دیوار سے بہرے

پچھلے سال چوہوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کر دیا. یہ اسقدر شدید اور اچانک تھا کہ کوئی انہیں ایسا کرنے سے نہ روک سکا. وہ کس سمت سے آئے تھے یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی ہی ہو گا کہ مشرق سے مغرب اور گتہ کے کارخانے سے عیدگاہ کی جانب ہر گلی ان سے بھر چکی تھی. وہ ہر گھر میں داخل ہو رہے تھے اور جو چیز انہیں اچھی لگتی اسے اٹھاتے اور اگلے گھر پر دھاوا بول دیتے. انکی آوازیں روایتی چوہوں کی طرح تھیں جنہیں عام انسان سمجھنے سے قاصر تھے اور اپنی حس تخیل سے کام لیکر چونگی ادا کر رہے تھے۔

ان چوہوں سے البتہ معذور لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑا. اپنی حالت کے پیش نظر انہوں نے خود کو ان سے بہتر خیال کرتے ہوئے برا بھلا بولنا شروع کر دیا. اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں کہ معذوری طاعون سے زیادہ قابل ترس ہے انہوں نے کھونٹیاں ہاتھوں میں پکڑ کر ان کا پیچھا شروع کر دیا. وہ صحتمند لوگوں پہ حکم چلا رہے تھے کہ انہیں اٹھا کر گاؤں سے باہر پھینک دیں. صحتمند لوگ اس بات سے آگاہ تھے کہ معذوروں پہ کسی قسم کی پکڑ نہیں ہوگی لیکن ان سے ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سے پہلے کیا وہ معذوروں کی سب باتیں مانتے آئے تھے جو اس بات کی تعمیل لازم تھی. پہلی دفعہ معذوروں نے تندرستوں کے سامنے خود کو سرخرو پایا تھا کہ آخر انکی بھی کوئی حیثیت ہے اور انہیں اپنی حیثیت ثابت کرنے کا موقع بھی میسر تھا۔

پہلے پہل لوگوں نے طاعون کے خدشے کے پیش نظر ان کے آگے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی اور مجھے لگا کہ شاید میں اس گاؤں میں پیدا ہو گیا ہوں جس پر عظیم جنگجو اشوکا کی فوج نے شب بسری کیلئے لوگوں کو آخری وارننگ دی ہو کہ گاؤں چھوڑ دیں یا لڑائی کیلئے تیار ہو جائیں تو انہوں نے بڑے پیار سے انہیں پاس ٹھہرا لیا اور اس رات ہر پناہ دینے والے نے پناہ گزیں سے پوچھا کہ یہ لڑائی کیا ہوتی ہے؟

میری ماں باورچی خانہ میں گئی تاکہ انکی ضرورت کے مطابق جو چیز دستیاب ہو دے کر جان چھڑائے کیونکہ انکا رات بھر کا قیام طاعون کا سبب بن سکتا تھا. لیکن یہ طاعون ہمارے دائمی لحمیات سے نہیں بلکہ انہیں برداشت کرنے کے حوصلہ سے باہم پیکار تھا. ماں نے آٹا لیا کہ انہیں دے جسے میں نے لیا کہ دعا اور بد دعا کے عوض وہ کچھ ایسا نہ مانگ لیں جو ہماری اسطاعت میں نہ ہو جیسے پیسے یا کوئی پوشاک. یہ خاصا مشکل ہوتا اگر وہ ایسا ہی تقاضہ کر دیتے کہ ان دنوں ہماری معاشی حالت ایسی نہ تھی کہ پیسے دے سکیں. ہاں کپڑوں کے بارے میں کچھ سوچا جاتا مگر اس میں مشکل یہ تھی کہ کیا وہ میرے پھٹے پرانے کپڑے لینے پہ آمادہ ہوتے جو اس قدر خستہ ہو چکے تھے کہ یہ تک نظر آتا تھا کہ نیچے کچھ اور بھی پہنا ہے یا نہیں. دوسرا یہ کہ بھلا چوہوں کا پیسوں یا پوشاک سے کیا کام. لیکن برا ہو اس مادی فکر کا کہ انسان تو انسان چوہے بھی اسکی لپیٹ میں آگئے تھے۔

میں نے آٹا لیا اور انہیں دینے کیلئے مڑا لیکن ابھی انکی زنبیل میں ڈالنے کو تھا کہ ان میں سے ایک پیچھے ہٹ گیا. اس نے کوئی زنبیل نہیں پہنی تھی اور میرے خوف کے عین مطابق جس ہاتھ میں پیسے پکڑے تھے وہ میری طرف لہرایا اور پیسوں کا تقاضہ کر دیا. چاہیے تو یہ تھا کہ میں جیب میں ہاتھ ڈالتا اور کوئی سکہ اسکو تھما کر جان چھڑا لیتا لیکن اب وہ دن نہیں رہے تھے جب جیب سے سکے نکلتے بلکہ میں تو کرنسی کی شکل تک بھول چکا تھا اور یہ بھی کہ انکے اوپر کس کی تصویر کندہ ہوتی ہے. یہی سوچتے سوچتے میں نے فیصلہ کیا کہ اب دو بدو ان سے بھڑ جاؤں اور اعلان کر دوں کہ میں انکی کسی چال میں پھنسنے والا نہیں۔

ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے کہ یہ چوہے یا انکی طرح کے دیگر ٹولیوں کی شکل میں یا اکیلے ہی ہم سب کے گھروں, بازاروں, دوکانوں حتٰی کہ عبادت گاہوں کے سامنے اپنی قیام گاہیں بنالیتے پھر دنیا جس قدر ہمارے لئے تنگ ہوئی اسی نسبت سے انکے لئے وسیح ہو چکی تھی. پہلے وہ ایک کمرے میں داخل ہوتے تو دوسرے تک جانے کیلئے انہیں وقت درکار ہوتا مگر اب ایک سے نکلتے ہی دوسرے میں گھس جاتے اور کیا پتہ کس میں انکو پکڑنے کیلئے کھونٹی تیار رہتی اور انہیں پکڑ لیا جاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر اب انہیں فائدہ یہ ہوا تھا کہ انکی محافظ بلیاں بن گئی تھیں. اب یہ انسان کے بس سے باہر ہو چکا تھا کہ انکو کھانے کیلئے بلیاں پالے. اور یہی بلے ان کے سب سے اہم ساتھی کے طور پر نمودار ہوئے. وہ انہیں پیچھے سے ٹہوکتے کہ فلاں چیز کی آواز لگاؤ، فلاں چیز مانگو اور شور مچاؤ، شور مچاؤ کہ انسانوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں. وہ ان کی سماعت چھین لینا چاہتے تھے. وہ انکی جمالیاتی حس کو مفلوج کرنے میں پیہم تھے کہ اس کیبعد ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہے گا. جب محبت, نفرت, مبارکباد اور کوسنے ختم ہو جائیں گے تو کیا معلوم کون کس کو کیا کہے گا اور کیا سنے گا کہ اب وہ فقط دیوار بن جائیں گے یا دیواروں کے پیچھے ہونے والی سرگوشیاں جو کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں.
میں انکا مقصد سمجھ چکا تھا. میں نے چیخ ماری اور گاؤں سے باہر نکلنے کیلئے دوڑ لگا دی۔

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply