سفر تلاش حق (سلمان فارسی) ۔۔۔ منصور ندیم

میرا نام مابہ بن یوذخشان بن مورسلان بن یہوذان بن فیروز ابن سہرک اور خاندانی نسبت آب الملک کے خاندان سے  ہے، میری جائے پیدائش اصفہان کے ایک قصبے جایان کے گاوں روزبہ میں ہوئی، میں اپنے والدین کا اکلوتا ہونے کی وجہ سے ان کی آنکھوں کا تارا تھا۔ میرے ماں باپ میرا ایسا خیال رکھتے تھے جیسے لڑکیوں کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہوں۔ میرے ماں باپ اپنے آباء اجداد کے دین پر تھے، ہمارے اجداد کا آتش پرستی سے تعلق تھا،  میرے والد اپنے قصبے کے سب سے معتبر عالم اور آتش کدہ کے مرکزی ذمہ دار بھی تھے، والد کا معاش کی نسبت سے زمینداری اور کاشتکاری سے تعلق تھا اور وہ اس قصبے کے بڑے زمیندار بھی تھے۔  چونکہ والد آتش کدہ کے مرکزی ذمہ دار تھے تو میری تعلیم و تربیت اسی بنیاد پر ہورہی تھی کہ میں اپنے سولہویں سال تک پہنچنے پر اس آتش کدہ کا مرکزی عالم بنتا۔

مجھے کبھی بھی گھر سے اکیلا باہر نہ بھیجا جاتا تھا، والد خود یا کسی نہ کسی کی نگرانی میں ہی مجھے باہر بھیجتے تھے، ایک دن والد نے مصروفیت کی وجہ سے کھیتوں کی نگہبانی کے لئے مجھے بھیجا اور کہا کہ آج سے تم یہ ذمہ داری بھی سنبھالو، میں گھر سے نکلا کھیتوں اور گھر کے بیچ میں ایک کلیسا تھا، میں اکثر اسے دیکھا کرتا تھا، مگر آج جب اس کے پاس سے گزرا تو مجھے وہاں سے عبادت کی آواز آرہی تھی، اس آواز میں نجانے ایسا کیا جادو تھا کہ اس نے میرے چلتے قدموں کو جکڑلیا ، اور اس آواز نے مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا، میں بیخودی سے مغلوب ہوکر کلیسا میں داخل ہوگیا، وہاں کچھ لوگ جو حضرت عیسی کے پیروکار تھے،  عبادت کررہے تھے، مجھے اس عبادت کو سننے سے سکون ملنے لگا، میں نے وہاں جانا اپنا معمول بنالیا، وہیں میرا ان سے تعارف ہوا اور میں نے ان کے دین اور عبادت کو جاننا شروع کیا، مگر میری تشنگی کو تشفی نہیں ہورہی تھی،  وہاں مجھے معلوم ہوا کہ عیسائیت کا مرکز بلاد الشام ہے،  جہاں مرکزی کلیسا اور اس مذہب کے بڑے بڑے راہب ہیں، اور لوگ مذہب کو سیکھنے کے لئے وہاں جاتے ہیں۔ ان باتوں نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اس بارے میں اپنے والد سے بات کروں۔

میں نے ان سب باتوں کا ذکر اپنے والد سے کیا تو انہوں نے جوابا کہا کہ ہمارا مذہب ہی حق پر ہے اور تم کو کسی بھی قسم کی تشکیک کو ہر حالت میں ترک کرنا ہوگا، ورنہ تم گمراہ ہوجاو گے، تم اپنے ذہن و دل سے یہ فاسد خیالات نکال دو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمارے آباء و اجداد کسی غلط راستے پر تھے ۔ وہ ہمیشہ سے حق پر تھے اور ہم آج بھی حق کے راستے پر ہیں۔

میں نے بھی جوابا کہا کہ میرا دل کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات ہی حق پر ہیں، مجھے وہ مذہب اپنے دل میں اترتا محسوس ہورہا ہے، میری کیفیات بدل رہی ہیں، میں کسی کے کہنے سے ان کیفیات کا مقابلہ نہیں کرسکتا، میری حالت دیکھ کر میرے والدین پریشان ہوگئے ، انہیں اور تو کچھ نہ سوجھا، انہوں نے میرے باہر جانے پر پابندی لگا کر مجھے میرے کمرے میں قید کردیا۔

اب میں تھا اور میرے کمرے کی تنہائی، میں کمرے میں پڑے پڑے سوچتا رہتا اور کبھی کبھی اس کمرے میں موجود کھڑکی سے باہر دیکھتا، دیکھتا رہتا کہ شائد یہاں سے کوئی ایسا شخص گزرے جو مجھے کلیسا کی خبر دے، آخر ایک دن میری مراد بھر آئی، مجھے ایک ایسا شخص نظر آیا جس سے میں کلیسا میں مل چکا تھا، اس نے مجھے بتایا کہ آنے والے چند دنوں میں یہاں سے ایک قافلہ بلاد الشام مرکزی کلیسا کی طرف روانہ ہونے والا ہے۔ میں بے چین ہوگیا، اس بے چینی و اضطراب نے مجھے بالآخر گھر سے بھاگنے پر مجبور کردیا،  اور میں اس قافلے کے ساتھ بلاد الشام میں مرکزی کلیسا جانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔

جب میں قافلے کے ساتھ سفر کرکے بلاد الشام کے اس مرکزی کلیسا پہنچا تو وہاں پر پہنچ کر میں نے کسی سے پوچھا کہ مجھے یہاں کے سب سے بڑے راہب سے ملنا ہے، اس شخص نے مجھے ایک بوڑھے راہب کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ شخص یہاں کا سب سے بڑا راہب ہے۔ میں اس کے پاس پہنچ گیا اور میں نے اسے مخاطب کرکے کہا کہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کو جاننا چاہتا ہوں۔ تعلیمات سیکھنے کے معاوضے کے عوض ، میں آپ کی خدمت کرسکتا ہوں، میں اس کی خدمت میں لگ گیا، میں جتنا جتنا عیسائیت کی تعلیمات سے متاثر ہوتا جارہا تھا، اتنا ہی مجھے اس راہب کے کردار سے نفرت ہوتی جارہی تھی،  کیونکہ میں نے اس راہب کو بہت بد کردار پایا، وہ مذہب کے نام پر دی جانے والی چیئرٹی کو اپنی منشاء و من مرضی سے تقسیم کرتا تھا، اس مال کے ایک بڑے حصے کو اپنی ذاتی زندگی پر اور غرباء و مساکین کو بہت ہی محدود حصہ دیتا تھا۔

ماہ و سال کے سفر میں ایک دن وہی بوڑھا راہب بعد از بیماری مرگیا، جس دن وہ مرا ، میں نے مرکزی کلیسا میں کھڑے ہوکر لوگوں کو بتا دیا کہ وہ چیئرٹی میں دئیے جانے والے مال و اسباب کا کیا کرتا تھا، کئی دوسرے راہب میری اس حرکت سے بہت نالاں ہوئے، مگر میں سب لوگوں کی موجودگی میں اس کے گھر میں چھپائے گئے اس خزانے تک لے گیا، میرا یہ دکھانا تھا کہ وہاں موجود لوگوں میں غم و غصے کی لہر جاگ گئی، انہوں نے اسی وقت راہب کی میت کو برہنہ کردیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے شہر کی مرکزی دروازے پر لے گئے ، اور اس کو وہاں لٹکا کر اسے جوتے اور پتھر مارنے لگے۔

اس کے بعد جو دوسرا شخص راہب اعلی کے عہدے کے لئے منتخب ہوا، وہ خاصا با کردار ، با اخلاق اور نیک نیت شخص تھا، میں نے اس کی بھی ایک عرصے تک خدمت کی،  اور وہ بھی میرے ساتھ بہت شفقت برتتا۔ اس کے معاملات بھی کافی درست تھے، جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے مجھے خصوصا بلایا اور مجھے کہا کہ تم موصل شہر جاو، مجھے وہاں ایک راہب سے ملنے کے لئے کہا، مزید کہا کہ ان کی خدمت کرو، یہ اس وقت کے سب سے بڑے راہب اور راست پرست ہیں، ان کے انتقال کے بعد میں ان کے حکم کی تعمیل میں موصل شہر روانہ ہوگیا۔ یہ بھی ایک بوڑھا شخص تھا اس کی خدمت میں چند سال علم سیکھنے میں لگے اور آخر اس کا بھی وقت آخر آگیا، اس نے بھی مجھے وقت مرگ مجھے کچھ ادھورے کام سونپے اور مزید علم کی تشفی کے لئے اس عہد کے تاریخی و علمی شہر نسیبیس جانے کا کہا، وہاں ایک راہب کا بتایا، اس کے مرنے کے بعد میں نے اس کے سونپے گئے کام نمٹانے کے بعد ایک بار پھر قصد سفر نسیبس شہر کی طرف کیا۔ مذکورہ راہب کی خدمت میں پہنچا، اسے بھی میں نے بہت اچھے کردار کا پایا، میں اس کے ساتھ بھی کچھ سالوں تک رہا اور میرا یہ سفر چلتا رہا، میرے علم اور تشکیک کی پیاس نے مجھے اس سفر سے ہٹنے ہی نہ دیا ، ایک کے بعد ایک راہب کی خدمت میں علم دین سیکھتا رہا اور دوسری منزل کی طرف تسلسل سے چلتا رہا، بالآخر اس سفر کے آخری راہب نے مجھے اپنے بستر مرگ پر کہا کہ اب شائد  کسی بھی راہب کے بارے میں بتانے کے لئے کوئی ایسا مزید راہب نہیں بچا ہے جو عیسی ابن مریم کے درست تعلیمات پر قائم ہو، اور تم اس سے جاکر کچھ سیکھ سکو، مگر میرے علم کے مطابق وہ زمانہ قریب ہے کہ اللہ کا آخری نبی آنے والا ہے ، اگر تم اس زمانے کو پالو،  تو بلا شک و شبہ اس کے ساتھ ہوجانا، ورنہ اس کی آمد  کا انتظار کرنا۔
میں : میں اسے کیسے پہچانوں گا ۔
راہب: میں تمہیں اس نبی کی چار نشانیاں بتاتا ہوں، اگر تم اس میں وہ چار نشانیاں پالو ، تو سمجھ لینا یہی وہ شخص ہے جس کی پوری دنیا منتظر ہے۔
1- وہ کھجوروں کے درختوں والے شہر کی طرف ہجرت کرکے آئے گا
2- تم اسے صدقہ دوگے تو وہ انکار کردے گا۔
3- تم اسے ہدیہ (تحفہ) دو گے تو وہ بخوشی قبول کرلے گا۔
4- اس کے شانوں کے درمیان نشان نبوت ہوگا۔

یہ بتا کر وہ راہب بھی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اور میں افسوس میں ڈوب گیا کہ میں کیسے اس آخری نبی کے زمانے اور شہر تک پہنچونگا۔ اور شائد میں وہ زمانہ بھی پا سکوں گا  کہ نہیں کیونکہ میں تو اپنی زندگی کے کئی ماہ و سال تو علم سیکھنے میں گزار چکا تھا۔
میں اس وقت عموریہ شہر میں تھا، میں نے اپنے طور پر معلومات کی تو مجھے پتہ لگا کہ ایسے کھجوروں کے درختوں کی سرزمین تو عرب ہی ہے ، میں نے عموریہ شہر سے عرب کے ایک سرداروں پر مشتمل ایک تجارتی قافلے کا سنا جو وہاں سے گزر کر عرب کی طرف جارہا تھا ۔ میں نے جاکر اس قافلے سے بات کی ، کہ میں بھی عرب کی سرزمین تک جانا چاہتا ہوں ، اور اس تمام سفر کے اخرجات کی مد میں میرے پاس جو کچھ ہے وہ میں آپ کو دے سکتا ہوں، آخر کار ہمارا سودا طے ہوگیا اور میں نے اپنا سارا مال ان کے حوالے کیا اور ان کے ہمراہ سفر کے لئے روانہ ہوگیا۔

قافلے میں سفر کے دوران جب ہم وادی قرہ (مدینہ اور شام کے وسط) تو ان سرداروں کے دل میں لالچ آگیا اور انہوں میں ہمارے درمیان سفر کا جو سودا طے ہوا تھا وہ توڑ کر بد عہدی کرکے مجھے ایک یہودی کے ہاتھوں بیچ ڈالا، اب میری زندگی کا رخ بدل گیا تھا، کہاں میں علم کی تشفی، تلاش حق اور اپنی تشکیک مٹانے نکلا تھا، اس سفر میں اتنی عمر گزارنے کے بعد میں آج ایک غلام بن گیا۔

جس یہودی تاجر نے مجھے خریدا، کچھ عرصے تک میں اس کے پاس بحیثیت غلام رہا ، اس کے بعد اس نے مجھے اپنے بھتیجے کے سپرد کردیا، جو مجھے اپنے ساتھ یثرب شہر لے گیا۔ انہی دنوں ایک بار بازار میں جاتے ہوئے میں نے سنا کہ یہاں سے کوئی چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر شہر مکہ میں کسی شخص نے دعوی نبوت کیا ہے۔ مگر اس معاملے کو کھوج لگانے کے لئے یا مجھے میرا علم کچھ فائدہ نہ دے سکتا تھا، میری تشکیک و علم کی تشفی کو کوئی راستہ نہ مل رہا تھا، میں روح اور جسم کے ساتھ اب صرف ایک غلام تھا، میں سخت تکلیف دہ جسمانی مشقت کا عادی ہوچکا تھا۔

اس یہودی کے کھجوروں کے باغ میرے ذمے تھے ایک دن میں کھجور کے درخت پر چڑھ کر صفائی کررہا تھا کہ میرا یہودی مالک اور اس کا دوست باتیں کررہے تھے کہ وہ شخص جس نے مکہ میں نبوت کا دعویدار شخص مکہ شہر سے ہجرت کرکے یثرب (مدینہ) میں آگیا ہے۔
یہ سن کر میرا اندر ایک ایسا شدید تجسس پیدا ہوا اور میں فورا درخت سے نیچے اترا اور اپنے مالک کے پاس جاکر اس بابت دریافت کیا، تو میرے مالک نے مجھے سخت لہجے سے ڈانٹا اور کہا کہ تجھے اس سے کیا واسطہ؟ اور جا جا کر اپنا کام کر۔

اب میرے دل اور روح کی آگ ایک بار پھر بھڑک چکی تھی، اب میں نے معلومات کرنا شروع کی کہ وہ شخص کہاں مل سکتا ہے، تمام معلومات لے کر ایک دن موقع پاکر میں نے کچھ کھجوریں لیں اور اس دعوی نبوت والے شخص کے مقام پر پہنچ گیا، اس کی کچھ مصاحبین اس کے ساتھ موجود تھے، میں نے جاکر اس شخص کی خدمت میں وہ چند کھجوریں پیش کی اور کہا کہ میں یہ آپ کے لئے کچھ کھجوریں صدقہ لے کر آیا ہوں۔ اس،شخص نے خود تو وہ کھجوریں لینے سے منع کردی مگر اپنے ساتھ موجود کچھ لوگوں کو وہ کھجوریں کھانے کی اجازت دے دی۔ مجھے کچھ طمانیت کا احساس ہوا، کچھ دن بعد ایک بار پھر موقع پاکر چند مزید کھجوریں لے کر اس شخص کی محفل میں پہنچا اور عرض کی کہ یہ آپ کے لئے ہدیہ (تحفہ) لایا ہوں، اس شخص نے وہ کھجوریں بخوشی قبول کرلیں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی ، میں بے پناہ مسرت محسوس کررہا تھا ، کیونکہ آخری راہب کی بتائی گئی تین نشانیاں پوری ہوچکی تھیں۔ اب مجھ میں مزید انتظار کا حوصلہ ناپید ہوچکا تھا، میں بلا تاخیر آخری نشانی جاننے کے لئے بے قرار ہوگیا، میں،اس کے شانوں پر مہر نبوت دیکھنے کی کوشش کررہا تھا، اس شخص کے جسم پر ایک چادر تھی، میں بے اضطراری کی کیفیت میں اس،شخص کی چادر پر ہاتھ ڈال چکا تھا، میرا چادر پر ہاتھ ڈالنا تھا کہ اس شخص کے گرد بیٹھے لوگوں نے شک کی بنیاد پر مجھے دبوچ لیا۔

قربان جاؤں کہ وہ شخص میری کیفیتوں کو جان گیا کہ میں کیا چاہتا ہوں ، اس شخص نے اپنے مصاحبین سے کہا کہ اسے چھوڑ دو، اور اپنے شانوں سے چادر ہٹا دی، میرے سامنے مہر نبوت تھی، میری ریاضتوں کو قرار مل گیا، میرا سفر تمام ہورہا تھا، دل کی دھڑکنوں کی اتھل پتھل نے آنسوؤں کے بند توڑ دئیے تھے، ہچکیوں نے میری آواز کو رندھ دیا تھا، تمام مصاحبین میرے نزدیک جمع ہوگئے تھے، وہ میرے بارے میں جاننے کے لئے بے چین ہورہے تھے مگر میری ہچکیاں اور آنسو تھمتے نہ تھے۔ جب میں نے انہیں اپنی تمام تلاش حق اور تشکیک کی کہانی سنائی تو میری ہچکیاں ان کے بلند شگاف “اللہ اکبر” کے نعروں میں دب گئیں۔

میرا دل پگھل رہا تھا، میرا،سفر تمام ہورہا تھا، میرے سامنے مجسم کائنات آقا عزت مآب رسول علیہ صلاۃ والسلام تھے، میری غلامی کے بدلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے یہودی مالک کو چالیس اوقیہ سونے یا چاندی کے سکے دئیے، اور اس کے باغ میں سو درخت لگائے، جو صحابہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں  سے لگائے ۔ بالآخر میں اسلام میں داخل ہوگیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد جب مجھے غلامی سے آزاد کرایا گیا اس وقت میرے آقا نے میرا نام خود سلمان رکھا،  اور پھر بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے “سلمان الخیر” لقب بھی ملا، ابوعبداللہ، کی کنیت سے پکارا گیا، غلامی سے آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مستقل اقامت اختیار کی، اس وقت میں بالکل غریب الدیار تھا، کوئی شناسا نہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی مہاجرین کی طرح ان سے اور ابودرداء سے مواخاۃ کرادی، اس کے بعد میں ہمیشہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی معیت میں رہا، میں اکثر مشاورت میں شامل رہا، میں وہی ہوں جب کفار نے مدینہ پر حملہ کیا تو اس جنگ میں میرے مشورے پر خندق کھودی گئیں، اسی نسبت سے اس جنگ کو جنگ خندق کہا گیا، میں وہی ہوں جب خندق کی کھدائی کے موقع پر میں سب سے زیادہ سرگرم تھا۔ تو اس پر مہاجرین نے کہا کہ ” سلمان ہمارا ہے” انصار نے یہ سنا تو کہا کہ “سلمان ہمارا ہے”۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو قربان جاوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ” سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے ” اس لیے مجھے مہاجرین یا انصار کی بجائے ہمیشہ اہل بیت میں شمار کیا گيا۔
میں نے فقط آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہی نہیں دیکھا، بلکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ  و عمر رضی اللہ .کے دور میں بھی مشیر رہا، حضرت عمر کے عہد خلافت میں مدائن کی گورنری بھی ملی، اس تمام عہد میں ہر جنگ و محاذ میں شریک بھی رہا۔
میں نے جن جن علاقوں میں اپنی روح کی تشفی اور تلاش حق کی جدو جہد میں سفر  کی خاک چھانی تھی، بعد از اسلام میں نے ان تمام علاقوں کی فتح میں بحیثیت سپاہی فتح کے جھنڈے گاڑے یہاں تک کہ اپنے آبائی ملک تک ان فتوحات کے سلسلے تک گیا۔

656ء میں مدائن کا گورنر مقرر ہوا تو وہاں جانے کے چند ہفتے بعد میں نے اپنا،آخری سفر 89 سال کی عمر میں  رب ذوالجلال کی بارگاہ میں کیا، میرے سفر کی تاریخ  10 رجب المرجب33ھ ہے۔ میرا جسد خاکی روضہ مدائن میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ :  مجھے میری تشکیک اور تلاش حق  کی لگن نے نے اتنا سرگرداں کیا ، میں نے اتنے در در کی خاک چھانی ، اتنے سفر کئے ، تب جا کر میں مابہ سے سلمان فارسی بنا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply