آسمانی تدفین / زید محسن

انسان اپنی زندگی میں یا تو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار دیتا ہے یا پھر اپنی مرضی کے مطابق گزار دیتا ہے لیکن موت کے بعد اس کی لا چاری اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب اس کی روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے، پھر وہ انسانوں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے، اور اگر اس کو دوسری نظر سے دیکھا جائے تو اس وقت انسانوں سے زیادہ وہ مذہب کے ہاتھوں میں ہوتا ہے کہ جو اس کا مذہب حکم دے اس کے ساتھ ویسا ہی ہوتا ہے۔یہاں تک کہ اگر اس نے اپنے مذہب کے بر عکس بھی کچھ وصیت کر رکھی ہو  تو عموماً وہ بھی نا قابلِ قبول ہوتی ہے ۔

خیر، آج چند ایک مذاہب میں مُردوں کو الوداع کرنے کی اہم رسومات کو دیکھتے ہیں کہ لوگ کس کس طرح اپنے مردوں کو  دنیا  سے رخصت کرتے ہیں ۔

اسلام: دینِ اسلام میں مردوں کو زمین میں قبر کھود کر زمین ہی پر لٹا دیا جاتا ہے، اور قبر کو بند کر کے نرم مٹی ڈال دی جاتی ہے۔

یہودیت ونصرانیت: یہ دونوں مذاہب بھی اس معاملے میں تقریبا ً اسلام کی مانند ہی عمل رواں رکھتے ہے، الا یہ کہ ان کے ہاں زمین پر لٹانے کے بجائے تابوت میں رکھنے کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے، ساتھ ہی نصاری کے ہاں بینڈ باجوں کے ساتھ مردے کو قبر تک لے کر جانا بھی رواج پا چکا ہے۔

ہندو، سکھ: ان دونوں مذاہب میں مردے کو جلانے کا رواج ہے، اس کیلئے مردے کو شمشان گھاٹ میں اتار دیا جاتا ہے جہاں اس کو مکمل طور پر جلا دیا جاتا ہے، البتہ ہندو مت میں کسی زمانے میں انسان کے ساتھ ہی اس کے مال ومتاع کو جلانے کا بھی رواج رہا جو اب رواں نہیں، اور عورت کو ستی کرنا بھی تقریبا ًچھوڑا جا چکا ہے ورنہ مرد کی زندگی کے ساتھ ہی عورت کی زندگی بھی جاتی رہتی تھی۔

پارسی/زرتشت: زرتشت اپنے مردوں کو نہ جلاتے ہیں نہ دفناتے ہیں، بلکہ یہ اپنے مردے کو آبادی سے دور ایک کھلے میدان میں لے جاتے ہیں، جہاں پر پہلے سے ایک مینار موجود ہوتا ہے، جسے ٹاور آف سائلنس (خاموشی کا مینار) کہا جاتا ہے، اس ٹاور کے تلے یہ اپنے مردے کو چھوڑ آتے ہیں اور پھر وہاں پر مردار خور جانور آ کر اس کو کھا جاتے ہیں، جیسے: گِدھ وغیرہ۔۔۔۔۔لیکن اب مردار خور جانوروں کی کم یانی یا پھر شہر سے دوری کی وجہ سے اس کیلئے ان کو با قاعدہ کچھ جانور جیسے کتے وغیرہ پالنے پڑتے ہیں جو مردہ کھا کر ختم کر دیں۔ (ان کا شہرِ خاموشاں کراچی میں بھی پایا جاتا ہے)

بدھ مت: عموماً بدھ مذہب کو ماننے والے بھی ہندوؤں کی طرح ہی شمشان گھاٹ میں مردہ جلانے کے قائل ہیں، البتہ ادھر ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ یہاں پر مردے کی راکھ اور دیگر باقیات لے جانے کی سہولت موجود ہے، اور کسی بڑی مذہبی شخصیت کی باقیات کو لے کر سنگھاسن میں رکھ لیتے ہیں جسے روحانی جگہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

آسمانی تدفین: بدھ مت میں چند ایک فرقوں میں ایک خاص طریقہ رائج ہے جو خاص کر چائنہ کے تبت میں پایا جاتا ہے اور وہ تقریبا ًپارسیوں کی طرح ہی ہے لیکن تھوڑی اور زیادہ بے رحمی والا ہے کہ اس مذہب کے لوگ اپنے مردوں کی آسمانی تدفین کرتے ہیں، جسے Sky burial کہا جاتا ہے، لیکن اس کا طریقہ کار بڑا ہی ہیبت ناک ہے۔
اس میں تدفین کا طریقہ یہ ہے کہ: لوگ اپنے مردوں کو سب سے پہلے پنڈتوں کے پاس لاتے ہیں اور لانے کا طریقہ بھی کوئی مہذب نہیں، بس گویا کہ ایک بوری اٹھا کر کندھے پر لاد کر لائی جا رہی ہو یعنی چار کندھوں پر اٹھانے کی بھی زحمت نہیں، خیر پنڈت جب اپنی تمام رسومات (پڑھائی وغیرہ) کر لیتے ہیں تو مردے کو آبادی سے کافی دور لے جاتے ہیں جہاں پر ایک اور راہب جسے روگیہ کہتے ہیں وہ موجود ہوتا ہے، میت اس کے حوالے کر دی جاتی ہے اور پھر وہ اس مردار کی کاٹ پیٹ شروع کرتا ہے، اچھے سے مثلہ کر کے، پیس وغیرہ بنا کر پھر وہاں پر موجود گِدھوں کے آگے پیش کر دیا جاتا ہے، جو با آسانی اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کھا لیتے۔
اب جو ہڈیاں وغیرہ باقی رہ جاتی ہیں ان کا سفوف یعنی  پاؤڈر بنا لیا جاتا ہے جو دیگر جانوروں کے گوشت کے سامنے اُنہیں گِدھوں کو کھلایا جاتا ہے جن کو خاص اس آسمانی تدفین کیلئے پال کر رکھا گیا ہے۔۔۔۔
اور کچھ مقامی رسومات کے مطابق جب گِدھ سب کچھ کھا چکے ہوں اور ہڈیاں بچ جائیں تو پھر پنڈت مُردے کی کھوپڑی اٹھا کر دیکھتا ہے:
اگر تو گِدھوں کے حملے کی وجہ سے کھوپڑی میں سوراخ پڑ گیا ہو، یا دراڑیں آ گئی ہوں تو اس صورت میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے مُردے کی روح جنت پہنچ گئی ہے۔۔۔۔
اور اس کے پیچھے ان کا ایک عجیب عقیدہ یہ کارفرما ہے کہ اگر اس طرح سے تدفین نہ کی گئی تو وہ مردہ دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔۔۔۔یا للعجب!

julia rana solicitors london

اب تو کہہ دیں کہ:
الحمد للہ الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللہ!

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply