• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • تعظیم ہے تیری بڑائی کی، تیرا ہر فرمان معتبر۔۔خالد حسین مرزا

تعظیم ہے تیری بڑائی کی، تیرا ہر فرمان معتبر۔۔خالد حسین مرزا

کچھ لوگ جج کے سامنے کھڑے  اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دے رہے تھے۔ ایک شخص پر الزام یہ تھا کہ اُس نے لکھا ہے، “خواتین مرد حضرات کے برابر نہیں ہیں۔” اُس شخص نے جواب دیا “جی جناب! میں نے ایسا لکھا ہے، مگر اِس بات کی رائے قائم نہیں کی کہ خواتین کا مقام مردوں سے بالاتر ہے یا کم تر.”

اِتنے میں اُسے حُکم ہوا کہ اپنے ہاتھوں کی پانچوں اُنگلیاں کھول کے کھڑا ہو اور ہاتھ سیدھا جج کی جانب کر لے، ایسے میں یہ طے پایا کہ اِس کے ہاتھ پر تیزاب پھینک دیا جائے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اُس شخص نے اپنی تکلیف کو سہتے ہوئے صرف آنکھیں بند کیں اور اِس کے علاوہ  ذرا سی  “سی، آہ” کیا اور کوئی شکایت زباں پر نہیں لایا۔ 

اسی لائن میں جج صاحب کے سامنے ہاتھ باندھے اُستاد صاحب کھڑے تھے۔  اُستاد صاحب پر الزام تھا کہ وہ سکول کے اوقات کے علاوہ بچوں کو اپنے گھر بُلا کر ٹیوشن بھی پڑھاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ایک اور اِلزام یہ بھی تھا کہ وہ جب کسی امیر کے بچے کو اُس کے گھر پڑھانے جاتے ہیں تو اپنے مزاج میں شاندار قسم کی نرمی لے آتے ہیں۔ آج تک کسی رئیس کے بچے کو ہاتھ نہیں لگایا، ہاتھ لگانا تو دُور کی بات ہے، کسی کھاتے پیتے گھرانے کے بچے کو ڈانٹا تک نہیں۔ اور اپنا غصہ پینے کی مثال ایسے قائم کرتے ہیں کہ اگر گھنٹہ بھی دروازہ کُھلنے کا اِنتظار کرنا پڑے تو گھر والوں سے کوئی شکائیت نہیں کرتے بلکہ ڈر کے مارے بات کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اِس بات کا غصہ جو اپنے اندر دبا لیتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں اپنے سے کمزور پر نکال ہی لیتے ہیں۔ 

اِن تمام الزامات کی وجہ سے اُن پر اُستاد جیسے عظیم شعبے کو بدنام کرنے کا اِلزام بھی عائد کیا گیا۔ 

اُستاد صاحب نے جواب دیا ” جج صاحب حکومت کی طرف سے طے شدہ تنخواہ میں  چار بچوں اور بیوی سمیت  گُزارا کرنا مُشکل ہے۔ پچھلے ہفتے میری بیٹی شکیلہ بلیو بینڈ ماجرین کی فرمائش کر رہی تھی، مگر میں یہ کہہ کر ٹال رہا تھا کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے میرے ذہن سے نکل گیا۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے پاس تو اِتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ میں اپنی ٹوٹی ہوئی سینڈل کا بکل ٹھیک کرواتا”. 

استاد صاحب کو بہت زیادہ خود غرض سمجھا گیا، مجبوریوں سے ہارنے کے جُرم میں اور حالات کے مُطابق اپنے آپکو نہ ڈھالنے کے گناہ میں اُن کو پانچ روز کے لیے معطل کر دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ پابندی بھی عائد کر دی گئی کہ وہ اب ٹیوشن نہیں پڑھا سکتے۔ استاد صاحب بہت ہی افسردہ اور پریشان حال چہرے کے ساتھ،  بھاری  قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئے۔

اِس کے علاوہ ایک اور شخص تھا، جس پر الزام عائد تھا کہ اُس نے اُس شخص کی چاپلوسی کی ہے، جس کے پاس زیادہ پیسہ ہے۔ نہ کہ اُس شخص کی جو حقیقت میں عزت کے قابل تھا، مطلب کے علم و عمل کا پابند شخص۔

جب اُس شخص سے سوال ہوا تو اس نے نہائیت اطمینان سے جواب دیا ” یہ وقت کی ضرورت ہے جج صاحب! اگر میں ایسا نہ کروں تو میری زندگی کی بہت سی ضروریات اور خواب ادھورے رہ جائیں ۔ جب کہ میں سمجھتا ہوں کے اُن کو حاصل کرنا میری زندگی کا مقصد ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو میری زندگی چل ہی نہ سکے۔ اور اِس لیئے لوگوں کو دھوکہ دینا میری ضرورت بن چُکا ہے۔” 

اُس شخص کو کافی ڈانٹ پڑی مگر جج صاحب بہت حد تک اُس کی لچک دار طبیعت سے مُتاثر ہوئے۔

جج صاحب کی ڈانٹ سے وہ تھوڑا بہت شرمندہ تو ہوا اور ساتھ اُس کے چہرے پر غصے کے آثار صاف ظاہر تھے۔ 

اُس کو کُچھ دیر کے لیئے ندامت بھی ہوئی، مگر جب ندامت شہرت میں بدلنے لگی تو وہ جیل جانے کو معتبر سمجھنے لگا، اور اپنے اقارب میں اپنے واقعات ٹھاٹھ سے سُناتا۔ 

یہ رُجحان تو اُس کے گِرد عام پھیل گیا تھا کے یہ پیسے والا شخص ہے، اس وجہ سے شوقیہ جُرمانا بھرتا ہے۔ وہ ہرجانہ امیروں کے لیئے بے عزتی کا سبب تھوڑی نہ ہوتا ہے، بلکہ یہ غریبوں کے لیئے ایک شرمندگی کی نشانی ہے۔ اور جیب پر بھی بوجھ غریبوں کے ہی پڑتا ہے۔ 

چوتھا شخص پورے معاشرے میں بہت ہی معتبر سمجھا جاتا تھا، اسی وجہ سے اُسے باقی مُلزمان سے زیادہ عزت دی جا رہی تھی۔ اِسی وجہ سے وہ کافی حد تک اکڑ بھی رہا تھا۔ اگر تھوڑی بہت اُس کے مزاج میں نرمی تھی، تو وہ عدالت کا احترام تھا۔ 

اُس پر ایمان خریدنے کا اِلزام تھا اور اُس کے خلاف بہت ہی پختہ ثبوت بھی تھے۔ مگر عدالت اُس کا کُچھ نہیں بگاڑ سکی اور نہ بگاڑ سکتی تھی۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ لوگوں کی بھلائی کی بھلائی کے لیئے ایسا کرتا ہے۔ وہ سب کا بھلا اِس طرح کرتا ہے کہ اِن کے ایمان کی قیمت پہلے ہی بہت کم ہے اگر وہ اِن سے خریدتا ہے تو اِن پر احسان کرتا ہے۔ کیونکہ اِس کا مول کؤئی اور لگاتا ہی نہیں ہے اور اسے بیچ کر اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال لیتے ہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

اِس دلیل کی بُنیاد پر اُس کو باعزت بری کر دیا گیا، اور یہ بات بھی عام کر دی گئی وہ بہت ہی سخی شخص ہے۔ 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply