہے۔ لب تک جام آنے میں بہت سی لغزشیں حائل ہوتی تھیں ۔ گنز کو ٹرکوں کے پیچھے باندھ کر دشوار گزار راستوں سے گزارا جاتا تھا اور چیونٹی کی چال چلتے ہوئے یہ قافلہ نئی جگہ پہنچتا۔ ان دنوں آج کل کی طرح جی پی ایس میسر نہیں ہوا کرتے تھے لہٰذا کسی جگہ تک رہنمائی کے لئے نقشوں اور کمپاس کی مدد لی جاتی تھی ۔ جب جملہ ذرائع فیل ہو جاتے تو تان’’چاچا کمپاس‘‘ پر آ کر ٹوٹتی ،یعنی کہ مقامی لوگوں سے راستہ پوچھ کر کام چلا لیا جاتا۔ رات کے وقت تو ایسا کرنا بھی ممکن نہ تھا اس لیے مشکل دو چند ہو جاتی۔ اکثررات کو ایسا ہوتا کہ منزل پر پہنچ کر جب گاڑیوں کی گنتی کی جاتی تو اپنی دو تین گاڑیاں لاپتا ہوتیں اور کسی اور یونٹ کی تین چارگاڑیاں بھٹک کر ہمارے کانوائے کا حصہ بن چکی ہوتیں۔

جوں توں کر کے نئی  جگہ پر پہنچنے کے بعد گھپ اندھیرے میں گنوں کو گھما پھرا کر درست پلیٹ فارم پر لاکھڑا کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس کے بعد گنوں کی ریکارڈنگ کا مرحلہ آتا تھا۔ جی پی او اپنا ایمنگ سرکل لے کر کسی اونچی جگہ پر ڈیرہ جما لیتا جہاں سے تمام گنیں دکھائی دے رہی ہوتیں۔ ایمنگ سرکل ایک کمپاس نما آلہ ہوتا ہے جس کو تین ٹانگوں پر ایستادہ کیا جاتاہے۔اس سے تمام گنوں کے اینگل پڑھے جاتے اور ان کو باری باری پاس کیے جاتے۔ گن کے اوپر بنی ہوئی ٹیلی سکوپ کو پاس کیے گئے اینگل پر سیٹ کر کے بیرل کو سیدھا کیا جاتا تو اس کا رخ دشمن کی جانب مطلوبہ سمت میں ہو جاتا۔ کوئی ایک بھی گن یہ عمل مکمل کر چکتی تو گن پوزیشن فائر کے لئے تیار سمجھی جاتی۔ لائیو فائر البتہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ فائر کے احکامات اور ڈرل پوری کرنے پرہی اکتفا کیا جاتا۔

ایک ایسی ہی ڈیپلائمنٹ کے دوران ہم ایک پیچیدہ صورتحال کا شکار ہوئے۔ ڈیپلائمنٹ کے لئے مطلوبہ جگہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ گن پوزیشن کے اوپر اور اطراف میں بجلی کی ہائی ٹینشن وائرز گزر رہی تھیں۔ہم نے دیکھ بھال کر گنز کو تاروں سے دور ایسی جگہ پر ڈیپلائے کیا جہاں گنوں سے نکلنے والے گولے تاروں سے نہ ٹکرائیں۔اب مشکل یہ تھی کہ ایمنگ سرکل کو لے کر کہاں جائیں ۔ جہاں بھی جاتے وہاں پر ہائی ٹینشن وائرز موجود تھیں۔ جیسا کہ بتا چکے ہیں کہ ایمنگ سرکل میں بھی کمپاس ہوتا ہے جو بجلی کی تاروں سے بننے والے میگنیٹک فیلڈ سے متاثر ہوتا ہے اس لیے اصولاً ایمنگ سرکل کو تاروں سے مناسب فاصلے پر لگانا چاہیے جو وہاں پر دستیاب نہ تھا۔ اسی مشکل میں تھے کہ ہمیں سکول آف آرٹلری میں پڑھا ہوا ایک سبق یاد آ گیا۔ ایک کلاس کے دوران ہمیں ایمنگ سرکل کا استعمال پڑھایا جا رہا تھا تو ہم نے انسٹرکٹر سے یہ سوال پوچھا کہ اگر ایمنگ سرکل لگانے کے لیے مناسب جگہ میسر نہ ہو تو کیا کیا جائے جس کا جواب انہوں نے یہ دیا تھا کہ ایسی صورتحال میں ایمنگ سرکل کو تاروں کے نیچے لگا دینے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہم نے ایمنگ سرکل اٹھایا اورعین تاروں کے نیچے لے جا کر رکھ دیا۔

قسمت کی خرابی دیکھیے کہ عین اسی لمحے کمانڈر آرٹلری ہماری گن پوزیشن پر نمودار ہوگئے ۔ کمانڈر پرانے گنر تھے، ایمنگ سرکل کو عین تاروں کے نیچے کھڑا دیکھ کر ان کی گنری کے خرمن پر زوردار بجلی کڑکی اور ایک ایسی آگ پھیلی جسے بجھانے کے لیے شاید سیکڑوں فائر بریگیڈ بھی ناکافی ہوتے۔ انہوں نے اگلے پندرہ منٹ ہماری شاندار عزت افزائی فرمائی اور آخر میں وہاں سے تیس کلومیٹر دور ایک جگہ پر جا کر گنز دوبارہ ڈیپلائے کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ ہم فی الفور گنز کو لے کر نئی جگہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ دو گھنٹے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد مطلوبہ جگہ پر پہنچے ۔شومئی قسمت یہاں پر بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار ہم نے گنز تو عین تاروں کے نیچے لگا دیں لیکن ایمنگ سرکل کو تاروں سے سو میٹر دور ہی رکھا۔ کمانڈر نے دوبارہ انسپکشن کی اور اس بار ہم پاس ہوگئے۔ نجانے کیوں دونوں مرتبہ کمانڈر کی تمام تر توجہ گنوں کی بجائے ایمنگ سرکل کی جانب ہی تھی۔

سوٹے ، کلہاڑے اور ریڈار!
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ہم کیپٹن ہوا کرتے تھے اورسکول آف آرٹلری میں بحیثیت جی تھری عسکری خدمات سر انجام دے رہے تھے ۔ ایک د ن ٹی بار میں بیٹھے تھے کہ کیپٹن امجد وارد ہوئے۔ موصوف لوکیٹنگ کورس کے ساتھ انسٹرکٹر تھے۔ ٹی بریک کے بعد انہوں نے ہم سے اصرار کیا کہ ان کے ساتھ لیکچر ہال چلا جائے جہاں لوکیٹنگ کورس کے سٹوڈنٹس کی انسٹرکشنل پریکٹس ہوناتھی۔ اس دوران تمام سٹوڈنٹس پہلے سے دیے گئے موضوع پر تیاری کر کے لیکچر دیا کرتے تھے۔ ہمارے پاس اس دن کوئی خاص کام نہیں تھا اس لیے ان کے ہمراہ لیکچر ہال چلے گئے۔ پہلا لیکچر ایک حوالدار نے دینا تھا اور موضوع تھا۔ ’’آرٹلری میں ریڈار کا استعمال۔‘‘ حوالدار سٹیج پر پہنچا اور اجازت لے کر لیکچر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ’’پرانے زمانوں میں جنگ سوٹوں (ڈنڈوں) سے لڑی جاتی تھی۔ پھر زمانے نے ترقی کی تو سوٹوں کی جگہ کلہاڑوں نے لے لی۔ کچھ عرصے بعد زمانے اور سائنس دونوں نے ترقی کی اور ریڈار آ گئے۔ آج ہم ریڈار کے بارے میں پڑھیں گے۔‘‘ اس بے نظیر تعارف کے بعد مزید کچھ کہنے سننے کی ضرورت باقی نہ رہی تھی ۔ ہم نے کیپٹن امجد سے اجازت طلب کی اور باہر نکل کر ’’زاروقطار‘‘ ہنسنے لگے۔ ’’رونا‘‘ ہمیں تب آیا جب چند دنوں کے بعد کورس کی اختتامی تقریب ہوئی اور وہی حوالدار پوزیشن ہولڈرز کی صف میں شامل کھڑا نظر آیا۔

علامہ اقبال، فلائٹ اور محکمہ موسمیات!
بٹ صاحب سکردو کی چھوٹی سی دنیا کا ایک بڑا کردار تھے۔ ہم سن 2006 میں بطور جی ٹو آئی پوسٹ ہو کر سکردو پہنچے تو ان سے ہمارا تعارف ہوا۔ موصوف لاہور کے رہنے والے تھے اور محکمہ موسمیات کے سکردو آفس میں بطورِ انچارج خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ان کا دفتر اور رہائش تو ائیرپورٹ کے پاس تھی جو کہ شہر سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا لیکن اکثر اوقات وہ شہر میں ہی گھومتے پائے جاتے۔ انتہائی زندہ دل انسان تھے۔ہمارے پاس بھی گپ شپ کے لیے تشریف لاتے اور وقتاً فوقتاً ہمیں بھی اپنے ہاں مدعو کر لیا کرتے۔ بٹ صاحب کا ویسے تو معاشرے میں کوئی خاص کردار نہیں تھا لیکن ایک معاملے میں بہرحال ان کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور وہ تھا فلائٹ آپریشن۔ ان کی اجازت کے بغیر سکردو میں کوئی جہاز پر نہیں مار سکتا تھا۔ جہاز کو پنڈی سے روانہ کرنے سے پہلے بٹ صاحب سے موسم کے بارے میں باقاعدہ کلئیرنس لی جاتی تھی۔ اگر بٹ صاحب ذرا سا بھی سر نفی میں ہلا دیں تو فلائٹ آپریٹ ہونا ناممکن ہو جاتا تھا۔

سکردو کے لوگوں اور فلائٹ کا آپس میں زندگی موت کا رشتہ ہے۔ سارا دن فلائٹ ہی موضوع بحث بنی رہتی ہے۔ چاہے کسی نے فلائٹ پر جانا ہو یا نہ جانا ہو لیکن وہ دوسرے سے ملتے ہی پہلا سوال یہی کرتا ہے کہ فلائٹ آپریٹ ہوئی یا نہیں؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ روزمرہ کی اکثر اشیا جیسے اخبارات،ڈاک، سبزیاں وغیرہ راولپنڈی سے جہاز میں ہی سکردو پہنچتی ہیں۔ موسم کی خرابی کے باعث ایسا بھی ہوتا ہے کہ فلائٹ ہفتوں تک آنے کا نام نہیں لیتی ۔ یہ بات تو ماننے والی ہے کہ موسم کی خرابی کے باعث جہاز راولپنڈی سے ہی نہ اڑے لیکن کئی بار ہم نے ایسا بھی دیکھا کہ جہاز راستے سے واپس چلا گیا یا سکردو ائیرپورٹ تک پہنچا ضرور لیکن لینڈ اس نے واپس راولپنڈی پہنچ کر ہی کیا۔ اتنی غیر یقینی صورتحال شاید ہی دنیا میں کہیں اور پائی جاتی ہوگی۔غالباً اسی لیے سکردو ائیرپورٹ کے ویٹنگ لانج میں علامہ اقبال کی بڑی سی تصویر آویزاں ہے۔ لاؤنج میں بیٹھا ہر مسافر علامہ اقبال کی مانند سر ہتھیلی پر ٹکائے سوچ رہا ہوتا ہے کہ فلائٹ آئے گی یا نہیں۔

ایک دن ہم فارغ تھے تو گھومتے گھماتے بٹ صاحب کے دفتر جا پہنچے۔بٹ صاحب سے درخواست کی کہ اپنے ادارے اور اس کی کارکردگی کے بارے میں کچھ بتائیے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے میں کل تیس افراد ملازم ہیں جن میں سے ایک دو کے علاوہ باقی سب مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ لینے کے لیے نمودار ہوتے ہیں۔موسم کی پیشگوئی کرنے کے لیے درکار آلات کا ان کے پاس وجود تک نہ تھا چنانچہ بریفنگ وہیں پر ختم ہو گئی۔ ہم نے بٹ صاحب سے کہا ’’باقی سب تو ٹھیک ہے آپ کے کندھوں پر بہرحال ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آپ فلائٹ آپریٹ ہونے کے لیے موسم کا اندازہ کیسے لگاتے ہیں؟‘‘۔
بٹ صاحب بولے’’بادشاہو !یہ کون سا مشکل کام ہے ۔ ہم علی الصبح بیدار ہوتے ہی کھڑکی کا پردہ اٹھا کر باہر دیکھتے ہیں ، اگر بادل نظر آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ آج فلائٹ آپریٹ نہیں ہو سکتی۔‘‘

آدھا حج!
24اپریل2015کی ایک سہانی صبح ہم اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور ائیرپورٹ کے حج ٹرمینل کی تلاش میں اِدھر ادھر بھٹک رہے تھے۔ حج شروع ہونے میں تو ابھی چھ ماہ باقی تھے لیکن ہمیں حج ٹرمینل پہنچنے کے لیے جو وقت دیا گیا تھا اس کے ختم ہونے میں فقط آدھ گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ ہماری اس بھاگ دوڑ کا مقصد برونڈی پہنچنے کے لیے عسکری ایوی ایشن کی چارٹرڈ فلائٹ کا حصول تھا۔اس فلائٹ نے ہمیں 256 دوسرے مسافروں کے ہمراہ سیدھاافریقی ملک برونڈی پہنچانا تھا، جہاں پہنچ کر ہم کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ بننے والے تھے۔مذکورہ فلائٹ پہلے ہی سے چار روز تاخیر کا شکار ہو چکی تھی۔ راستہ پوچھتے پچھاتے ہم حج ٹرمینل تک پہنچے ،فیملی کو الوداع کہا اور سفر کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔

ٹرمینل پر صرف ہماری سپیشل فلائٹ کے پاک فوج سے تعلق رکھنے والے مسافر حضرات موجود تھے ۔ ہم نے کانٹر پر پہنچ کر تمام دستاویزات کا اندراج کروایا اور لاؤنج میں پہنچ گئے۔ لاؤنج میں ایک بڑا سا بینر آویزاں تھا جس پر جلی حروف میں درج تھا”اللہ تعالیٰ آپ کے حج کو قبول و مبرور فرمائے (آمین) نیک شگون کے لیے باری باری اس بینر کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں اتروائی گئیں۔ امیگریشن پروسیس مکمل ہونے کے بعد ہمیں گاڑیوں میں بٹھا کر مین ٹرمینل تک لے جایا گیا۔ سامان پہلے ہی جہاز میں لوڈ کر دیا گیا تھا۔ایک بجے کے قریب سب لوگ جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز کے اڑنے کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ جہاز اور اس کے عملے کا تعلق اردن سے تھا جسے عسکری ایوی ایشن کے توسط سے ہمارے لئے چارٹر کیا گیا تھا۔

ہماری نشست بریگیڈئر اختر کے ساتھ تھی۔ موصوف میڈیکل کور کے ایک منجھے ہوئے افسر تھے اور چند روزہ دورے پر کانگو تشریف لے جا رہے تھے،جس کا بنیادی مقصد وہاں پر موجود طبی سہولیات کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ مرتب کرنا تھا۔ ان کی شخصیت ویسے بھی کم متاثر کن نہ تھی لیکن نئی وردی، رے بین کی عینک اور ربڑ سول کے خاکی بوٹوں نے اسے مزید چار چاند لگا دئے تھے۔ ان حالات میں جہاز کے عملے کا ان سے مرعوب ہونا فطری امر تھا۔ غلطی انہیں یہ لگی کہ شاید بریگیڈئر صاحب کانگو میں نئے کمانڈر پوسٹ ہو کر جا رہے ہیں اس لیے ان کے پروٹوکول میں خصوصی اضافہ کرتے ہوئے ایک عدد ائرہوسٹس کو ان کی خدمت کے لئے مخصوص کر دیا گیا ۔ ہم چونکہ ان کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان تھے اس لئے اس نظرِ عنایت کا تھوڑا بہت عکس ہم پر بھی پڑنا شروع ہو گیا۔

جہاز میں سوار ہو کر ہم سمجھ بیٹھے تھے کہ غالباً عشق کے تمام امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کر لیے ہیں لیکن جب جہاز نے آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد بھی اڑنے کا نام تک نہ لیا تو شک گزرا کہ ہو نہ ہو کسی پرچے میں نمبر ضرور کم آئے ہیں۔ ائر ہوسٹسوں نے تیز تیز ادھر ادھر آنا جانا شروع کیا تو ہم ذرا سے پریشان ہوئے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے یونیفارم کی اوپر والی جیکٹیںupper jacketsاتار کر ہاتھ والے پنکھے جھلنا شروع کیے  تو حالات تقریباً قابو سے باہر ہوتے نظر آئے۔ صورتحال اس وقت واضح ہوئی جب جہاز کا کپتان بریگیڈئر اختر کے پاس بنفسِ نفیس تشریف لایااور کہنے لگا کہ موجودہ درجہ حرارت معمول سے بہت زیادہ ہے جس کے باعث اس وقت جہاز کا موجودہ وزن کے ساتھ ٹیک آف کرنا ممکن نہیں لہٰذا آپ لوگوں کو رات بارہ بجے تک انتظار کی زحمت اٹھانا ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم نے تجویز پیش کی کہ کچھ دیر کے لیے ائیر ہوسٹسوں کو منظر عام سے غائب کر کے درجہ حرارت میں مطلوبہ کمی لائی جا سکتی ہے لیکن ہماری تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ مسئلہ جہاز کے اندرونی کے بجائے بیرونی درجہ حرارت کا تھا۔ ظاہر ہے کہ قدرت کے کاموں میں ہم جیسے ناچیز بھلا کیا دخل دے سکتے تھے اس لیے ان کی بات مان کر اگلے گیارہ گھنٹوں کے لئے پھر سے حج ٹرمینل کے وحشت ناک ماحول میں مقید ہو گئے۔ گیارہ گھنٹے بھوکے پیاسے ایک بینچ پر گزارنے کے بعد رات کے بارہ بجے ہم دوبارہ جہاز میں سوار ہوئے اور دس گھنٹوں کی فلائٹ کے بعد ہمارے جہاز نے برونڈی کے بوجمبورا (Bujumbura)انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کیا۔حج ٹرمینل میں اتنا وقت گزارنے کے بعدہم پورے نہیں تو آدھے حج کے ثواب کے حقدار تو ہو ہی چکے تھے۔
جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply