حیات بعد از موت۔۔۔فاروق بلوچ

بلند و بالا سائنسی ترقی کے باوجود مذہب اب بھی کروڑوں افراد کے ذہنوں پر گرفت رکھتا ہے، آخر کیوں؟ کیونکہ مذہب مرد و زن کو موت کے بعد ایک زندگی کی تسلی فراہم کرتا ہے. مگر فلسفیانہ مادیت ایسی چیز کے امکان کی تردید کرتی ہے۔ شعور، خیالات، روح… یہ سب چیزیں ایک خاص طریقے میں منظم مادے کی پیداوار ہیں. نامیاتی زندگی ایک مخصوص مرحلے میں غیر نامیاتی زندگی سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر مزید تسلسل میں زندگی کی سادہ ترین شکل یعنی یک خلیاتی بیکٹریا ایک ریڑھ کی ہڈی، ایک مرکزی اعصابی نظام اور ایک دماغ کی تعمیر سے پیچیدہ شکلیں اختیار کرتی ہے۔

انسان کے اندر ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے کی قدیم ترین تمنا پائی جاتی ہے۔انسان کے اندر ہی اندر ایک دن مَرنے والی حقیقت کے برخلاف ایک خواہش پلتی رہتی ہے. پھولوں، خوشبوؤں، جھرنوں، آوازوں، چہروں اور اپنے پیاروں کو نہ چاہتے ہوئے الوداع کہہ کر اِس پُراسرار دنیا کو ترک کر کے عدم کے ایک لامتناہی دور میں داخل ہوجانے کی سوچ بھی خوف طاری کر دیتی ہے۔ لہٰذا نوع انسانی کی تسلی کی خاطر روحانی زندگی کا مابعدالطبیعاتی تصور پیش کیا گیا۔مثلاً قرآن میں ہے کہ:
کیف تکفرون باللّه و کنتم امواتا فاحیاکم ثُمَّ یُمیتکم ثمَّ یحییکم ثمّ الیه ترجعون (البقره: 82)
تم اللہ کا کیسے انکار کرتے ہو کہ تم بےجان تھے پھر اس نے تمھیں زندہ کیا۔ پھر تمھیں موت دے گا۔ پھر زندگی دے گا اور پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

بلاشبہ یہ انسانی تاریخ کا سب سے پائیدار اور خوش کُن تصور ہے کہ انسان روح کے طور پہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گا۔ذرا غور کیجیے کہ جب مرد و زن کیلیے اِس دنیا میں زندگی گزارنا بہت کٹھن ہو، بیگانگی اور بےمعنویت ناقابلِ برداشت ہو تو اِس صورتحال میں سکون اور معنویت کا واحد راستہ حیات بعد از موت کا نظریہ ہی ہو گا۔ہم اِس اہم سوال کی طرف بعد میں آئیں گے، پہلے ہم “حیات بعد از موت” کے نظریہ کا درست اور جز بہ جز معنوی تجزیہ کرتے ہیں۔

قدیم یونانی فلسفی “پلوٹائینس” کے مطابق “لافانیت کو بیان کرنا اور اِس کی وضاحت کرنا ممکن نہیں.” اِسی طرح ایک ہندوستانی کتھا میں لکھا ہوا ہے کہ “روح کو بذاتِ خود بیان نہیں کیا جا سکتا، اِس کو نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی سمجھایا جا سکتا ہے”.* دنیا بھر کے فلسفیوں کیلیے اور حتیٰ کہ مذہبی علماء کیلیے بھی روح ایک اندھیری رات ہے جس کی کچھ پہچان نہیں، جس میں کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔اُس کے باوجود واجبی علم سے عاری لوگ بھی روح اور حیات بعد از موت کے پیچیدہ موضوع  پر،پُراعتماد گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ اِس کا عامیانہ تصور تو یہی ہے کہ ہم ایک گہری نیند سے جاگ کر اپنے بچھڑنے والے اقرباء سے ملیں گے اور خوشی خوشی ایک ابدی زندگی کا آغاز ہو گا۔

روح کو غیرمادی شے خیال کیا جاتا ہے، لیکن سوال یہ بھی اہم ہے کہ اگر مادہ نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ جسم کی تباہی (موت) انفرادی وجود کی زندگی کا اختتام ہوتی ہے. لیکن یہ بھی سائنسی سچائی ہے کہ ہمارا بدن جن کروڑوں اربوں ایٹم (atoms) پہ مشتمل ہے وہ ہماری موت کے بعد ختم نہیں ہو جاتے، بلکہ بالکل مختلف ترتیب میں دوبارہ ظاہر ہوتے ہیں. اس لحاظ سے ہم تمام لافانی ہیں کیونکہ مادہ نہ ہی پیدا اور نہ ہی تباہ ہوتا ہے. آپ انسانی افعال کے کسی ایک فعل کو بھی مادیت سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔

حیات بعد از موت میں دو تصور ہیں؛ ایک یہ کہ اچھے اور نیکوکار لوگوں کو ایک خوبصورت جگہ پہ اٹھایا جائے گا، وہاں اُن کو خوبصورت چہرے اور جسم عطا ہونگے، کھانے یا پینے کیلیے اعلیٰ ترین اشیاء میسر ہونگی، رہنے کیلیے بہت شاندار رہائش گاہیں ہونگی، سکون اور التفات کیلیے بہت دلکش ساتھی ہونگے. یہ سب چیزیں جن کا تصور ہمارے ذہنوں میں نقش ہے، کیا اِن میں سے کچھ بھی غیرمادی ہے؟ دوسرا تصور کہ بدکار لوگوں کو سزا دی جائے گی اور اُن کو آگ میں جلایا جائے گا، کیا یہ بھی کوئی غیرمادی چیزیں ہیں؟ تو کیا روح جیسا غیر مادی جسم اِن مادی چیزوں سے کیونکر نپٹے گا؟ اِسی طرح جہنم میں جلنے کی تکلیف اور درد کا بھی مادی وجود سے براہ راست تعلق ہے۔

موت زندگی کا جزو لاینفک ہے. زندگی موت کے بغیر قابلِ تصور ہی نہیں ہے. ہماری پیدائش کے ساتھ ہی ہماری موت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انسانی جسم میں اربوں کھربوں خلیات بنتے ہیں، مرتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی مزید خلیات بنتے رہتے ہیں۔ اِس طرح انسانی جسم کی بڑھوتری جاری رہتی ہے. جسم میں کام کر کر کے یا مختلف وجوہات کی وجہ سے بیمار اور کمزور ہو کر نئے خلیات کے بننے کا عمل سست ہو جاتا ہے یا رک جاتا ہے، اِس طرح انسانی جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موت کے بعد ایک دوسری زندگی کے خیال پہ ایمان لانے میں حرج ہی کیا ہے؟ کیا انسانیت کو ایک خیالی نظریہ یا ایک الوژن کے گرد زندگی گزارنے پہ معمور کرنا درست ہو گا؟ آج اِس حیات بعد از موت کے نظریہ کو ترک کر دیا جائے، اور اِسی دنیا کو ہی ایک حقیقت مان لیا جائے تو ہم اپنی آخرت کی بجائے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کیلیے اِسی دنیا کو ہی بدلنے میں جُت جائیں گے. ہماری تمام کوششیں اِسی دنیا کو بدلنے میں صرف ہونگی۔

ہماری انفرادی شخصیت ہمارے اِسی مادی جسم سے جڑی ہوئی ہے. اِس کے علاوہ کوئی غیر مادی وجود نہیں ہے. کائنات میں موجود دیگر اجسام کی مانند ہم پیدا ہوتے ہیں، ہم زندہ رہتے ہیں اور ہم مر جاتے ہیں. انسانی نسل زندگی گزارتی اور اپنی نسل کی جگہ لینے کیلیے ایک اگلی نسل پیدا کرتی ہے. امرتا کی تمنا اور ہمیشہ کی زندگی کی امید پالنا ایک غیر حقیقی اور غیرمادی سوچ ہے. ایک غیرموجود زندگی کے خیال میں جینے کے بجائے اِسی موجود زندگی کی بہتری کیلیے سیکھنا ہو گا. اصل سوال یہ نہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی زندگی ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ موت سے پہلے کوئی زندگی ہے یا نہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ زندگی عارضی ہے، ہم اور ہمارے پیارے لوگ ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے اور مرنے کے بعد بھی دوبارہ ملاقات نہیں ہو گی. اِس حقیقت سے افسردہ یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے. بلکہ ہمیں اپنی زندگیوں میں محبت اور پیار کی مقدار کو بڑھانا چاہیے تاکہ ایک عارضی جگہ ہی جنت بن جائے. موت آنی ہے، آ کر رہے گی. ہمیں اِس حقیقت کو خوشی خوشی ماننا ہوگا، کیونکہ اِس کے علاوہ کوئی رائے ہی نہیں ہے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”حیات بعد از موت۔۔۔فاروق بلوچ

  1. تحریر اچھی ہے لیکن وہ لوگ جو کسی لا علاج بیماری کا شکار ہیں یا جن کی ہر کوشش کے باوجود بہتر زندگی گزارنے کی خواہش پوری نہی ہو پاتی کیا۔ ان کے لیے بعد از مرگ کی رعنائیوں سے بھرپور اور پرمسرت زندگی کی امیدیں، ان کی اس موجودہ زندگی کی اذیت کو کسی حد تک کم کرنے کا باعث نہی بنتی ۔۔۔

    1. یہ زندگی عارضی ہے، ہم اور ہمارے پیارے لوگ ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے اور مرنے کے بعد بھی دوبارہ ملاقات نہیں ہو گی. اِس حقیقت سے افسردہ یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے. بلکہ ہمیں اپنی زندگیوں میں محبت اور پیار کی مقدار کو بڑھانا چاہیے تاکہ ایک عارضی جگہ ہی جنت بن جائے. موت آنی ہے، آ کر رہے گی. ہمیں اِس حقیقت کو خوشی خوشی ماننا ہوگا، کیونکہ اِس کے علاوہ کوئی رائے ہی نہیں ہے۔

Leave a Reply