تعلیم کسی بھی قوم ، علاقہ ، رنگ ، نسل اور دھرم سے بالاتر ہو کر زندگی کا حصہ بن جاتی ہے اس کامقصد اعلیٰ خیال اور ماحول کو جنم دینا ہے جو آلودگی سے پاک بغیر کسی تفریق کے انسانیت کو تقویت دے۔
یہ سلسلہ ایک فرد سے شروع ہوکر ایک قوم تک ، پھر دنیا کے کونے کونے میں اپنا جادو عملی جامہ کی صورت میں دیتا ہے۔ اس کے لیے کسی خاص دھرم ، زبان ، کپڑے اور جوتوں کی ضرورت نہیں بلکہ پاکیزہ خیال ، خدمت کا جذبہ اور سیرت نگاری کی اہمیت درکار ہے جو مجموعی طور پہ خوشبو بن کر اردگرد فضاء کو اپنی لیپٹ میں لے لیتی ہے۔ جو فقر ، درویشی ، وسعت نگاہ ، آگے بڑھنے کا عزم اور بلند پروازی کا جنون ہیں۔
ان سے آدمی انسان بن کر رنگ و نسل کے دائرہ سے نکل آتا ہے جغرافیائی حدود سے بالاتر ہو کر سلیقہ خیال کی ترجمانی کرتا ہے۔ پھر حُور کی پروا نہ ہورے کی ، صرف قدردانی کا اسلوب رواں دواں نظر آتا ہے۔
افسوس کا مقام کہ ان سب کے متضاد اور اُلٹ منظر گردونواح میں زور پکڑتا ملا ہے۔ ہر طرف سموگ کا روگ لیے ان تعلیمی اداروں پر آ لگا اور گذشتہ سالوں کی طرح تالا بندی کروا دی۔
ان باتوں کی بابت دریافت کرنے گھر سے باہر نکلا ، کنال روڈ پہ پیدل چلتا ہوا ان بند تعلیمی اداروں کے مرکزی دروازوں پر دستک دیتے ہوئے سُنائی دی کہ بوجہ سموگ اور ان کے اندر لگے روگ کی وجہ سے یہ ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ میں نے اعتراض لگاتے ہوئے دریافت کیا کہ واقعی یہ ادارے سموگ اور اُس روگ کی وجہ سے بند ہوئے ہیں۔
ایک دروازے پہ لگا نوٹس بورڈ اپنے لفظوں کے ترچھے دانت غرور کی آنکھیں اُٹھا کر بولا:
” تمھیں میرا رنگ کالا نظر آرہا ہے نا؟ ”
میں ایک دم چونک کر بولا :
” کیسی بات کرتے ہو میں نے تو رنگ اور دھرم کی بات نہیں کی ؟ ”
وہاں ترچھے لفظوں نے یکبارگی پھر کہا :
” میں نے منہ کھولا تو میرے ساتھ بھی وہی ہوگا جو کپڑے کے ساتھ درزی اور اس ریاست میں موجود ہر ظلم کی داستان کے پیچھے وردی کرتی ہے۔ تم چپکے سے چلے جاو یہاں نہ مزید بات کرو اور نہ کرنے دو ورنہ ۔۔ ”
ابھی میں کھڑا وہ نوٹس بورڈ کو دیکھ رہا ہوں کہ اچانک ایک سائرن بجاتی گاڑی آئی اور میں چپکے سے آگے قدم بڑھانے لگا۔ یوں چپکے چپکے پیدل کنال کے کنارے آگے بڑھا تو مزید اسی رنگت ، سائز اور ڈھنگ کا ایک اور نوٹس بورڈ ملا ۔ میں نے رُکنے کی کوشش کی کہ دریافت کروں مگر اُس نے ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا کہ آگے چلتا جا یہاں مت کھڑا ہو۔
میں اس حیرانی کے عالم میں دیکھتے ہوئے گہری نگاہ کرتے آ چلتا بنا۔ دوسری طرف سے ایک سائرن بجھاتی گاڑی آئی اور اشارہ کرتے ہوئے کہ آگے چل ۔۔۔۔۔۔
جب یہ منظر دوسری بار دیکھنے کو ملا تو بات کچھ سمجھ میں آنے لگی ، ابھی رُکنے اور بیٹھنے کا سماں نہ کوئی بات کرنے کا۔۔۔۔۔۔
اس کشمکش کے عالم میں قدم آہستہ آہستہ آگے کی طرف تو بڑھ رہے تھے مگر بے چینی بھی اندر کافی بڑھ چکی کہ یہ ماجراء کیا ہے ؟
ذہن میں چند سوالوں کا جنم لیے بے چینی کی حالت میں اضافہ کیے جا رہا تھا کچھ لمحات کے لیےنظر نہر میں بہتے پانی پر پڑی جہاں لہریں منزل کی طرف رواں تھیں مگر خاموشی سے ۔۔۔۔۔ اس پانی کے عکس میں ان تعلیمی اداروں کی عمارتوں کا نام کہاں نظر نہ آ رہا تھا سوائے اُس کوڑے کے جو اس پانی کو آلودہ بنا کر گزرتے لمحوں اور یاد میں زہر کا اثر چھوڑتے جا رہے۔۔۔۔۔۔
ایک لمحہ کے لیے اس کوڑے اور جگہ کا ربط جاننے کی کوشش کی جیسے ہی یہ جاننے کی کوشش کی ایک دم سائرن بجھاتی گاڑی نظر آئی۔ میں ابھی چلنے کے لیے قدم بڑھانے لگا تو گاڑی ہوا میں جاتے شاپر کی طرح میرے پاس آکر رُک گئی اور ایک نقاب پوش آفیسر بھاری لہجہ میں بولا آگے چل ۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے بولنے کا انداز ایسا لگا جیسے اس کی تنخواہ میں بلاوجہ کٹوتی ہوئی ہو۔
میں نے کہا جی جناب ۔۔۔۔۔۔ پر ایک بات کا جواب درکار ہے اگر مناسب ہو تو بتا دیں مہربانی ہوگی۔ اُس نے کہا جلدی بول کیا چاہتے ہو؟
اس لہجہ نے تو مجھے ایک بات واضح کر دی کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہونا ضروری ورنہ چلتی پھرتی لاش کا نمونہ ہے بالکل وہی جو کپڑوں کی دکان کے باہر رکھے مجسمہ کو ہی دیکھ لیں لباس تو ہے پر روح نہیں۔
میں نے عرض کی کہ سرکار کو بھی معلوم ہے کہ یہ دھواں گاڑیاں ، فیکٹریاں اور گلیوں میں کوڑے کو آگ لگانے کے بدلے پیدا ہوتا ہے جس سے سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ کیا یہ سب تعلیمی اداروں میں تیار ہوتی ہے؟
اس سوال کے بولتے ہی اُس نوجوان نے گاڑی میں بیٹھے افسر کی طرف دیکھا اور کہا :
” مجھے معلوم نہیں یہاں اب نظر نہ آنا ”
آگے چلتے قدم اس صورت حال پر ندامت محسوس کرتے یہ جذبات ایک بوجھ لیے چلتے جا رہے میٹرو بس کا نہر والا اسٹیشن گزر کر ایف سی یونی ورسٹی کے مرکزی دروازہ تک پہنچا جہاں سے اپنے اُستادوں کی یاد ایک لہر کے رنگ، خیالوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ اسی دوران ایک بابا کندھے پہ کچرے والا توڑا رکھے آہستہ آہستہ چلتا ہوا ملا۔ جو اپنی کوئی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش میں ادھر اُدھر نظر دوڑا رہا اچانک میری طرف بڑھا۔
میں ایک دم تو چونک گیا مگر حوصلہ رکھتے ہوئے ہاتھ ملا۔
اُس نے بڑی گرم جوشی سے سلام کا جواب دیا۔ ایک اخلاقی جھلک ، مسکراہٹ کا فن ، خوش اسلوبی کا ڈھنگ اور غم کی دنیا سے آزاد فرد معلوم ہوا۔ اس نے کہا :
” بڑی بےتابی میں لگ رہے ہو؟”
میں نے کہا ” جی ایک سوال جو آج کے اس منظر نامے کے متعلق ہے۔۔۔۔۔۔ ”
اُس نے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ” میں بتاتا ہوں بولو کیا سوال ہے ؟”
میں نے مدعا بیان کرتے ہوئے عرض کیا” معاملہ یہ تعلیمی ادارے بند ہونے کی بابت ہے کیا یہ دھواں چھوڑ رہے ہیں؟ ”
انھوں نے فوراً کہا ” ہاں بالکل ”
میں نےبات کو دُہراتے ہوئے کہا:
” وہ کیسے ؟ گاڑیاں ، فیکٹریاں ، کوڑے کو آگ لگانے کے بدلے یہ پیدا ہوتا ہے جو فضا کو آلودہ کر رہا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ۔۔۔۔۔۔ ”
انھوں نے کنال کے ساتھ کچی مٹی پہ توڑا رکھتے ہوئے بیٹھ جانے کا عندیہ دیا اور نہر میں چلتے پانی میں کچھ کچرا پھینک دیا اور کہا:
” پانی اب گندا ہو گیا لیکن پہلے نہیں تھا
یہی اُس سوال کا جواب ہے جس کی تلاش تم کر رہے۔”
میں ایک دم خاموش مگر سمجھ نہ آئی۔ انھوں نے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر غور سے دیکھا اور کہا “سمجھے ۔۔۔۔۔۔”
میں نےکہا : ” نہیں ”
انھوں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ” یہی اس قوم کا مسئلہ ہےجو تم بتا رہے ہو ، دیکھو تمھارے بقول گاڑیاں ، فیکٹریاں ، کوڑے کو آگ وغیرہ لگانے سے یہ صورت حال ہے ”
میں نے کہا ” جی ”
وہ ایک دم اپنی جگہ سے اُٹھے توڑا کندھے پہ رکھا اور کہا ” ان سب جگہوں پہ براجمان لوگ کہاں سے تعلیم پا کر گئے ہیں ؟”
میں نے جواب میں کہا ” پڑھ لکھ کر تو ان تعلیمی اداروں سے ہی گئے ہیں۔”
بابا جی نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے راہ لی اور پیچھے دیکھ کر مسکراہٹ بھرے لہجہ میں کہا ” جواب تم نے خود دے دیا۔۔۔۔ یہاں کی جموریت صرف چائے کے کپ میں ہے۔ “
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں