دجلہ و فرات کے کنارے۔۔۔ فہد احمد

دجلہ و فرات کا ذکر آتے ہی اپ کی چشم تصور میں پہلا عکس کیا نمودار ہوتا ہے ؟
بغداد کا شہر ،   خوبصورت باٖغ ،   رومانوی  عرب داستانیں، دل کو لبھاتے خوبصورت دریا جنہوں نے  صدیوں کی تاریخ اپنے اندر  دفن کر رکھی ہے جنہوں  نے  مسلمانوں کا عروج و زوال دیکھا ہے ۔  چلیں اب سوریہ یا شام چلتے ہیں ، سلطان صلاح الدین ایوبی کرد، کا دیس، دنیا کی اولین تہذیب کا  گڑھ ، دنیا کی زرخیز ترین زمین ، لہلہاتے کھیت ، فربہ چوپائے ، دجلہ و فرات کے کنارے کھیلتے بچے۔۔۔

مگر شاید اب ایسا کچھ بھی نہیں ۔ ۔

شام  میں دریا دجلہ کے سوکھ جانے کے بعد  بنجر کھیت میں کھڑا ایک بزرگ جوڑا ۔
شام کے شہر الرقہ میں خشک ہوتا دریائے دجلہ

دجلہ و فرات دو تاریخی دریا ہیں، جو کہ ترکی میں اناطولیہ کے خطے سے نکلتے ہیں اور شام سے ہوتے ہوئے عراق و دیگر عرب ممالک  تک پہنچتے ہیں، جہاں یہ صدیوں سے اس پورے خطے کو سیراب کر رہے ہیں وہیں یہ مقامیوں کے روزگار کا بھی ذریعہ ہیں ، خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد سے جب عراق شام ترکی   کے تسلط سے باہر ہوے اور ترکی پہ مصطفی کمال کی حکومت ائی تو ترکی میں ڈیم بنانے کی ضرورت کے پیش نظر مختلف پراجیکٹس کی ابتداء کی گئی ، بعد ازاں جس میںGüneydoğu Anadolu ProjesiGAPکی بنیاد رکھی گئی جس میں دجلہ و فرات کے راستے میں کئی ڈیم بنانے کا پلان بنایا گیا۔  جس میں کم از کم  بائیس ڈیم دریائے دجلہ و فرات پہ بنانے کے پراجکیٹ کا اعلان کیا گیا۔  یہ پراجیکٹ ترکی کی بجلی و پانی کی ضروریات کو تو پورا کرنے کے لیے  بہت اہم تھے ، مگر اس کے اثرات خطے کی سیاست و معیشت پہ بھی پڑنے تھے۔

1980 کی دہائی میں فرات پہ   ترکی کے کبان ڈیم اور شام کے  طبقہ ڈیم کے بننے کی وجہ سے شام اور عراق کے درمیان جنگ کے بادل منڈلانے  لگے وہیں شام نے ترکی کا ایک طیارہ مار گرایا جو انکے بقول  دریا کا  سروے کر رہا تھا۔  وہیں کچھ سال قبل ایک عراقی تنظیم کی جانب سے ترکی کے ڈیمز کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی ، جس کی مذمت عراقی حکومت نے ترکی کے دباو پہ کی مگر یہ بھی کہا کہ  ترکی کی پالیسیزعراق میں قحط سالی  کی وجہ بنی ہیں تو عوامی رد عمل ہے ۔

وہیں 1990 میں جب ترکی نے اتاترک ڈیم کو بھرنے کے لیے پھر فرات کا راستہ روکا تو عراق نے  ڈیم پہ بم حملے کی دھمکی دی جس کی وجہ سے فوجیں  آمنے سامنے آئیں۔  اور ترکی نے شام اور عراق کا پانی مکمل بند کرنے کی دھمکی دی۔

ترکی ، شام عرا ق نے معاہدے کے تحت فرات کے پانی کو جاری رکھنے کا معاہدہ تو کیا مگر یہ اس طرح سے  شام و عراق کے لیئے فائدہ مند نہیں رہا ، اور  کشیدگی برقرا رہی، جی ہاں  آپ اس وقت تین مسلمان ریاستوں کی پانی پہ جنگ کے حالات پڑھ رہے ہیں کشمیر  معاملے پہ بھارت و پاکستان کے نہیں۔

شاید  اسی وجہ سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ریاستوں کے اپنے مفادات کسی دوسرے تعلق سے زیادہ اہم ہوتے ہیں  عالمی سیاست میں ۔ خیر آگے بڑھتے ہیں ۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے  بعد  ہی فوری طور پہ  ترکی شام عراق و ایران کے ، کرد ، نسل کی  آباد ی پہ مشتمل ایک ریاست کردستان کا قیام عمل میں لایا گیا ، جسے بعد ازاں ترکی سمیت دیگر ممالک نے قبضہ کر کے اپنی ریاستوں میں ضم کر لیا اس وقت سے کردستان تحریک   نے جڑ پکڑی اور ایک صدی تک چلنے والی مزاحمت اب بھی جاری ہے ، جس میں  پر امن سیاسی و  شدت پسند عسکری  گروہ شامل ہیں۔

چلتے ہیں اکیسویں صدی کی ابتدا میں ،  داعش کا فتنہ سر اٹھا چکا ہے ،  ایک کے بعد ایک ریاستیں اس کے  آگے سرنگوں ہوتی جا رہی ہیں ، ایسے میں صلاح الدین ایوبی کے کرد فرزند اٹھتے ہیں جو نظریاتی طور  سنی صوفی ہیں، یہ مقامی میلیشا کے ساتھ مل کر شام و عراق کے علاقے سے داعش کو مار بھگاتے ہیں اور ابتدا میں انہیں ریاستوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے مگر جیسے ہی ریاستوں کے مفاد پورے ہوتے ہیں اور کرد اپنے داعش سے آزاد کردہ علاقے میں کردستان کے قیام کی بات کرتے ہیں ان کو طاقت سے کچلنے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے  ۔ اس میں بیک وقت ترکی ، شام ، عراق ، ایران کی حکومتیں ملوث ہیں ۔

Image result for kurd militia defeated ISIS
کرد ملیشیا ، کردستان کے پرچم کے ساتھ

تھوڑا سا پیچھے چلتے ہیں پھر سے اسی کی دہائی میں جب ترکی نے شامی حکومت پہ دباو ڈالنے کی کوشش کی ،کرد عناصر کے خلاف کاروائی کی جائے ۔ بصور ت دیگر انکا پانی بند کر دیا جائے گا ،   مبینہ طور پہ اس سے قبل ترکی کی جانب سے شام پہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے بدلے پانی کی پیش کش بھی کی گئی ہے۔

پھر جب عرب ممالک  کی طرف سے پانی کے معاملے پہ ترکی کو قائل کرنے کی کوششش کی جاتی ہے تو ترک صدر ،  لبرل  طرغت اوزال ، صرف  اتنا کہتے ہیں ، کہ ہم عربوں کو نہیں بتاتے اپنا تیل کیسے استعمال کرو، عربوں کو کوئی حق نہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ  ہمارا پانی ہم کیسے استعمال کریں۔

اب اگر آپکو بھارت کا پاکستان پہ دہشت گردی کا بہانہ بنا کر پانی بند کرنے کا خیال آئے تو لاحول ولہ پڑھ لیجئے ،خیر سب سے زیادہ خطرہ پی کے کے نامی کرد تنظیم سے ترکی کو لاحق ہوتا ہے کیوں کہ کردوں کی ایک بڑی تعداد ترکی میں موجود ہے ،  اس تنظیم کی طرف سے ترکی میں کئے جانے والے دہشت گرد حملوں نے جہاں تحریک کو بدنام کیا وہیں کردوں پہ عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا،  کیوں کہ کردوں کی ایک بڑی آبادی ترکی میں مقیم ہے اور ان میں کردستان کی حمایت  سے بچنے کے لیئے ہر ممکن اقدام  اٹھائے گئے ،   کردوں کو ہر طور ماڈرن ترک بنانے کی کوشش کی گئی  ، یوسف کردوں میں ایک مقبول نام ہے ، میری گفتگو  میں دو کرد فرض کر لیجئے ایک  کا تعلق ترکی کے شام کے قریبی علاقے سے ہے ،  جس کے والد کاشتکار ہیں ، دوسرے  یوسف کا تعلق عراق سے ہے ، ترکی کا یوسف کرد ، تعلیم حاصل کر رہا ہے ایک ترک یونیورسٹی میں ، اسے اعتراض ہے کہ اسے کرد تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ، ہر بار اسے خود کو ترک کہنے پہ کیوں مجبور کیا جاتا ہے ، اور میں اسے صرف سمجھاتا ہوں کہ یہ ایک عمومی رویہ ہے اس پہ دل برداشتہ مت ہو، اپنی ریاست سے وفادار رہو ، وقت کے ساتھ ساتھ ترک تمہاری شناخت کو قبول کر لیں گے ابھی وہ سب دہشت گرد حملوں کی وجہ سے ہر کرد سے خار کھاتے ہیں

ترکی میں ایک کرد خانہ بدوش خاندان

وہیں عراق کا یوسف کرد کہتا ہے کہ ہمارے خلاف  آپریشن شروع کر دیا گیا ہے ، ہم دہشت گرد نہیں  ہیں ، ہمارے گھر میں رائیفلز جو ہم نے ذاتی دفاع کے لیئے رکھی ہیں کے سوا کچھ نہیں ، یہ پڑھا لکھا دردمند نوجوان ہے ۔ اسکا کہنا تھا  ، احمد برا، میرے لیے آواز اٹھانا   (“برا”  کرد زبان میں بھائی)۔

مگر میری نا اہلی کہ پچھلے لگ بھگ ایک سال سے میں نہ اس موضوع پہ بات کر سکا  نہ ہی یوسف سے پھر کبھی دوبارہ رابطہ ہوا۔

چلیں اب  آپکی ملاقات ترکی کے ایک کمالسٹ ترک یوسف سے کراتے ہیں یہ فوج میں رہ چکا ہے اور اسکا  خاندان ترکی کے حکومتی سیٹ اپ کا اہم حصہ ہے ، اسکی منگیتر  اور بھائی پی کے کے ، کے حملوں میں شہید ہو چکے ہیں یہ ترکی سے محبت اور کردوں سے شدید نفرت کرتا ہے ،  اسکا کہنا ہے کہ ، احمد کاردش (احمد بھائی ) میں  دوبارہ جنگ میں جانا چاہتا ہوں اورکرددہشت گردوں کو مارنا چاہتا  ہوں  ، یہ شاید  یوسف کرد  عراقی کو بھی مار کر اپنا انتقام ٹھنڈا کرے ، یہ  شایدیوسف کرد  ترک،  کو بھی کسی جنگی اپریشن کے دوران دہشت گرد سمجھ کر مارنے سے گریز نہ کرے۔

افسوس اس وقت میں تینوں  یوسف کے بارے میں نہیں جانتا وہ اس وقت کس حال میں ہوں گے۔

ترکی کے  آپریشن برگ زیتون و عراقی حکومت  کی سختی نے  باوجود احتیاط کے مسائل پیدا کیے جس کا شکار عام کرد آبادیاں بنیں ، اب اگر  آپ کو اس سب کی مماثلت  بھارت کشمیر ، افغانستان ، و پاکستان سے نظر آئےتو بھائی دوبارہ ایک بار لاحول ولہ پڑھ لیجئے۔۔۔۔۔۔

ایک اور منظر، کرد زیر انتظام علاقوں میں سیاسی کنٹرول  کے لیئے ترکی نے پھر پانی بند  کر دیا ہے ،  کرد ملیشیا کے  زیر انتظام علاقوں میں انکو کمزور کرنے لیئے ، جس کی نتیجے میں مقامی آبادی مسلسل نقل مکانی کر رہی ہے ، کردوں کی گرفت کمزور ہو رہی ہے ، ترکی کے بارڈر کو کنکریٹ دیوا ر   کے مجوزہ پراجیکٹ کی  بجاے ڈیم بناکر ترکی کو بیرونی خطرات سے  محفوظ رکھنے کی ایک وسیع حکمت عملی بنای گئی ہے۔

اب اسی تناظر میں  آپ ترکی کے شامی جنگ میں کودنے کو بھی دیکھ سکتے ہیں ، ہزاروں شامی پناہ گزینوں کو  جگہ دینے ترکی  زبان سکھانے ،  ٹیکنکل تعلیم دینے ، انکے لیئے ہر ممکن اچھے اقدام کی بھی تعریف کر سکتے ہیں۔ مگر کیا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سرائیکی کی کہاوت کے مصداق ، بھوک  و پیاس سے مرنے والے کی میت پہ  مکھن لگا کہ کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں کوئی ملک ؟   بلکل نہیں ، کیا میں کہنا چاہتا ہوں ، شام و عراقی حکومتیں معصوم ہیں ؟  نہیں ،     کیا میں کہنا چاہتا ہوں ایک صدی سے مرنے والے کرد دہشت گرد نہیں ؟َ  نہیں، کیا میں کہنا چاہتا ہوں کہ کہ  ترکی کے ڈیم شام کا ، شام اور ایران کے ڈیم عراق کا پانی روک کر انہیں پیاسا  مار رہے ہیں ؟ نہیں ،  کشمیری  بھارت کے جبر کا شکار ہیں ، ؟ نہیں ، کیا میں کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت ہمارے ستلج راوی چناب  و دیگر دریاوں پہ ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک کر ہمیں شام و  عرا ق بنانا چاہتا ہے ؟

میں کون ہوتا ہوں یہ کہوں ؟ کیا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کافر بھارت نے مثل یزید ہمارا پانی بند کیا ہے اب ہمیں اس کے خلاف جنگ شروع کر دینی چاہیے ۔ ؟ نہیں ،  کیا میں کہنا چاہتا ہوں اپنی تمام تر خوبیوں کےباوجود  برادر ملک ترکی جو کردوں اور شام و عراق و دجلہ و فرات کے ساتھ کر رہا ہے ، وہی کچھ بھارت کشمیر ، کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ کر رہا ہے ؟ نہیں ، میں کیو ں کہوں ؟ میری کیا مجال ؟  میری کیا بساط ؟

میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں ۔

؎  ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

ریاستوں کے لیئے انکے مفادات مذہب و اخلاقیات سے بڑھ کر ہوتے ہیں ، وہ چاہے ہماری ریاست ہو یا کوئی اور ، اس وجہ سے مجھے کچھ بھی حیرت نہیں ہوتی جب امریکہ ، برطانیہ ، بھارت، ترکی، اسرائیل ، افغانستان ، جرمنی، فرانس ، سعودیہ ، ایران  یا کوئی دوسری ریاست  کوئی جنگ کرتی ہے ۔

مجھے کیا کرنا چاہیے ؟  میرا مفاد کیا ہے ؟ مجھے کس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ؟  کیا میری ریاست بری ہے ؟ کیا باقی سب ریاستیں اچھی ہیں ؟

ان سب کا میرے پاس ایک ہی  جواب ہے ، اگر میں  پاکستان کی بجائے شام میں ہوتا ، تو حکومت وقت کے ساتھ  کھڑا ہوتا ، میں پیاس سے مرتے شامیوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ، میں پانی اور تیل کی جنگ  میں عراقی ، شامی ، افغانی ایرانی ، افریقی عوام کے ساتھ کھڑا ہوتا،  میں یہ دیکھتا کہ میری قوم کے لیئے کس چیز کی ضرورت ہے ، اگر میں ایک  ترک ہوتا تو شاید کردوں کو وحشی جانور ہی سمجھتا،  اور ترک پالیسی کو بہترین سمجھتا ، میں اگر کسی حکومت کا حصہ ہوتا تو برادر ممالک کی پالیسیوں پہ گفتگو نہ کرتا ، چین میں اغور ، مسلمانوں پہ ظلم پہ خاموشی اختیار کرتا کیوں کہ میری ریاست کے مفاد میں نہیں ، اگر ایک  جعلی لبرل ہوتا تو فلسطین پہ خاموشی اختیار کرتا، ایک مذہبی  لیڈر ہوتا تو اسرائیل مردہ باد ، ترکی زندہ باد کا نعر ہ لگاتا ۔

مگر شاید میں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوں ، میں ایک انسان ہوں ، ایک مسلمان ہوں ، میں انسانیت کے ساتھ ہوں ،  میں مظلوموں کے ساتھ ہوں ، اس دعا کے ساتھ کہ  ظالم ہونے یا مظلوم ہونے سے خدا کی پناہ  مانگتا ہوں ،  خیر ان سب کا ڈیم سے کیا تعلق ہے ، پاکستان سے کیا تعلق ہے ،  یہ  گفتگو بیک وقت ان لبرلز سے ہے جو پاکستانی ریاست کو ہی ہر مسلئے کی وجہ سمجھتے ہیں ، جن کے نزدیک پاک بھارت مسئلہ فوجی نوعیت و انا  کا ہے ، میں یہ انکو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ پاک بھارت جنگ صرف ہندو مسلم جنگ نہیں ،  یہ  لڑائی ہے ،  یہ پانی کی لڑائی ہے ، یہ پیاس کی لڑائی ہے ، یہ قحط کی لڑائی ہے ، یہ وہ  لڑائی ہے جس میں ہار کا انجام  ہر پاکستان کا شہر تھر اور ہر دریا  دجلہ و فرات کا منظر پیش کرنے کی صورت دے گا۔

میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوں تا کہ کل کو جب میرے  بچے پیاس سے بلکتے قحط زدہ پاکستان میں موجود ہوں تو انکی مدد کو بھی کوئی آئے کوئی انکے لیئے بھی آواز اٹھائے ، کوئی بتائے  کہ شام و عراق پیاسے تھے ، کہنے والے والے کے دیس کے پیاسوں کو پانی دو،  خدارا ،  پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں ، پانی کے ہمارے حق کے ساتھ کھڑے ہوں ، ڈیم بنایں ، اپنی قوم کو پیاس سے بچایں ،  جنگ کریں یا امن سے مذاکرات کریں، پانی لایں ، اور اگر نہیں لا سکتے  تو مجھے امن کی آشا اور  کشمیر جہاد کے لارے میں نہ رکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

امن  و مذاکرات سے پانی آتا ہے تو لایں میں جنگ خواہوں کے سامنے بیغرت امن پسند بننے کو تیار ہوں ، اگر  جنگ سے پانی  لا سکنے کا آپکو یقین  ہے تو میں قلم چھوڑ کر بندوق اٹھائے یوسف بننے کے لیئے تیار ہوں ، خدارا کچھ کریں ، ہمیں شام و عراق نہ بنائیں ، دجلہ و فرات نہ بنائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply