اب کیا لکھیں ہم ،،،،

اب کیا لکھیں ہم کاغذ پر ، اب لکھنے کو کیا باقی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟.
ساجدہ سلطانہ
کافی دن سے دائیں ہاتھ میں کچھ خارش سی محسوس ہو رہی تھی پہلا خیال آیا کہ شاید دولت کی آمد ہے آخر کار قدرت کو ہم پہ ترس آہی گیا مگر وائے حسرت دولت کو نہ آنا تھا نہ آئی البتہ یہ عقدہ ہم پہ کھلا کہ یہ خارش دراصل کچھ لکھنے کی خواہش ہے ۔بس یہ خیال آتے ہی ہم نے کاغذقلم سنبھالا اور لکھنے میں جت گئے، مگر یہ کیا ؟؟؟ ذہن بالکل خالی ( یاد رہے بات ذہن کی ہو رہی ہے دماغ کی نہی ) جو کچھ لکھنے کا سوچا تھا وہ سب مثل آب بہہ گیا ۔ پہلے تو ہم نے سوچا تھا کہ سیاست پہ طبع آزمائی کی جائے مگر جب فیس بک پہ نظر کی تو بڑے بڑے زور آور جگادری (ناٹ قادری) اس میدان میں اترے ہوئے تھے، ہم کیونکہ کافی وسیع القلب واقع ہوئے ہیں تو نہایت اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ اب کیا کریں خارش نے بدستور جینا حرام کیا ہوا تھا ۔ پھر ایک اور خیال زریں ذہن کے پردے پر جگمگایا کہ کیوں نہ زبیدہ آپا کی طرح ٹوٹکے لکھے جائیں کہ جن سے سب کا فائدہ بھی ہو اور شہرت بھی ۔ یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔۔ اب جناب ہم نے فورا ایک اچھا سا قلم خریدا (عام سے قلم سے تو ہم نسخہ بھی نہی لکھتے) اور بیٹھ گئے لکھنے مگر اب ایک اور مسئلہ تھا کہ ہمارے گھر میں چارپائی نام کی کوئی شئے نہی ہے اب ہم کہاں بیٹھ کے لکھیں آپ حیران ہو رہے ہیں نہ کہ لکھنے کا چارپائی سے کیا تعلق ؟ تو دوستو ہم بتاتے ہیں کہ جتنے بھی بڑے لکھاری ہوتے ہیں وہ سب چارپائی پہ بیٹھ کے لکھتے ہیں یہ رائیٹنگ ٹیبل و کرسی تو سب بیکار چیزیں ہیں ۔ہم نے خود سنا اپنے کانوں سے کہ انور مقصود بھی چارپائی پہ بیٹھ کے لکھتے ہیں اب اگر ہم آپا زبیدہ کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں تو چارپائی اشد ضروری ہے، ویسے آپ تو تجربہ کار لوگ ہیں آپ سے پوچھنے میں کیسی شرم ، یہ چارپائی لنڈا بازار سے مل جاتی ہے ؟؟؟؟؟؟
جواب جلدی دیں ابھی پھر ہمیں شاپنگ کرنے جانا ہے،
(از طرف ،ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ)
المعروف، ڈاکٹرنی جی
مورخہ، 5 جنوری ۲۰۱۷

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply