روحِ کربلا۔سید شاہد عباس

چراغ گل ہیں۔۔۔دل سے راضی ہونے کی یقین دہانی بھی کی گئی ہے۔۔۔ جنت کی بشارت اور شفاعت کا وعدہ بھی ہے،خود کو مصیبت سے نکال لینے پہ اصرا ر بھی ہے ، یہ منظر ہے اُس رات کا جس کی صبح نے سرزمین کرب و بلا میں برپا ایک ایسا معرکہء حق و باطل دیکھا کہ تا قیامت حق اور باطل کے درمیان پہچان واضح کر دی ۔ ایک ایسی رات کہ جس نے رہتی دنیا تک یہ واضح کر دیا کہ حق کا راستہ ہے کٹھن مگر دائمی سکون لیے ہوئے ہے، باطل کا راستہ بظاہر مفادات، مال و دولت سے بھرا ہوا ہے مگر اس کا انجام سوائے جہنم کی آگ کے اور کچھ نہیں ہے۔ اِس رات جناب حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو ایک آزمائش میں ڈالا اور اس آزمائش سے تمام اس طرح سرخرو ہوئے کہ تاریخ میں رقم ہو گیا۔ کون کہتا ہے آزمائش میں بڑھاپا رکاوٹ بن جاتا ہے حبیب رضی اللہ عنہہ  کی راہ میں تو بڑھاپا رکاوٹ نہیں بنا۔ وہب رضی اللہ عنہہ کی راہ میں تو نہ ماں رکاوٹ بن پائی نہ بیوی ۔ اور مسلم رضی اللہ عنہہ ابن عوسجہ کے الفاظ تو تاریخ میں امر  ہو گئے جن کا ذکربعد میں ہو گا۔

دوش نبوت صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے سوار ہیں۔ مگر صبر کی انتہا دیکھیے۔ حج کو عمرے میں تبدیل کیا مگر جبینِ امامت پہ شکن نمودار نہ ہوئی۔جناب حضرت مسلم علیہ السلام و فرزندان کوفہ کی گلیوں میں بے رحمانہ طریقے سے شہید کر دیے گئے مگر جناب حسین علیہ السلام کے صبر و برداشت کے کیا کہنے۔ ہر قدم پہ بتا رہے تھے کہ یہ ایک جنگ نہیں بلکہ معرکہء حق و باطل ہے جس کے ایک طرف انعامات ہیں تو دوسری جناب تسلیم و رضا کا پیکر، ایک جانب دنیاوی مال و دولت بے حساب ہے تو دوسری جانب جنت کی بشارت۔ حج کو عمرے میں تبدیل کرنا ہو یا جناب مسلم علیہ السلام کی اولین شہادت ہو، ارضِ کربلا میں فرات کنارے خیمہ زن ہو کے دشمن کے جانوروں تک کے لیے بھی پانی کی فراہمی ہو یا پھر خیمے اکھاڑنے کا حکم  جناب عباس علیہ السلام کو صادر کرنا ہوکوئی ایک لمحہ ، کوئی ایک ایسی ساعت تاریخ ڈھونڈ نہیں پائی کہ نواسہ رسول صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے صبر و استقامت میں لرزش آئی ہو۔

کربلا ایک جنگ ہوتی تو کسی جگہ تو جنگ کا قصد ہوتا، حبیب رضی اللہ عنہہ سا صحابی کھویا، سعید رضی اللہ عنہہ سا دوست خاک و خون ہوتا دیکھا، قاسم علیہ السلام سا نوجوان ٹکڑوں میں بٹتے دیکھا، اکبر علیہ السلام سا جوان دینِ حق پہ قربان ہوتے دیکھا ، بے جرم و خطا لاشے دشت کربلا میں تڑپتے رہے مگر جگر گوشہ بتول سلام اللہ علہیا کے پایہ ء استقلال میں لرزش نہ آئی۔کیا مثال علی علیہ السلام ، جناب عباس علیہ السلام جیسا علمدار ہوتے ہوئے کسی کی جرات ہو سکتی تھی کہ خیمے اکھڑواتا یا پانی بند کر تا؟ مگر یہ جنگ تھی ہی نہیں۔ اسی لیے جناب امام حسین علیہ السلام نے اجازت دی تو صرف پانی لانے کی ورنہ کسی کی مجال کہاں تھی کہ عباس علیہ السلام جنگ کرتے اور کوئی لشکر یزید میں سلامت رہ پاتا، شجاعت مثل علی علیہ السلام ، بہادری مثل علی علیہ السلام ، مردانگی مثل علی علیہ السلام ۔

بعد از روز عاشور صبر، رضا، استقامت،ہمت، تسلیم ، رضا کا ایک نیا سفر تاریخ نے لکھا۔ تطہیر کی آیتوں کو بے ردا سفرِ شام کرایا گیا۔ مگر قدرت خداوندی کو شاید اپنی تخلیق پہ ناز ہو گا کہ پورے سفر میں خدا کی واحدانیت، جناب محمد صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی رسالت، دین اسلام کی سچائی کے خطبات اہل بیت علہیم السلام اطہار کے لبوں سے جاری رہے۔قربانیء حسین علیہ السلام کو جلا بخشی جاتی رہی ۔ خطبات بی بی زینب سلام اللہ علیہا تاریخ میں حق کے غلبے کو مضبوط کر گئے۔ جگر گوشہ ء حسین علیہ السلام بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا کے دُر اُتریں یا بیمار کربلا جناب سجاد علیہ السلام کی بیڑیوں کو تپتا سورج گرمائے، گرم زمین پہ چلائے جانا ہو خانوادہ ء رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کو یا بیبیوں کو رونے کی اجازت بھی نہ دینے کا حکم ہو، کوئی لمحہ ایسا نہیں کہ جب صبر کی انتہاہوئی ہو یا برداشت کا بند ٹوٹا ہو۔ یہی دکھانا تو مقصود تھا کہ حق کا راستہ آسان نہیں مگر دائمی سکون اسی میں ہے۔ ثانی زہرا سلام اللہ علیہا نے پورے سفر میں کسی بھی جگہ کسی بھی خطبے میں کچھ ایسا ارشاد نہیں فرمایا کہ جس سے محسوس ہو کہ قافلہ حسینی برداشت کا دامن چھوڑ بیٹھا ہے بلکہ انہوں نے پورے راستے یزیدیت کو ایسے بے نقاب کیا کہ تا قیامت نامِ یزید گالی بن کے رہ گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اُسوہ شبیری فقط خالق کی رضا کو اپنی رضا بنانا ہے۔ روح کربلا غمِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں کربلا کا فلسفہ نافذ کرنا بھی ہے۔ بقائے اسلام کے لیے نواسہ رسول صلی اللہ وعلیہ و آلہ وسلم نے گھر بار لٹا دیا مگر آج ہم کیوں باہم دست و گریباں ہیں۔ مدینہ سے لے  کر کربلا، کربلا سے لے کر شام تک، شام سے مدینہ واپسی تک کوئی ایک منزل نہیں ایسی جہاں اہلبیت علہیم السلام اطہار کے لبوں سے شکوہ بلند ہوا ہو تو آج ہم کیوں کربلا کی روح کو بھلا کر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے روادار نہیں، آج ہم نہ جانے کیوں اپنے موقف کو شدت کے ساتھ منوانے پہ تلے رہتے ہیں۔ کیا کربلا کا پیغام صرف گریہ و آہ و بکا ہے؟ کیا کربلا کا پیغام فقط سوگ ہے؟ کیا ذکر حسین علیہ السلام کسی فرقے یا گروہ کی جاگیر ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم کیوں اس کو کسی مخصوص فرقے سے منسوب کررہے ہیں۔ یہ تو انسانیت کی بقاء ہے ، یہ تو دین اسلام کی بقا ہے۔ آخر میں مسلم رضی اللہ عنہہ ابن عوسجہ کا جواب ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے اندھیرے سے دوبارہ روشنی ہونے پہ دیا۔۔۔۔
“ہمارے لیے یہ گوارا نہیں کہ آپ علیہ السلام کو تنہا چھوڑ جائیں۔ میں اپنے نیزے کو دشمنوں کے سینوں میں اُتار دوں گا۔اور اپنی جان آپ کے قدموں میں نچھاور کر دوں گا”

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply