ملکی سیاست کا ایک تجزیہ

2017 میں نواز شریف کی سیاست بدستور مضبوط اور مستحکم نظر آرہی ہے لگتا ہے وسطی پنجاب میں نواز شریف کو چیلنج کرنا اگلے انتخابات میں بھی مشکل ہوگا۔ ایسے میں آصف زرداری اور عمران خاں ایک اکیلے متبادل کے طور پر نہیں ابھر رہے دونوں لیڈروں کے لئے جنوبی پنجاب کی نشتیں اہم ہوں گی جو دونوں لیڈروں کو یہ بات جاننا ہوگی کہ وہ نواز شریف کی طرح عددی اکثریت کی بنیاد پر حکومت نہیں تشکیل دے سکتے بلکہ اس کے لئے انھیں ایک مخلوط حکومت تشکیل کرنا ہوگی۔ اور ابھی سے اپنے ممکنہ اتحادیوں کے بارے سوچنا ہوگا۔ جناب آصف زرداری کے بیانات اور ملاقاتوں سے لگتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں سوچ بچار شروع کر چکے ہیں پنجاب میں ق لیگ، پختون خواہ میں اے این پی اور بلوچستان میں کوئی بھی قوم پرست جماعت ان کے ساتھ اتحاد کے لئے آمادہ ہوگی اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن، محمود اچکرزئی اور ایم کیو ایم کے کسی بھی گروپ سے اتحاد کرنا ممکن ہوگا۔ جنوبی پنجاب میں ان کو یوسف رضا گیلانی کا ساتھ حاصل ہے ایسے میں عمران خاں کے لئے ممکنہ اتحادی تلاش کرنا مشکل ہوگا۔ جنوبی پنجاب میں بھی ان کو بہت سا ہوم ورک کرنا ہوگا۔ مگر لگتا ہے وہ ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا ہی انتظار کر رہے ہیں ۔ عمران خاں کا مسئلہ ہے کہ خیبر پختون خواہ میں بھی ان کو اس قدر مضبوط پوزیشن حاصل نہیں جو نواز شریف کو وسطی پنجاب اور آصف زرداری کو اندرون سندھ میں حاصل ہے یہاں بھی ان کو اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ اپنے موجودہ حلیفوں شیرپائو اور جماعت اسلامی سے بھی مقابلہ درپیش ہوگا۔ جبکہ بلوچستان کے پختون علاقوں میں ان کی پوزیشن مولانا فضل الرحمن اور اچکرزئی سے کمزور نظر آرہی ہے کراچی میں بھی وہ مصطفی کمال اور ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کے علاوہ جماعت اسلامی سے آمنے سامنے ہوں گے جبکہ جنوبی پنجاب میں ان کو پی پی پی اور ن لیگ جبکہ وسطی پنجاب میں ان کو ن لیگ اور ق لیگ کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بلوچ علاقوں اور اندرون سندھ ان کو وجود نہ ہونے کے برابر ہے ایسے میں آنے والے دور میں حکومت کی تشکیل کا خواب دیکھا جا سکتا ہے عملی طور پر ایسا بہت مشکل نظر آتا ہے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply