61 ہجری کا محرم۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

60 ہجری جونہی ختم ہوئی، 61 ہجری کا محرم بڑے افسوس اور غم و اندوہ میں غرق ہو کر، بڑی بے تابی سے، حزن سے بھرے ہوئے اور مجبوری کے عالم میں آغاز ہوا، اس لئے کہ نواسہ رسول ؐ سال کی ابتدا میں کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہوچکے تھے۔ نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے۔ زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہی تھی، جبکہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم و باوفا اصحاب راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے۔ آل محمدؐ کا یہ قافلہ نئے سال کے شروع میں ہی ایک تپتے ہوئے ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے۔ یہ  وہی حسین علیہ السلام تھے، جن کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا: (حُسَيْنٌ مِنّى وَ أَنـَا مِنْ الحُسَيْن، أَحَبَّ اللّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً) حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہوئے تو آپ رسول خدا کی پیٹھ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں۔

آج یہی عظیم ہستی، اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کرکے کربلا پہنچ چکا تھا، تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کے ہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنے اصلی خطوط پر استوار کرے، جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایا تھا۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں۔ نواسہ رسول علیہ السلام پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کے روپ میں تھے، حسین ابن علی ؑ کو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے، اس لئے آپ عمرہ کرکے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے۔ جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں و اذیتوں کو برداشت کر کے پالا تھا، آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہا تھا اور مسلمانوں کے قلب و نظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہوچکی تھیں کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا، اسلام کا زندہ رہنا محال نظر آرہا تھا۔

اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا 🙁إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب) میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ میں اپنے نانا محمد مصطفٰیؐ اور بابا علی مرتضٰی ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا  ہے۔ مفسدوں، ظالموں اور جابروں کی تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے۔ راستے کی مشکلات و مصائب جھیلتے ہوئے آل محمد علیہم السلام کا یہ قافلہ بڑی آب و تاب کے ساتھ محرم کی دوسری تاریخ کو کربلا پہنچ گئے۔ آل محمد علیہم السلام کو 61 ہجری کی ابتدا میں ہی مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور یہ مہینہ آل محمد علیہم السلام اور ہر انصاف پسند انسان کے لئے نہ بھولنے والا مہینہ ثابت ہوا اور قیامت تک کے لئے یہ مہینہ اسی غم و اندوہ کے ساتھ شروع ہونے کو ہی اپنا فخر سمجھنے لگا۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضرب یداللہٰی اک سجدہ شبیریؑ

نواسہ رسولؐ نے بدعتوں، گمراہیوں، ظلم و استبداد اور شرک و استحصال کے خلاف قیام کیا۔ اس مہینہ میں نواسہ رسول کو حق پرستی اور عدل پروری کے جرم میں شہید کیا گیا۔ کربلا کے تپتے ہوئے صحرا کو نواسہ رسولؐ اور ان کے 72 ساتھیوں کے خون سے سیراب کیا گیا۔ یوں اسلامی معاشرہ ہمیشہ کے لئے درندہ صفت حکمرانوں، استحصال و استکبار اور ظلم و ناانصافی کے خونچکاں پنجوں میں گرفتار ہوگیا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
دین محمد ؐ کا سورج جو اپنی روشنی کھو چکا تھا، ایک دفعہ پھر بڑی آب و تاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلا میں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔ قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو یہ درس دیتی رہے گی کہ کسی ظالم، فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے۔ “الموت أولى من رکوب العار والعار أولى من دخول النار۔”
اصول دین نہ بچاتے جو کربلا والے
ورق ورق یہ کہانی بکھر گئی ہوتی
بچا لیا اسے سجدہ حسین ؑ نے ورنہ
نماز عصر سے پہلے ہی مرگئی ہوتی

محرم زندہ دل انسانوں کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ واقعہ کربلا صرف حسین بن علی علیہ السلام اور یزید کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے اور حق نے اپنا سر کٹوا کر باطل کو ہمیشہ کیلئے سرنگوں کر دیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اپنے مختصر سے قافلہ کے ساتھ کربلا پہنچے اور وہاں امام عالی مقام نے  کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں انسانوں کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھا دیا۔
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تو نے

آج کا محرم کربلا کی یاد ہے اور یہ محرم ہل من کی آواز ہے۔ محرم سرفروشان حق کا ناقابل شکست ولولہ ہے، محرم ظلمت کی گھٹاوں سے طلوع ہونے والی نوید سحر ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے، جس میں عاشورا برپا ہوئی، یوم عاشورہ جو میزان حق و باطل ہے، جس روز سیدالشہداء علیہ السلام نے اپنے باوفا اہل بیت و اصحاب کے ساتھ بنی امیہ کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقاب نوچ پھینکا اور کربلا کے تپتے ہوئے ریگستان میں یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نداد دست در دست یزید
حقائے کہ بنا لا الہ است حسین ؑ

Advertisements
julia rana solicitors

جب تک بے کس مظلوم انسانوں کی آخری امید حجت خدا امام زمانہ ؑ کا ظہور نہیں ہوگا اور وہ عظیم الٰہی انقلاب برپا نہیں ہوگا جو تمام انسانیت کی فلاح اور نجات کا ضامن ہے، عزاداران حسین ؑ محرم مناتے رہیں گے، راہ حق میں سروں کو قربان کرتے رہیں گے، سینوں پر گولیاں کھاتے رہیں گے، مشکلات و مصائب جھیلتے رہیں گے اور اپنی جانوں کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرتے رہیں گے اور غم حسینؑ میں اس وقت تک آنسو بہاتے رہیں گے، جب تک باطل کو بہا کر نہیں لے جائے گا۔
قتل حسین ؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

آج بھی یزیدی فکر دنیا میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہ حسینیت کا تقاضا ہے کہ حسینی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اچھائیوں کو رائج اور برائیوں کو ختم کرکے معاشرے کو ایک حقیقی اصلاحی معاشرہ بنا دیں، جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کرسکے، جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے۔ آج شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے چیلے داعش، القاعدہ اور طالبان اسلام ناب کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیطان بزرگ کے دستر خوان پر پلنے اور یزیدی افکار رکھنے والے عناصر کو علم ہونا چائیے کہ شیعیان حیدر کرار اہل بیت عصمت و طہارت سے محبت کرتے رہیں گے، ان کا غم مناتے رہیں گے اور قیامت تک یہ سلسلہ بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply