نائلہ رند اور سماجی رویہ

ہم بھي عجیب قوم ہیں۔ صرف عجیب نہیں بلکہ عجیب تر ہیں۔ دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی تاک لیتے ہیں، اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔ خود کتنا بھی غلط کریں وہ درست، غیر کتنا صحیح بھی کرے ہم نکتہ چیں۔ یکم جنوری کو ایک خبر موصول ہوئی اور سوشل میڈیا پر تصاویر بھی دیکھنے کو ملیں کہ سندھ یونی ورسٹی جامشورو، سندھی شعبے کی فائنل ایئر کی طالبہ، سٹڈی سرکل کی نائب صدر، پوزیشن ہولڈر، ایوارڈ یافتہ نائلہ رِند بنتِ نظام الدین رِند کی پنکھے سے لٹکتی لاش برآمد ہوئی. یہ واقعہ اپنی جگہ نہایت افسوس ناک تھا، لیکن ہم نے اپنی قدیم روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مرحومہ قندیل بلوچ اور جنید جمشید کی طرح اس کی لاش کو بھنبھوڑنا شروع کیا۔ کسی نے اسے غلط تعلقات کا ذمہ دار ٹھہرایا تو کسی نے اسے دنیا میں برے القابات اور طنزیہ جملوں سے یاد کیا۔ اس کی پھندہ لگی لاش کی تصاویر ہم نے خو ب اپلوڈ کیں۔ دوستوں سے من چاہے کمنٹ اور لاحاصل گفتگو کی، اس کی عزت کا کھلواڑ کیا۔ ہم ذرا سوچیں! نائلہ کی جگہ ہماری اور آپ کی بہن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہمارا کیا رویہ ہوتا؟ ہم اس طرح طنز کرتے؟ اس کو برے القابات سے یاد کرتے؟ یقینًا نہیں؟
پہلی بات یہ ہے والدین اب تک مصر ہیں کہ ہماری بیٹی کبھی بھی خودکشی نہیں کر سکتی۔ وہ ایک سمجھدار اور سنجیدہ لڑکی تھی۔ البتہ پولیس اب تک اس کیس خود کشی ہے قراد دے رہی ہے، اور کمرہ کی صورتِ حال جو دیکھی گئی ہے اس سے قتل کا شبہ قوی ہوتا ہے، رپورٹ آنے سے قبل کچھ کہنا غیر مفید ہے، حقائق کیا ہیں؟ یہ وقت بتائے گا.
ایک لڑکی گھر سے اس لیے آتی ہے کہ وہ یونیورسٹی میں تھیسس جمع کروائے گی، دوستوں سے رابطہ بھی کرتی ہے کہ میں کل تھیسس جمع کروا دوں گی اور کلاس سٹارٹ ہوتے ہی ہم اپنے اسباق پر توجہ دیں گے۔ لیکن اچانک شام کو اس کی لاش ملتی ہے؟ خیر وقت فیصلہ کرے گا، لیکن ایسے واقعات کے ردِعمل میں ہمارا رویہ ہمیشہ غیر اخلاقی اور غیر سنجیدہ رہا، ہمیں اپنے غلط رویہ کو بدلنا ہوگا۔
بدقسمتی سے ایسے واقعات وطنِ عزیز دن بدن پیش آتے رہتے ہیں. ہم بے حسی سے سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، فضول تبصرے کرکے بھول جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کی دائمی روک تھام کے حوالے سے سنجیدہ نہیں سوچتے، ادارے بھی غفلت برتتے ہیں، ایسے مجرموں کے خلاف یا تو کوئی کاروائی نہیں ہوتی، اگر ہو بھی تو مجرم عدالت کے کٹہرے سے ماورا ہوتے ہیں، پولیس گرفتار بھی کر لے تو سیاسی سورس سے مجرم یا تو ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں یا انھیں جیل میں گھر سے زیادہ سہولیات میسر ہوتی ہیں.
طالبہ کا یہ قتل بہت سے خدشات پیدا کرتا ہے۔ جہاں یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی نظر آتی ہے وہاں دیگر ادارے بھی برابر کے مجرم ہیں۔ سندھ یونیورسٹی میں چھٹی کے ہوتے ہوئے طالبات کیوں رہائش پذیر تھیں؟ اگر نائلہ کی ہاسٹل میں رہنا مجبوری تھی، اسے اکیلے کمرے میں کیوں رہنے دیا گیا؟ دیگر طالبات کے ساتھ اکٹھا کمرہ کیوں نہ دیا گیا؟ اس کا کمرہ چونتیس لاش کمرہ نمبر چھتیس سے کیسے ملی؟
یہ سوالات اپنی جگہ مضبوط ہیں۔ جہاں یونیورسٹی انتظامیہ ان سوالوں کی جوابدہ ہے وہاں یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی پر ہاسٹل کے ذمہ داروں سے بھی تفتیش ہونی چاہیے، مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے.
1.ہم حکومتِ سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں طالبہ کے وارثین کو انصاف دلایا جائے.
2.طالبہ کا موبائل لے کر اس کے مکمل ڈیٹا کی تفتیش کی جائے.
3.کمرے کو مکمل سیل کر کے جی آئی ٹی تشکیل کی جائے.
4.والدین کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے.
5.ماہرین ڈاکٹرز سے پوسٹ مارٹم کروایا جائے.
6.یونیورسٹی کی انتظامیہ بالعموم اور ہاسٹل انتظامیہ کو بالخصوص شامل تفتیش کیا جائے.
7.اداروں کی طالبات کے ساتھ ہونے والے جنسی واقعات، ہراسانی اور ظلم و زیادتی کے خلاف قانون سازی کی جائے. ایسے مجرموں کے لیے کڑی سزا مقرر کی جائے.
8.طالبات کو ایسی سہولیات میسر کی جائیں کہ وہ بلاروک ٹوک اپنے کیسزز بتا سکیں.
9.تعلیمی حوالے سے طالبات کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے.
10.والدین کو انصاف دلایا جائے اور ان کی ہر ممکن مالی مدد کی جائے.
اگر یہ کیس بھی فائلوں کی نذر ہوگیا تو یہ صرف نائلہ کا قتل نہیں ہوگا بلکہ یہ پورے ملک کی تعلیم کا قتل ہوگا.

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply