کچھ رہ جانے والی باتیں۔۔۔۔روبینہ فیصل

وقت کی تنگی نہیں تھی کہ میں جو کہنا چاہتی تھی کہہ نہ پائی یا ٹھیک سے کہہ نہ پائی مگر حالات ضرور تنگ ہو گئے تھے۔ یہ قصہ ہے میری کتاب” گمشدہ سائے “کی تقریب ِ رونمائی کا۔ رونمائی ڈاکٹر خالد سہیل کر رہے تھے اور کتاب جس کا گھونگٹ اٹھا یا جا رہا تھا وہ میری تھی، دو باغیوں کا معاملہ ہو تو بات رسم و رواج سے آگے نکل جاتی ہے۔ اس ادبی محفل کا مزاج بھی بس کچھ ایسا ہی تھا۔مگر اس ساری گہما گہمی میں بھی ایک ضابطہ ضرور تھا۔ انتہائی سردی اور برف باری کے باوجود برنمتھروپ کمیونٹی سنٹر کا ہال لوگوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ کوئی موسیقی کاانتظام کیا ہو جس سے ادب سے کم دلچسپی یا بالکل بھی دلچسپی نہ رکھنے والوں کو متوجہ کیا جا سکے، یا ایک رواج کے مطابق لوگ اکھٹے کرنے کو مشاعرہ رکھ دیا ہو کہ اور کوئی آئے نہ آئے شاعر تو  اپنی غرض کو آئیں گے ہی۔یا کھانا رکھ دیا جائے کہ اور کچھ نہیں لوگ لنچ کا انتظام ہوجانے پر ہی اکھٹے ہو جائیں گے جیسے کہ ہمارا ایک گینگ شہر میں ہونے والے فنکشنز کو یوں بیان کرتا ہے کہ ہفتے کے ڈنر کا انتظام ہو گیا اب دیکھو سنڈے کے لنچ کا کیا کرنا ہے (سٹوڈنٹ لائف کے بعد ایسا گروپ مل جانا قدرت کی طرف سے ایک بونس کے سوا کچھ نہیں)۔تو یہ سب لوگ، جو کرسیاں نہ ملنے پر پیچھے دیواروں سے ٹیک لگائے کھڑے تھے اور پروگرام وہ بھی کتاب کی رونمائی کا پو رے انہماک سے سن رہے تھے، صرف گمشدہ سائے( کتاب) کی تلاش میں آئے تھے اور میرے لئے آئے تھے یہ سوچ کر ابھی میں جذباتی ہو نے ہی والی تھی کہ میرے پیروں کے نیچے سے زمین تو نہیں مگر کیمرے کی تاریں کھینچ لی گئیں، میں جو عبداللہ (میرے بیٹے) کی تقریر پر کان دھرے بیٹھی تھی کہ کہیں ماما کے خلاف نہ کچھ بول دے آجکل کے بچوں کا کیا بھروسہ موقعے کی تاک میں ہو تے ہیں، مثال کے طور پرجب کسی سے فون پر بات کر رہے ہوں تو یہ پیسے مانگنے یا کوئی ایسی اجازت مانگنے سر پر آکھڑے ہو تے ہیں کہ غور سے سننے کا موقع ہو تو  انہیں اس بات کی کبھی اجازت نہ ملے، بے دھیانی میں ہاں نکلوا کر دم لیتے ہیں تو ایسے بچوں پر دم بھر کا اعتبار نہیں۔ اسی وجہ سے میری پو ری توجہ اس کی تقریر پر تھی جب میرے پاؤں کے نیچے سے تاریں کھسکنے کا سانحہ ہوا۔میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اپنے ٹورنٹو کے مشہو ر و معروف کیمرہ مین اور جب موڈ  اور موقع ہو تو اینکر پرسن بھی بن جاتے ہیں، (پاکستان کے صحافی جاوید چوہدری جب آئے تھے تو تب میں نے ان کے یہ گوہر دیکھے تھے اور اس کے بعدجاوید چوہدری کے بارے میں میری رائے بس یہاں تک محدود ہو کے رہ گئی تھی کہ اس کے لئے ہمارے صابر گایا ہی کافی ہیں) ؟ اکھاڑ پچھاڑ کر رہے تھے۔ صابر گایا بالوں میں پو نی باندھے بہت محبت سے بات کرتے ہیں مگر صرف اس وقت تک جب تک کو ئی ان کو چھیڑ نہ دے۔تو یہاں بھی  شائد یہ معاملہ ہو چکا تھا۔ گایا صاحب چینل 360کے لئے خصوصی طور پر ریکارڈنگ کرنے آئے تھے، اور ہم سب سے پہلے آکر وہ ویڈیو کیمرہ ایک جگہ پر نصب کر چکے تھے (ہر پروفیشنل کیمرہ مین کا یہی انداز ہو تا ہے)۔گایا صاحب کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ فیس بک پر پروگرام لائیو کر دیتے ہیں توجو اس تقریب میں نہیں موجود ہو تے وہ بھی محظوظ ہو جاتے ہیں۔۔ خیر ڈاکٹر خالد سہیل،شاہد اختر،سید حیدر حسین، احمد رضوان، میری بیٹی علینہ کی تقریریں اور نسرین سید صاحبہ کی میرے پر پڑھی گئی خوبصورت نظم۔۔یہ سب آن ائیر جا چکا تھا۔۔ افتاد ٹوٹی تو عبداللہ کی تقریر کے دوران جو صرف دو منٹ کی تھی اور ابھی گایا صاحب کا تاریں اور مائیک اکھاڑنے کا عمل جاری و ساری تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ عبداللہ معصوم یہ سب ہو تے دیکھ کر گھبرا نہ جائے، مجھے اس کی فکر ہو رہی تھی کہ میری باری بھی آگئی۔ میں ابھی ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جس کی بنا پر گایا صاحب لال پیلے ہو کر ہمارے ہاتھ پاؤں نیلے کر رہے تھے۔۔سب غصے نکال کر جب انہوں نے خفگی سے جس صاحب کی طرف جا تے جاتے دیکھا تو وہ اپنے پرویز صلاح الدین تھے۔۔ یعنی کہ انہیں بھڑکانے کا سہرا ان کے سر تھا  اور پھر بعد میں وہاں بیٹھے گواہوں کے بیانات کے مطابق یہ معلوم ہوا کہ گایا صاحب، پرویز صاحب کو بار بار ان کے لگائے گئے کیمرے کے آگے آنے سے منع کر رہے تھے کہ اگر انہیں تصویریں لینی ہیں تو سائیڈ سے لیں یا کم از کم میرے کیمرے کے آگے نہ آئیں۔مگر پرویز صاحب کو انہی کے کیمرے کے آگے آنا تھا، پہلی دفعہ شائد غیر ارادی طور پر مگر جب منع کیا گیا تو پھر ارادے اور بھی مضبوط ہو ئے اوپھر غالباًشرارتی طور پر وہی کیا جو دل میں سمایا اور پھر گایا صاحب نے بھی وہی کیا جو ان کا دل کیا۔ مگر ہم جو سٹیج پر بڑے سج دھج کے معزز بن کے بیٹھے تھے، ہمارے دل کی دھڑکن تو تیز ہو گئی کیونکہ ماشاللہ ٹورنٹو کی تقریبات میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اناؤں کی ایسی بڑی بڑی لڑائیاں ہو تے دیکھی ہیں کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم۔۔ ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔۔۔ کرسیاں بھی چل جاتی ہیں اور سر بھی پھٹ جاتے ہیں۔اس کے تصور سے ہی مجھ پر تقریباً لرزہ طاری ہو گیا۔۔ اس تصور کو میں نے جھٹلایا اور پرویز صاحب کی سمجھداری کو یاد کرنے کی  ناکام کوشش کی۔۔۔ 
خیر یہ سب قصہ بتانے کا مقصد نہ کوئی عدالت لگانا ہے نہ کوئی فیصلہ سنانا ہے بلکہ اپنا غم سنانا ہے کہ ایسی کامیاب تقریب، اتنی خوبصورت تقریریں کہ سامعین جن کاتعلق ادب سے تھا وہ بھی اور جن کا بے ادبی سے وہ بھی سب اپنی اپنی کرسیوں پر یوں دلجمعی سے سن رہے تھے کہ اس سے زیادہ روحانی نظارہ نہ کبھی دیکھا نہ سنا ۔اور میں ان سامعین کو اور متاثر کر سکتی تھی اور ماحول میں روحانیت کا اضافہ ہو سکتا تھا اگر اوپر والا واقعہ عین میری تقریر سے پہلے رونما نہ ہوا ہو تا، ایک آدھ تقریر پہلے بھی ہو چکا ہوتا تو شائد مجھے سنبھلنے کا موقع مل جاتا اور میرا منہ اتنا خشک نہ ہو تا جتنا ہوا اور میں اتنی باتیں نہ بھولتیں جتنی میں بھولی۔۔ خیر جو باتیں بہت اہم تھیں اور کر نے کو رہ گئی تھیں، اسے قلم بند کرنے کا سوچا ہے کہ بول نہ سکے تو کیا ہے کہ لکھنے سے کون روک سکتا ہے۔ 
اپنے دوردراز انگلینڈ میں بیٹھے ریڈیالوجسٹ دوست ڈاکٹر ساجد کے بارے میں کچھ کہنے کو مس ہو گیا ایک تو یہ کہنا تھا کہ” ایک ڈاکٹر اوپر سے بٹ اور پھر بھی میرے ادبی اور قلمی دوست، پھر اندھیرے میں سارا دن ایکسریز کی رپورٹس پڑھنے کے بعد بھی ایسا روشن چہرہ اور اعلی دماغ میرے لئے ایک سورس آف انسپائریشن ہے۔ان کی دوستی کسی غرض یا مفاد سے نہیں بندھی اگر کوئی غرض ہو گی تو اتنی ہی کہ ایک جیسے دماغ کے لوگ کہیں بھیڑ میں کھو نہ جائیں۔۔۔۔ ”
 میرے دل کی اتھل پتھل میں ایک اور شخصیت پر بات نامکمل رہ گئی اور وہ ہیں رشید مغل صاحب، ان کی کتابوں کی شیلف کا ذکر تو کر دیا مگر یہ کہنا رہ گیا کہ وہ مجھے نہ صرف کتابوں کا تحفہ دیتے رہتے ہیں بلکہ نوٹ بکس کے ڈھیر، بال پن، پنسلیں اور ہر وہ چیز مجھ ناچیز کو دیتے رہتے ہیں جن میں وہ مشورے بھی شامل ہیں، جو میرے لکھنے کے عمل کو نہ صرف جاری رکھ سکیں بلکہ تیز بھی کر دیں۔ایک تھا شاعر افسانہ جس کا ذکر تقریبا ہر ایک نے اپنی تقریر میں کیا، وہ انہی کی شہ پر میں نے لکھا تھا۔ میں جب انہیں کوئی بھی بات یا گپ شپ سناتی ہوں تو کہتے ہیں بس بول نہ، لکھ دے،یہ سب لکھ دے۔۔اور یہ کہ تم کہانیوں کی کان پر بیٹھی ہو بس نکال نکال کر لوگوں کو سناتی رہو۔یہ بہت اہم ذکر تھا جو ہونے سے رہ گیا۔۔ کیونکہ دو ہاتھیوں (انا ہاتھی ہی ہو تی ہے) کی لڑائی میں میرا ننھا منا سا دل مسلا گیا تھااور میں اسے بمشکل سنبھالے ہو ئے تھی کہ جذبات کو چھپانے کا پرانا تجربہ تو ہے کہ آنسوؤں کے درمیان ہنسی ہنسنا کوئی ہم سے سیکھے۔غصے کے ساتھ قہقہ لگانے میں بھی مہارت تھی مگر اب عمر بڑھ رہی ہے تو یہ صلاحیتیں کم ہو رہی ہیں۔۔ ضبط کرتے کرتے یہ حال ہے کہ بس اب مرضی کے خلاف کچھ بھی ہو رہا تو لگتا ہے بہت ظلم ہو رہا ہے۔۔۔اور حلق خشک ہو نے لگتا ہے۔ 
اس ہلکی پھلکی جھنکار کے باوجود کہنے والوں نے کہا کہ کتاب کی ایسی شاندار تقریب ہم نے اس شہر میں کبھی نہیں دیکھی۔ دو ردراز سے آئے دوستوں کی محبت کا ذکر کر بھی دیا مگر عدیل صدیقی اور درخشاں صدیقی اور سیلم خان اور سعدیہ خان کا ذکر رہ گیا۔
نسرین سید میری ہر کتاب کی تقریب میں محبت کے ساتھ نہ صرف بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہیں بلکہ تحفہ بھی لاتی ہیں اور سب سے خوبصورت تحفہ اپنی نظم کی صورت بھی پیش کرتی ہیں۔۔ ایسے پیار کرنے والے لوگ۔۔ہماری پیاری شاعرہ دوست صفیہ مریم جو کچھ عرصہ پہلے ہی طویل بیماری کے بعد ہم سے بچھڑ گئی تھیں انہیں یاد کرنا تھا کہ ان کے شوہر اعجاز رانا بہت دور سے صفیہ کی کمی پو را کر نے تشریف لائے تھے، یہ اور بات ہے کہ انہیں دیکھ کر صفیہ کی یاد اور بھی بری طرح آئی اور میں نے سوچا کاش ایک پل ہی کو سہی وہ آسکتی۔انسان مر جاتے ہیں مگر یہ سب محبتیں زندہ رہتی ہیں تو نفرتوں کو کیوں پالنا اورمسکراہٹیں دلوں میں نرمی پیدا کرتی ہیں تو آنکھوں میں گھوریوں کو کیوں ڈالنا۔
یہ تقریب صرف کتاب کی رونمائی کی تقریب نہیں تھی بلکہ یہ محبتوں، دوستیوں اور اللہ کی رحمتوں کی رونمائی بھی تھی۔ مظہر شفیق کا خصوصی بہت خصوصی شکریہ ادا کرنا تھا کہ وہ ہر دل عزیز شخصیت ہیں اورسارے شہر کی جان ہیں اور ان کی وجہ سے میرے بھی دوستوں میں اضافہ اور دشمنوں میں کمی ہو رہی ہے۔۔ مجھے اس دنیا کے ڈھب سے جینا سکھانے میں ان کا اہم کردار ہے کہ جس کا ثبوت وہی دوستوں سے بھرا ہال اور خلوص بھرے دل تھے۔
ڈاکٹر خالد سہیل نے جس محبت اور خلوص کے ساتھ اس تقریب کا اہتمام کیا وہ بھی قابل ذکر ہے۔ پرویز صلاح الدین اور رفیق سلطان صاحب ان کے دائیں بائیں بازو ہیں۔ہمارے بھی دوست ہیں۔۔ ان کا بھی بہت شکریہ کہنا تھا۔۔۔
فیصل محمود نے درواز ے پر کھڑے کھڑے نہ صرف پو ری تقریب سنی بلکہ آنے جانے والوں پر بھی کڑی نظر رکھی۔۔یہ تو مذاق کی بات ہے مگر رات کو جب میں سونے کے لئے بیڈ پر لیٹ رہی تھی تو تھکاوٹ سے برا حال تھا حالانکہ میں تو ذیادہ تر کرسی پر ہی چڑھی بیٹھی رہی تھی، مجھے ان سب لوگوں کا خیال آیا جنہیں کر سی نہ ملنے کی وجہ سے کھڑا ہونا پڑا اور فیصل کا سب سے زیادہ کہ وہ تو شائد ایک پل بھی نہیں بیٹھے تھے۔ یہ سوچتے ہی میں انہیں دنیا کا عظیم شوہر سمجھنے ہی والی تھی کہ ان کے تیز خراٹوں نے مجھے فوراً اپنا خیال بدلنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ 
ہنستے رہیں۔۔ خوش رہیں یہ نہیں کہ ہر طرف خوشی ہی خوشی ہے بلکہ اس لئے کہ آپ میں غمی میں بھی خوشی دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔

Facebook Comments