سیدابوالحسن علی ندوی ایک ہمہ جہت شخصیت

سیدابوالحسن علی ندوی ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا وحید الدین خان
عالم اسلام کی معروف شخصیت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا 31 دسمبر 1999؁ء کو انتقال ہو ا۔مولانا موصوف1931ء میں پید ا ہوئے۔ ان کی شخصیت گویا سوسالہ دور کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ تاریخ میں وہ اس دور کی علامت کے طور پر دیکھے جائیں گے۔ ان کو بلاشبہ صدی کی شخصیت (Man of The
Century)کیا جا سکتا ہے۔
مولانا سید ابولحسن علی ندوی بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات کے مالک تھے۔ وہ ایک ممتاز عالم تھے۔ دارلعلوم ندوہ العلماء (لکھنو)کوان کے زمانہ میں غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی۔انھوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اور اسی طرح دوسرے بہت سے اداروں کی کامیاب قیادت کی۔ بیسوی صدی میں اٹھنے والی تقریباََ تمام بڑی بڑی اسلامی تحریکوں سے ان کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق تھا۔ وہ ہر حلقہ اور ہر گروہ میں یکساں طورپر عزت و اعتماد کی نطر سے دیکھے جاتے تھے۔ان کوبلا اختلاف ایک بین الاقوامی شخصیت کہا جا سکتا ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک فرد اپنی قوم میں نمائندہ قوم کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ مولانا موصوف کو یہی حیثیت حاصل تھی۔ ایسا شخص کسی قوم کے لئے بے حد قیمتی ہے۔اپنی اس حیثیت کی بنا پروہ پوری قوم کے لئے شیر ازہ اتحاد بن جاتا ہے۔وہ اپنی قوم اور دوسری قوموں کے درمیان عملاََ رابطہ کادرجہ حاصل کرلیتا ہے۔وہ تمام لوگوں کے لئے مرجع قوم بن جاتا ہے۔یعنی ایک ایسا شخص جس سے پوری قوم کے معاملہ میں رجوع کیاجاسکے وغیرہ۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؓ کی ذات میں یہ تمام حجتیں بہ تمام و کمال جمع ہوگئی تھیں۔مولانا محمد منظور نعمانیؓ نے ایک بار مولانا موصوف کو (رجل موھوب)کہاتھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے لئے یہ خطاب لفظ بلفظ درست ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا کارنامہ احیات تقریباََپوری صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک متحرک صدی تھے۔ صدی کی آخری تاریخ کو یہ متحرک شخصیت خاموش ہو گئی وہ انسانوں سے ہو کر اپنے رب سے جاملی۔مولانا ابوالحسن علی ندوی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ان کے اندر بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات موجود تھیں۔مولانا سیدمناظر احسن گیلانی نے کہا تھا کہ یورپ میں جو کام اکادمی کر تی ہے وہ ہمارے یہاں ایک آدمی کرتا ہے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اس قوم کا ایک زندہ نمونہ تھے۔ وہ ایک فرد تھے مگر انھوں نے کئی اداروں کے برابر کام کیا۔
مولانا موصوف نے ایک طرف دارالعلوم ندوۃ العماء جیسے ادارہ کے ذریعہ مسلمانوں کو علم دین سے بہرہ ور کرے کی کوشش کی اور دوسری طرف موسسہ مطالعات و تحقیقات اسلامی لگز مبرگ جیسے اداروں کے ذریعہ لوگوں کے لئے عصری معرفت کا سامان کیا۔ ایک طرف انھوں نے اپنی موثر تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں میں عملی جوش کو ابھار اور دوسری طرف انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ انھیں گہرے علمی شعور سے آشنا کیا۔ایک طرف انھوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ مسلمانوں کے ملی تحفظ کا انتظام کیا تو دوسری طرف پیام انسانیت کی تحریک کے ذریعہ انھیں داعی کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوش کی۔ ایک طرف انھوں نے روزہ و لابا بکر لھا جیسی کتابوں کے ذریعہ مسلمانوں میں دفاع اسلام کا جذبہ ابھار اور دوری طرف ماذا اخسر العالم بانحطاط المسلمین جیسی کتابوں کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنی تعمیر نو کی طرف متوجہ کیا۔ایک طرف انھوں نے رابطہ العالم الاسلامی کے ایک ا ہم رکن کی حیثیت سے عالمی مسلم اتحاد کی کوشش کی اور دوسری طر ف رابطہ ادب اسلامی کے صدر کی حیثیت سے مسلمانوں کے اندر علم و ادب کے حصول کا شوق ابھارا۔ ایک طرف انھوں نے مدارس د ینیہ کے قیام کے ذریعہ قدیم علوم کو زندہ کیا اور دوسری طرف آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامک سنٹر کے صدر کی حیثیت سے مسلمانوں کے اندر جدید علوم کے ماہر پیدا کرنے کی کوشش کی۔
مولانا سید ابولحسن علی ندوی کی ذات بہت سی اعلیٰ قدروں کا نمونہ بن گئی تھی۔انھیں میں سے ایک چیز وہ ہے جس کی بابت کہا گیاہے کہ دنیا سے بے نیاز ہوجاؤ ،دنیا خود تمہاری طرف دوڑ کر آئے گی۔ مولانا موصوف دنیا کی چیزوں سے بے نیاز ہو گئے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا نے خود اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیا۔
ایک بار ایک عرب سلطان ندوۃالعماء لکھنو آئے ان کے استقبالیہ میں جلسہ ہوا اس میں تقریر کرتے ہوئے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے ایک عرب بزرگ کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا تھا۔نعم الامیر علی باب الفقیر و بئس الفقیر علی باب امیر۔ ساری زندگی اہل دنیا سے بے نیاز رہے مگر اہل دنیا نے خود اپنی ساری متاع ان کے سامنے پیش کر دی۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا۔ ان کو بڑے بڑے ایوارڈ دیئے گئے مثلاََ کنگ فیصل ایوارڈ اسی طرح برونائی اور عرب امارات کے خصوصی ایوارڈ وغیرہ مولانا موصوف کی ذات اس حقیقت
کی ایک عملی مثال تھی کہ مال عہدہ عزت سب انسان کے تابع ہیں نہ کہ انسان ان چیزوں کے تابع ہے۔ انسان اگر اپنی انسانیت کو بلند کرلے تو بقیہ تمام چیزیں اپنے آپ اس کو حاصل ہو جائیں گی۔ بغیر اس کے کہ اس نے ان چیزوں کے لئے براہ راست جدوجہد کی ہو۔ایک شاعر نے کسی کے بارے میں کہاتھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ اپنی ذات میں ایک عالم تھے۔ ان کی موت بلاشبہ موت العالم موت العالم کی مصداق ہے۔تاہم قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ مولانا موصوف نے اپنے پیچھے اپنے شاگردوں
کی عظیم تعداد چھوڑی ہے۔یقین ہے کہ مولانا موصوف کے بعد ان کی تربیت سے فیض یافتہ یہ حضرات اس عربی شعر کا مصداق ثابت ہو ں گے جب ہمار اایک سردار وفات پاتا ہے تو دوسرا سردار کھڑا ہو جاتاہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply