• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا سول حکومت ہی قصور وار ہوتی ہے، اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ ان بن میں؟ آخری قسط

کیا سول حکومت ہی قصور وار ہوتی ہے، اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ ان بن میں؟ آخری قسط

چھبیسواں جھٹکا۔ جنرل ضیاء الحق کی اچانک ہلاکت کے بعد قائم مقام صدر غلام اسحاق خان اور جنرل بیگ نے جماعتی بنیادوں پر انتخابی عمل کی بحالی کا اعلان کیا مگر اس خیال سے کہ کہیں خالص اور بااختیار جمہوریت ہی نا آجائے  ، دونوں صاحبان نے ایک بینک فراڈ کے ذریعے لوٹے ہوئے  پیسوں سے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تاکہ معاملات اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہاتھ میں رہیں ۔

‎ستائیسواں جھٹکا۔ بینظیر بھٹو نے جنرل بیگ کو انتخابی عمل کی مشروط بحالی اور آمریت سے جمہوریت کے سفر میں رکاوٹ نہ ڈالنے کے عوض تمغۂ جمہوریت سے نوازا لیکن جنرل بیگ نے بے نظیر بھٹو کو، جنرل حمید گل، مہران گیٹ اور آئی جےآئی  فیکٹر سے نواز دیا۔

اٹھائیسواں جھٹکا۔ بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی صرف  اڑھائی برس میں برطرفی کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کو باری دلائی گئی لیکن آئی جے آئی حکومت اور جنرل بیگ کے درمیان تناؤ اس وقت بڑھ گیا جب من موجی فوجی نے کویت پر عراق کے قبضے کے بعد صدام حسین کی حمایت میں بیان دے ڈالا۔ ان کے بارے میں یہ شبہات بھی پیدا ہوئے کہ وہ ایران کے خفیہ جوہری پروگرام میں مدد دے رہے ہیں۔

انتیسواں جھٹکا۔ جب واجپائی لاہور آئے تو استقبال کرنے والوں میں فوجی قیادت شامل نہیں تھی۔ مگر و ہی فوجی قیادت کچھ عرصے بعد جب خود اقتدار میں آئی تو اُسی واجپائی کے قدموں میں بیٹھی تاج محل کے سامنے تصویر بنا رہی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک اپنی کتاب “ہم بھی وہاں موجود تھے “  میں لکھتے ہیں کہ مارچ 1999 میں وزیر اعظم ہندوستان واجپائی  لاہور آئے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم نے مینارِ پاکستان پر حاضری دی۔ جو کہ پاکستان کے وجود کو ایک لحاظ سے تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ سول حکومت کی یقینی طور پر یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔

تیسواں جھٹکا۔ جس وقت انڈین سول گورنمنٹ اور پاکستانی سول گورنمنٹ مینار پاکستان کے سائے تلے امن کی باتیں کر رے تھے، اس وقت فوجی قیادت کارگل کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب مئی 1999 میں کارگل کا معاملہ فوج سے ہینڈل نہ ہو سکا ،  تب یہ سول حکومت ہی تھی جس نے ان بہادر کمانڈوز، جو کسی سے نہیں ڈرتے ، کی جان اس مصیبت سے چھڑوائی تھی۔ جب جان چھوٹ گئی  تو پھر یہ تاثر پھیلایا گیا کہ فوج نے تو کارگل میں انڈیا کی شہ رگ پر پاؤں رکھ دیا تھا لیکن سول حکومت نے کلنٹن کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔

اکتیسواں جھٹکا۔جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب “یہ خاموشی کب تک” میں لکھا ہے کہ جنرل مشرف   12 اکتوبر 1999 سے بہت پہلے نواز شریف کی حکومت ختم کرنےکا فیصلہ کر چکے تھے۔ یاد رہے جنرل شاید عزیز ہی وہ فوجی جنرل ہے جس نے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے اور مشرف کا مارشل لا لگانے کے پورےآپریشن کی نگرانی کی۔

بتیسواں جھٹکا۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک اپنی کتاب “ہم بھی وہاں موجود تھے “ میں  لکھتے ہیں کہ 1999 میں فوج کا اقتدار پر قبضہ کرنے کی ایک ہی وجہ ہے، وہ ہے کارگل۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جنرل مشرف نے کبھی بھی سول حکومت کو کارگل کے سلسلے میں کوئی  پیشگی بریفنگ نہیں دی تھی۔ یہ منصوبہ صرف فوج کا بنایا ہوا تھا۔ کارگل کی چوٹیاں جو کہ انڈین علاقے میں تھیں، ان پر قبضے میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ فوج کا بھی   ہاتھ تھا۔ مختصر یہ ہے کہ کارگل fiasco کی تمام تر  ذمہ داری جنرل مشرف اور فوج پر عائد ہوتی ہے۔

تینتیسواں جھٹکا۔ جنرل پرویز مشرف نے پاکستانی سول عورتوں کے بارے میں کہا کہ پاکستان کو ریپ کے معاملے میں بدنام کیا جا رہا ہے واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ “پاکستان میں ریپ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ صدر مشرف نے کہا: ’ آپ کو پاکستان کے حالات کو سمجھنا چاہیے۔ یہ پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ باہر جانا چاہتے ہیں یا کینیڈا کی شہریت یا ویزہ لینا چاہتے ہیں تو خود کو ’ریپ‘ کروا لیں۔” یہ ایک جنرل کے زریں خیالات تھے اپنی  سول غلام عورتوں کے بارے میں۔

مشہور صحافی عباس اطہر صاحب، اکمل شہزاد کی کتاب “میڈیا منڈی” میں کہتے ہیں کہ اسلم بیگ، بریگیڈئیر امتیاز اور جنرل حمید گل خود کہتے رہے ہیں کہ 1988 کے الیکشن میں ہم نے مینڈیٹ چُرا لیا تھا۔ انھوں نے سیٹیں چھین لی تھیں۔ کٹ ٹو سائز کر دیا تھا۔ جتنا سائز یہ دینا چاہتے تھے اتنا ہی دیا۔ پہلے بےنظیر کو نکالا، پھر نواز شریف لائے ، پھر نکال دیا۔ پھر نواز شریف کو  دوبارہ لائے ، جب نواز شریف نے آ کر بھٹو بننے کی کوشش کی   تو انھوں نے ان کو بھی نکال دیا۔ کیوں کہ پس پردہ بیٹھ کر فوج خود حکومت کرتی ہے۔ خارجہ پالیسی بناتی ہے، داخلی معاملات میں دخل دیتی ہے۔ انڈیا کے ساتھ تنازع کے حل کی طرف کسی کو بڑھنے نہیں دیتی۔

اسی طرح جنرل ضیا کے حامی صحافیوں میں سے ایک نام مجیب الرحمٰن شامی کا بھی ہے ، وہ اکمل شہزاد کی کتاب میڈیا منڈی میں کہتے ہیں کہ بار بار کی فوجی مداخلت نے سیاسی پارٹیوں اور قانون کی حاکمیت کے تصور کو کمزور کیا اور اسی وجہ سے علیحدگی پسند قوتیں مضبوط ہوئیں۔

لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک اپنی کتاب “ہم بھی وہاں موجود تھے “ میں  لکھتے ہیں کہ پاکستانی فوج جو کہ ایک مضبوط اور منظّم ادارہ ہے، بدقسمتی سے اس کو ماضی سے ایسی عادتیں پڑی ہوئی  ہیں کہ اس نے اپنے  آپ کو ایک قسم کی سُپر پاور سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں آدھے عرصے سے زیادہ وقت فوج کی حکمرانی رہی ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی فوج کے ایسے طویل تسلط کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لا لگایا جاتا ہے تو اقتدار سنبھالنے والے اپنے اقتدار میں آنے کی وجوہات اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے جو بھی کیا وہ ملی مفاد میں کیا۔ وہ یہ کہتے تھکتے نہیں کہ سیاسی اور ملکی حالات اتنے ابتر تھے کہ ان کو مجبوراً یہ اقدام اُٹھانا پڑا۔

ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ”پاکستان- تاریخ و سیاست” میں لکھتے ہیں”تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ پاکستان کے عوام کی سیاسی پسماندگی کا رونا ان حکمرانوں نے رویا ہے جن کی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں تھی۔ اس بدعت کا آغاز میجر جنرل سکندر مرزا سے ہوا ۔ پھر یہ روایت فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہوتی ہوئی صدر ضیا الحق تک پہنچی ،کیونکہ یہ حکمران غیر سیاسی پس منظر کے مالک اورعوام سے الرجک تھے ۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے جو حقیقی معنوں میں قوم کے قائد تھے کبھی بھی عوام کی ناخواندگی یا سیاسی پسماندگی کی شکایت نہیں کی، حالانکہ اس وقت ناخواندگی کی شرح کہیں زیادہ تھی۔”

ویسے ان ہی ناخواندہ جاہل لوگوں نے پاکستان کے لیے ووٹ دیا، اپنی جانیں قربان کیں، عزتیں  گنوائیں ، کروڑوں کا نقصان اُٹھایا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ “ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری عمل کے نتیجے میں جو سیاسی رہنما منظرِ عام پر آئے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اخلاقی پستی ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔حکومت کا پالہنگ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دینا ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ اس کا علاج قومی اداروں کا انہدام نہیں، بلکہ ان کا استحکام ہے۔ادارے جس قدر مستحکم ہوں گے احتساب کا نظام بھی اسی قدر بہتر ہو گا۔اگر ہم اداروں کو ان کے بننے کے عمل سے پوری طرح گزرنے ہی نہیں دیں گے تو طالع آزما لوگ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرتے رہیں گے۔اداروں کا استحکام بھی سیاسی عمل کے تسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔”

ان تینتیس شقّ الارض جھٹکوں اور لاتعداد  ارتجاف نے پاکستان اور اس کی عوام کو ایک بندگلی میں اسیر کر دیا ہے۔ اور وہ کسی نجات دہندہ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے  ہیں۔ مگر یاد رکھیے کہ ایسی مایوسی کی صورت حال میں ہمیشہ ‘راسپوٹین‘ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمیں ارتقائی  عمل سے ترقی کرنی ہے نہ کہ کسی انقلاب سے، جو کہ ہمیشہ ایک ڈکٹیٹر لاتا ہے جس سے ملک میں دہشتگردی، پرا گندگی اور بربادی  آتی ہے۔

ہم یہ مضمون پاکستان کے بانی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی14 اگست 1947 کو کی گئی تقریر پر ختم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ فوج قوم کی خدمت گزار ہے،اور آپ لوگ (فوج) قومی پالیسی تشکیل نہیں دیتے، یہ ہم سویلین ہیں جو ان معاملات پر فیصلے کرتے ہیں اور آپ کا کام ان پر عمل کرنا ہوتا ہے‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس تحریر کو لکھنے میں منیر احمد منیر(دنیا)، ڈاکٹر صفدر محمود، نصرت جاوید(نواۓ وقت)، حامد میر(جنگ)، اکمل سومرو (ڈان) منظور ال حسن (ال ماروت)اور وسعت اللہ خان صاحب (بی بی سی ) کی تحریروں سے مدد حاصل کی گئی  ہے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply