مسئلہ کشمیر پر ہمارا بدلتا ہوا بیانیہ۔۔نذر حافی

بیانیہ دماغوں کو جکڑ لیتا ہے اور دماغ افراد کو قابو کرتے ہیں، دماغوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی گرفت میں لیا جاتا ہے۔ یعنی ذرائع ابلاغ اُس طاقت کا نام ہے، جو انسانی اذہان کو بنانے، سنوارنے اور بگاڑنے کے کام آتی ہے۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ بیانیے کی تشکیل میں اصل طاقت ذرائع ابلاغ ہیں، لیکن درحقیقت اصل طاقت وہ مقتدر شخصیات ہوتی ہیں، جو ذرائع ابلاغ کو اپنے مقاصد کیلئے خرید لیتی ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے مفاد کے مطابق بیانیے تیار کرواتی ہیں اور پھر انہی بیانیوں کے ذریعے انسانی اذہان کو قابو کرتی ہیں۔ یہی شخصیات یہ بھی طے کرتی ہیں کہ ہم نے مختلف بیانیوں کو درجہ بندی کے اعتبار سے کس مقام پر رکھنا ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب ہمارا بیانیہ “پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لا الہ الا اللہ” تھا۔ ہمارے دماغوں میں پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی، کشمیری، بنگالی، شیعہ، سنی، اہل حدیث اور دیوبندی کا تعصب نہیں تھا۔ بعد ازاں مقتدر شخصیات نے اپنے اپنے فائدے کیلئے “بنگالی غدار، فلاں کافر، ملک دشمن، مقامی و مہاجر اور لسانی و صوبائی تعصبات“ پر مبنی متبادل بیانیے سامنے لائے۔ ان بیانیوں نے بھائی کو بھائی سے الگ کرکے رکھ دیا اور بنگال ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔

اس کی دوسری مثال افغانستان اور روس کی جنگ ہے، مقتدر شخصیات کو جب اس جنگ کے لڑنے کے ڈالر مل رہے تھے تو انہوں نے اسے جہادِ افغانستان کا نام دے کر بعض پاکستانی دینی مدارس کے نیک اور صالح جوانوں کو مجاہدین کہہ کر اس جنگ میں دھکیل دیا۔ خیبر پختونخوا میں اس بیانیے کے تحت سکولوں کی درسی کتب بھی مرتب کی گئیں۔ لیکن جب مقتدر قوتوں اور شخصیات کا مفاد تبدیل ہوگیا تو پھر مجاہدین کے بجائے “سب سے پہلے” پاکستان کا بیانیہ سامنے لایا گیا اور اس بیانیے کے تحت اپنے ہی تیار کردہ مجاہدین کو مارنا شروع کر دیا گیا۔ اس کی تیسری مثال کے طور پر آپ کشمیر کو لیجئے، ہمارے بچپن تک ہمارا ملّی و قومی بیانیہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیر بنے گا پاکستان تھا، اس وقت ہماری درسی کتابوں میں تاریخ کشمیر، مشاہیر کشمیر، کشمیری ثقافت، ہمارے ڈراموں میں کشمیر کی مظلومیت اور ہمارے سیاستدانوں کی تقریروں میں کشمیر کے حوالے سے دوٹوک بات کی جاتی تھی۔۔۔

اُن دنوں صبح سویرے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں سے سکولوں کے در و دیوار دہل جاتے تھے۔ آزاد کشمیر میں کالج کے طلباء کو باقاعدہ این سی سی کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ 14 اگست کو جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ منایا جاتا تھا، پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر کشمیر کا مسئلہ چھایا ہوتا تھا، لیکن اب کشمیر کے بیانیے کے بجائے مضبوط اقتصاد کا بیانیہ چھا گیا ہے۔ اب کئی سالوں سے مقتدر شخصیات اور آئی ایم ایف کا بیانیہ ہی ہمارا بیانیہ ہے۔ اب ہمارے اذہان پر کشمیر نہیں اقتصاد سوار ہے، اب ہمارے درسی نصاب اور ذرائع ابلاغ میں کشمیر کا ذکر بس واجبی سا رہ گیا ہے۔ اب ہم کشمیر کا مالی اور اقتصادی فوائد کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، اب ہم برملا یہ کہنے لگے ہیں کہ کشمیر کو چھوڑو اور اپنی اقتصاد کو مضبوط کرو۔ اب تو یہ فکر عام کی جا رہی ہے کہ کشمیر کی وجہ سے تو پاکستان کی اقتصاد ڈوب گئی ہے، پاکستان کے بجٹ کا جو حصہ ہم دفاع پر لگاتے ہیں، یہ سراسر فضول خرچی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا کشمیری جانیں اور اُن کا کام، ہمیں تو سب سے پہلے پاکستان کو اقتصادی حوالے سے مضبوط کرنا ہے۔ چنانچہ ہمیں کشمیر سے لاتعلق ہو کر اپنے دفاعی بجٹ کو کم کرکے وہ پیسہ بھی اپنی اقتصاد پر لگانا چاہیئے۔ ہم اس وقت اس نظریئے کو رد نہیں کرنا چاہتے، اس پر بعد میں بات کریں گے کہ کشمیر کا پاکستان کی اقتصاد کے ساتھ موازنہ ہونا چاہیئے یا نہیں، لیکن آج صرف اپنے ہم وطنوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بیدار ہو جایئے، آنکھیں کھولئے۔۔۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہمارے اذہان تبدیل ہوچکے ہیں، ہمیں اقتصاد کا درد محسوس ہو رہا ہے، لیکن کشمیر کا درد ختم ہوگیا ہے۔۔۔ کشمیر پر ہمارا بیانیہ بدل چکا ہے۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے۔۔۔ اس کے عواقب اور نتائج پر غور کیجئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply