جاتے سال کے سحر میں

کچھ گھنٹوں میں نئے سال کا آغاز ہو جائے گا … سب اپنے نئے سال کی شروعات کریں گے اور اس سے پہلے ایک لسٹ بنائیں گے کہ آنے والے سال میں کیا کیا کریں گے؟ کیا کیا نہیں کریں گے ؟ کون سی کتاب پڑھیں گے ، کون سی نہیں . کن دوستوں کو زندگی میں شامل رکھیں گے کون سے زندگی سے بے داخل کر دیں گے ؟ کوئی وزن کم کرنے کا پلان بناے گا اور کوئی بڑھانے کا …
کوئی کچھ عادات چھوڑنے کا وعدہ کرےگا اور کوئی کچھ نئی عادات اپنانے پے خود کو راضی کریں گا …لیکن میں اگلے سال کے لئے کوئی بھی پلاننگ کرنے سے پہلے رواں سال کی خوبصورت یادوں کو ایک بار پھر اپنے اندر اتارنا چاہوں گی ….یہ سال عجیب سال تھا ، بچپن سے جوانی تک مختلف نظمیں اور کہانیاں لکھیں، مضمون لکھے اور کچرے کے ڈھیر میں ڈال دیے کہ میں بھلا کیسے لکھ سکتی ہوں ۔نا جانے اس سال اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ کچھ لکھا اور ” ہم سب” پر بھیج دیا اور حیرت تب ہوئی جب وہ چھپ گیا … پھر دو تین مضمون اور چھاپے . پھر قلم کار پر لکھا اور لوگوں نے پسند کیا …
بہت سارے اچھے اچھے خوبصورت لوگ زندگی میںآئے، انھیں استاد بنانا چاہا مگر وہ دوست بن گئے۔
اسی سال میں مبشر علی زیدی سے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ملی . مبشر بھائی بولتے بولتے ، لکھتے لکھتے ہنسی ہنسی میں کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جسے بعد میں بیٹھ کر سوچنا پڑے .مبشر بھائی سے ایک نہیں اس سال کئی ملاقاتیں ہوئیں . ہمیشہ یاد رہ جانے والی ملاقاتیں ….حسنین جمال سے بھی اسی سال ملی ، کیا خوب خاکہ لکھتے ہیں ، موسم پر ، خاموشی پر ارے وہ تو رات پر بھی لکھ لیتے ہیں …
اسی سال شاعری کا مجموعہ “فصیل ضبط ” کی شاعرہ فرح رضوی سے ملاقات ہوئی ، انکی پوری فیملی میری دوست بنی۔اسی سال قمر عبّاس اعوان نے بہن کہا اور پھر قلم کار میں نام سے ویب سائٹ بنائی اور میری کچھ تحریریں وہاں شائع ہوئیں ۔
اسی سال رضا علی عابدی سے ملی . بس بی بی سی کی خوبصورت آواز والے رضا علی عابدی . ہنستا چہرہ ، پیار ہی پیار . لندن سے اردو کانفرنس کے لئے آئے ، وقت کی کمی تھی پھر بھی میری ضد پر ملنے کا موقع دیا . انھیں استاد بنانے کی بھرپور کوشش کی ، مگر نہیں وہ تو دوست ہی بنے . واپس لندن گئے اور لاہور سے مجھے اپنی چار کتابیں کراچی بھجوائیں . کہنے لگے پڑھنے کا شوق ہے نا ، پڑھوں کتابیں بہت۔
جب کہو یاد آتے ہیں ، جواب دیتے ہیں معلوم ہے .پوچھا کیسے معلوم ہے ؟ جواب آتا ہے دل ہے نا ، سب بتا دیتا ہے .اسی سال کے اختتام کے قریب مکالمہ پر لکھنا شروع کیا ، مکالمہ کانفرنس کراچی کا حصّہ بنی ، فیض الله خان جسے دلیر صحافی کے سامنے بیٹھ کر کچھ سوالات پوچھنے کی جسارت کی … اسی سال محترم استاد انور محمود سے ملی . جنہوں نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا ، پاس بیٹھا لیا . لکھے ہوۓ ٹوٹے پھوٹے لفظوں کی تعریف کی . جاتے جاتے گلے لگا کر بولے : اب تو بھئی گھرآؤ اور ساتھ بیٹھوسارا دن . کراچی ایکسپو بک فیئر کی مرہون منت فاروق احمد ( اٹلانٹس پبلیکشن کے روح رواں ) سے ملاقات ہوئی ، رائیٹر راشد اشرف سے ملاقات ہوئی .انعام رانا سے ملی . اس سے مل کر لگا ہی نہیں کہ یہ پہلی ملاقات ہے . کوئی رسمی بات چیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا .ایسا ہی حافظ صفوان صاحب سے مل کر ہوا . کوئی رسمی بات چیت نہیں ، لگا برسوں کی جان پہچان ہے۔مکالمہ کانفرنس کی ہی بدولت عقیل عباس جعفری ، مجید رحمانی اور امّ رباب صاحبہ سے مل سکی .
اس سال رضا علی عابدی ، فرح رضوی ، فاروق احمد ، مبشر علی زیدی اور گگن شاہد بھائی نے کتابوں کے تحفے دیے . عشرت معین سیما صاحبہ نے ایک دوست کو میرے لئے کتابیں دیں . میں ان سب کی شکر گزار ہوں .
سال میں پاکستان اور دنیا بھر میں ہونے والے ہر حادثے کے بارے میں لکھتی رہی ، لیکن آج دل کیا کہ اس سال ہونے والے اچھے واقعات کا ذکر بھی ضروری ہے …
تمام دوستوں کو نیا سال اور اس کے آنے کی excitement مبارک!
میں ابھی رواں سال کے سحر کے ساتھ کچھ دیر اور رہنا چاہتی ہوں …

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply