گھروندا ریت کا(قسط7)۔۔۔سلمیٰ اعوان

”مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر میں پیدا نہ ہوتی تو خدا کی اِ س وسیع کائنات میں کیا کمی رہ جاتی؟“
یہ دُھند اورکُہر میں ڈوبی ہوئی ایک صُبح تھی اور وہ  سکول جا رہی تھی۔ اُ س کے پاؤں میں تین چار روپے کی ایک سستی سی چپل تھی۔ جسم پر سستی سی کاٹن کاسفید سوٹ، اُس پر گھٹیا سی اُون کی عنابی جرسی اور سر پر موٹی ململ کا ڈوپٹہ تھا۔ سردی کی شدت سے اُ س کے ناک کی پُھنگی بے حدسُرخ ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں نمی تیرتی پھرتی تھی۔ تھوڑ ی تھوڑی دیر بعد وہ کپڑے کے ایک چھوٹے ٹُکڑے سے جسے اُ س نے رُومال کے طور پر ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اپنی ناک اور آنکھیں صاف کرتی۔
یہ گلی بڑی ویران سی تھی۔ وہ ہمیشہ اِسی گلی سے گزر کر  سکول جاتی۔ یہ شارٹ کٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اُ س کی خودکلامی کے لئے بھی موزوں جگہ تھی۔ بہن بھائیوں، ماں باپ، رشتہ داروں اور خُدا سے شکوؤں کی بھڑاس چلتے چلتے بڑ بڑاہٹوں کی صورت میں یہیں نکلتی۔
”اے اللہ آج تو غضب کی سردی ہے۔“
بس  سٹاپ پر شہر کو جانے والے لڑکے لڑکیوں کا مجمع حسبِ معمول کھڑا نظر آیا اور کوٹوں کا رڈیگنوں گرم چادروں اور اُونی شالوں میں لپٹے ہوئے وجود اپنے آپ پر اتنا کچھ چڑھانے کے باوجود دانت کٹکٹا رہے ہوتے۔ اُن کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ خود سے کہے بغیر نہ رہ سکتی۔
”اِ س قدر مدافعتی سامان کے باوجود اگر اِ ن کا یہ حال ہے تو پھر مجھے تو مر جانا چاہیے۔“

خوبصورت رنگوں والے کارڈیگن،کوٹ،خوشنما شالیں،قیمتی کپڑے اور نرم گرم جُوتے پہننے کی تشنہ آرزوئیں اُس کے اندر ایک تواتر کے ساتھ اُترنے لگتیں۔ اُن کی اُترائی کا سلسلہ کبھی کبھا ر اتنی سُرعت سے ہوتا کہ اُس کا اندر جلنے لگتا۔ ذہن میں اُبلتے پانی کی طرح کھولاؤ کی سی کیفیت پیداہو جاتی۔ کچھ دیر تک جلنے، کھولنے اور تلملانے کے بعد وہ اپنی اُس خیالی دُنیا میں پہنچ جاتی جو اُس نے اپنے اردگرد بنا رکھی تھی۔ جس میں داخل ہو کر وہ وقتی طور پر اُن تلخیوں کو بُھو ل جاتی جو ہمہ وقت اُ س کے دل ودماغ پر گھٹاؤں کی طرح چھائی رہتیں۔

وہ جس ہائی سکول میں پڑھتی تھی کہنے کو وہ ایک فلاحی ادارے کے زیراہتمام تھا پر اُونچا سٹینڈرڈ رکھتا تھا۔ ٹیچرز اعلیٰ تعلیم یافتہ، فیشن ایبل اور خاصی خُوش شکل تھیں۔ خوابوں کے جزیروں میں تیرتی کشتیوں میں اب وہ الٹر موڈ اُستانیاں سوار ہو جاتیں۔ فسٹ ائیر انجینئر نگ فورتھ ائیر اور میڈیکل میں پڑھنے والے اُس کے سُوکھے سڑیل سے بھائی دیکھتے ہی دیکھتے گبھروجوان بن جاتے۔ خوبصورت اور صحت مند نوجوان کوئی ڈاکٹر ہوتاتو کوئی انجینئر۔ اُن کی مردانہ وجاہت ٹپک ٹپک پڑتی۔ اُ ن کی قابلیت کی چاروں کھونٹ دُھوم مچی ہوئی ہوتی۔

کہانی اب کچھ اِس انداز میں آگے بڑھتی کہ وہ اِن وجیہہ جوانوں کی بے حد لاڈلی اور چہیتی بہن ہوتی ہے۔ اکلوتی اور دُلاری بہن۔اپنی دوسری بہن کے وجود کو وہ ایک پل کے لئے بھی اپنی اِس جنت میں برداشت نہ کرسکتی۔ تصورات کا اُفق پھیلتا چلا جاتا۔یوں کہ اُ سکی پسندیدہ ٹیچرز اُس کے بھائیوں سے پیار کرتیں۔
اور کلائمیکس کچھ یوں ہوتا کہ اُنہیں جب پتہ چلتا کہ اُن کی کلاس میں پڑھنے والی لڑکی اُن کے محبوب کی چہیتی بہن ہے تو وہ آناً فاناً اُن کی آنکھ کا تارا بن جاتی۔ کلاس کی لڑکیاں مارے حسد اور جلَن کے انگاروں پر لوٹ لوٹ جاتیں اور وہ اِن سب لڑکیوں سے گِن گِن کر بدلے لیتی جو اُسے اچھا نہیں سمجھتی تھیں۔ امتحان میں آنے والے سوالات اور پرچوں کی مارکِنگ کابھی اُسے علم ہوتا۔ لڑکیاں سوال جاننے کے لئے اُس کی منتیں کرتیں۔ اُس کے آگے پیچھے چکر کاٹتیں اور وہ اِتراتی پھرتی۔
پریہ اِتراہٹ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی جب وہ گیٹ میں داخل ہوتی۔ کلا س رُوم میں سب سے پچھلی سیِٹ پر بستہ رکھ کر ریاضی کا ہوم ورک کرنے کے لئے کسی لڑکی کی کاپی مانگنے کے لئے اُس کی منّت سماجت کرتی۔ جلدی جلدی اُلٹا سیدھا اُتارتی کہ مار سے بچ سکے۔ تاریخ جغرافیہ کی گھنٹی میں اپنا چہرہ مِس کی نظر سے بچاتی پھرتی اور جب اسکول آف ہو جاتا تو سُکھ کا لمبا سانس یُوں بھرتی جیسے قیدبا مشقت سے خلاصی ہوئی ہو۔ کتابیں بازوؤں میں بھر کر شکستہ حال چلتی گھر آ جاتی۔

اُس دن ہفتہ تھا۔اُ س کے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا تھا اور وہ بُہت گند ہ ہو رہا تھا۔ بڑی خجالت محسوس ہوئی۔ سارا دن اُسکول میں بھی چھُپتی پھری۔ تفریح میں بھی باہر نہ نکلی۔ اپنے ڈیسک پر ہی بیٹھی رہی۔ گھر آتے ہی وہ پھٹ پڑی۔ اماّں خرچ پر کہیں پہلے ہی جلی بھُنی بیٹھی تھی۔غُصے میں بولیں۔
”کہاں سے پُورے کروں تمہارے اخراجات؟ فیسیں دوں، کتابیں مہیا کروں، کپڑے بنا کر دُوں، کھانے کا سامان لاؤں۔ڈیڑھ سو روپلی میں کیا ننگی نہائے اور کیا نچوڑے۔باوا کو لکھو مجھ سے کیا کہتی ہو۔“
غصّے سے اُس نے پاؤں فرش پر یوں مارے جیسے اُسے توڑ دینا چاہتی ہو۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر گالوں کے راستے سینے پر جذب ہور ہے تھے۔
وہ بالک ہٹ پر اُتری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ مچل مچل کر کہہ رہی تھی۔
”مجھے نہیں معلوم جہاں سے مرضی پیسے لاؤ۔ مجھے ایک جوڑا کپڑوں کا اور ایک جُوتی چاہیے۔ میں یہ کپڑے پہن کر اب  سکول نہیں جاؤں گی۔ ذرا دیکھو تو جُوتے کا سارا تلہ گھِس گیا ہے۔ ٹانکے ٹوٹ گئے ہیں۔ مجھے شرم آتی ہے۔“
اور اماّں کسی جنگلی بھینسے کی طرح دھاڑیں۔
”یوں کرو مجھے بیچ آؤ کسی دوکان پر۔“
اُ س وقت اماں کی قہرآلود نگاہیں کسی برچھی کی مانند اُس کے آر پار ہوئی جاتی تھیں۔
اُ س کا نمبر دو بھائی جو اِسی سال انجینئرنگ کالج میں داخل ہوا تھا۔ ہنستے ہوئے بولا۔
”اماں تمہارا تو کسی نے ایک روپیہ بھی نہیں دینا۔“
اور اماں نے کوسنوں اور صلواتوں کا جو لمبا چوڑا سلسلہ شُروع کیا اُس نے اُسے اور بھی سیخ پاکر دیا۔ جی چاہ رہا تھا اماں کے چیختے چنگھاڑتے گلے میں کوئی چیز ٹھونس دے۔
پر وہ جو کہتے ہیں قہر درویش بر جان درویش والا معاملہ تھا۔ اپنے ہی آنسوؤں کو پیتی ماں کو قہر آلود نگاہوں سے گھُورتی وہ بُھوکی ہی چھت پر چلی گئی۔

اور پھر یوں ہوا کہ وہ پاگل سی لڑکی جو ہمہ وقت اپنی غُربت پر کڑھنے، دوسروں سے جلنے اور خیالی دُنیا میں گم رہنے پر سارا وقت صَرف کرتی تھی وہ جو اپنے سب بہن بھائیوں کے مقابلے میں پڑھائی میں بہت نکمّی اور نالائق خیال کی جاتی تھی۔ اُس نے یوں کایا پلٹی کہ سبھوں کو حیران کر گئی۔ کیا گھر اور کیا  سکول ہر ایک انگشتِ بدندان تھا۔
ہوا یوں تھا کہ اُس کی بڑی بہن ایف۔ ایس۔سی کے امتحان میں صوبے بھر میں اوّل آئی تھی۔ اُس کے حاصل کردہ نمبروں نے گزشتہ تیس سالوں کا ریکارڈ توڑا تھا۔ اخبارات میں نہ صرف اُس کی تصاویر چھپیں بلکہ اخباری نمائندوں نے اُس کے خیالات مثلاً وہ مستقبل میں ڈاکٹر بنے گی۔ اُس کا ارادہ ہارٹ سرجری میں سپیشلائزیشن کرنے کے لئے امریکہ جانے کا ہے۔نیز وہ میڈیکل کو دولت بنانے کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتی بلکہ اُس کے عزائم اِس پیشے کے وسیلے سے دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم لگانے کے ہیں۔ وغیرہ کو خوب بڑھا چڑھا کر لکھا گیا۔ اُس نے یہ سب پڑھا۔ اپنی خوبصورت کومل سی ناک کو نخوت سے سیکٹر ا اور نفرت بھرا ہنکارہ بھرتے ہوئے خود سے بولی۔
”پکوڑا جیسی ناک اور چُندھی آنکھوں والی یہ امریکہ جائے گی۔ کیا کہنے ہیں اِس کے۔“

وہ گھر کی فضا کو یکسر بدلاہوا دیکھ رہی تھی۔ اُس کی خالائیں حتیٰ کے اپنی ذات سے حد درجہ پیار کرنے والی خودغرض سی اُس کی نانی بھی رنگین پایوں والے سُوت کے بنے ہوئے پلنگ پر تکیے سے ٹیک لگائے اِس فخر وانبساط سے چہرہ پُھلائے اپنے ہمسایوں، عزیز رشتہ داروں اور مِلنے جُلنے والوں سے مبارکبادیں وصول کر رہی ہیں۔ خوش ہور ہی ہیں اور اُس کی بہن کو دادو تحسین کی نظروں سے دیکھ رہی ہیں اور بار بار کہتی ہیں۔
”بھئی آفرین ہے اِس لڑکی پر۔ہمارا تو نام روشن کر دیا ہے اِس نے۔“
اُس کی ماں بھی اپنی ناراضگی اور گلِے شکوے بُھول کر صحن میں رنگین پیڑھی پر بیٹھی ااپنے دیور، دیورانیوں، نندوں اور ماں بہنوں سے باتیں کرتے ہوئے خوشی سے کھِلی پڑتی تھیں۔
”اللہ حیاتی دے میرے بچوں کو۔اُس کی رحمت اور عنایت سے سارے ہی ہونہار ہیں۔ بس اِس طرف سے دل کوبے چینی لگی رہتی ہے۔کہیں یہ بھی انسان بن جائے تو اس پروردگار کا سو سو بار شکر ادا کروں۔“

ماں نے کِسی قدر تاسف اور دُکھ سے اُسے دیکھاتھا۔ ماں کی دید کا یہ انداز اُسے گھائل کر گیا۔ جی چاہا کہ اُسے کھری کھری سُنادے۔ کہے کہ مجھے کیا ہوا ہے؟ میری طرف سے کیسا اضطراب ہے؟
لیکن وہ یہ سب کہہ نہ سکی۔بس چُپ چاپ ماں کو غُصے اور نفرت سے گھُورتی رہی۔

تب اِس نکمّی اور نالائق لڑکی نے ایک بُہت بڑا اہم فیصلہ اپنے آپ سے کیا۔ سر جھٹکا، خیالی سپنوں اور خوابوں کی جنت کو ا ٹھا کر کہیں دُور پھینکااور اپنے آپ کو کتابوں کی دُنیا میں گُم کر دیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری  ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply