سی پیک اور اس کی افادیت

سی پیک اور اس کی افادیت
مبین امجد
سی پیک دنیا کا سب سے بڑا معاشی و تجارتی منصوبہ ہے یہ ہزاروں کلومیٹر ریلویز، موٹرویز، لاجسٹک سائٹس اور بندرگاہوں کا ایک مربوط نظام ہے۔ یہ منصوبوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کے تحت جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل ممکن ہو جائے گی۔ اس سے قبل چین مشرق وسطیٰ کی منڈیوں تک اپنا جوسامان بھیجا کرتا تھا وہ جو بحیرہ جنوبی چین کے طویل راستے سے ہوتے ہوئے بارہ ہزار کلو میٹر کی مسافت طے کرکے وہاں پہنچتا تھا۔ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کی بدولت یہ فاصلہ بمشکل تین ہزار کلو میٹر رہ جائے گا۔ فاصلے کے گھٹنے سے چائنہ کو سالانہ 20 ارب ڈالر بچت صرف تیل کی درآمد میں ہوگی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مد میں 5 ارب ڈالر یعنی پانچ کھرب روپے سالانہ ملیں گے۔
یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل دے گا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے سے کئی ممالک کی ترقی منسلک ہے۔ چونکہ چین سے یورپ تک کا سمندری سفر 42 دنوں کا ہے جبکہ اس منصوبے کی تکمیل سے یہی سفر 10 دنوں کا رہ جائے گا۔ وقت، وسائل اور اخراجات کی کمی سے تجارت کو منفعت بخش بنایا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو روس سمیت کئی وسط ایشیائی ریاستیں اور دوسری طرف بھارت، ایران اور کئی یورپی ممالک اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترک صدر طیب اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقعہ پہ پاکستان نے پیشکش کی کہ ترکی بھی اس منصوبے کا حصہ بنے۔
اس منصوبے میں دیگر کئی منصوبہ جات شامل ہیں۔ 32منصوبے 2018ء تک مکمل ہو جائیں گے ان منصوبوں میں توانائی کے 22 پروجیکٹس بھی شامل ہیں۔ 20 ارب ڈالر کے ان منصوبوں سے پاکستان کو 8300 میگاواٹ بجلی میسر ہو گی جس سے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا بڑی حد تک خاتمہ ہو سکے گا۔ وفود میں مذاکرات کے دوران جن منصوبوں پر دستخط ہوئے ان میں، گوادر پورٹ، مواصلاتی انفراسٹرکچر، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور غذائی تحفظ سمیت متعدد شعبوں میں تعاون بڑھانے کے منصوبے شامل ہیں اور قراقرم ہائی وے کی اَپ گریڈیشن کی جائے گی۔ اقتصادی منصوبوں کیلئے 46 ارب ڈالر کی رقم میں سے 33 ارب ڈالر کی چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے جبکہ 12 ارب ڈالر کا سستا ترین قرضہ دیا جائے گا جو 15سے 20 سال کی مدت میں آسان ترین شرائط پر واپس کیا جائے گا۔
سی پیک کی افادیت سب پر عیاں ہے اور اسکی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پروجیکٹ پاکستان کے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ خاص طور پہ امریکہ اور انڈیا کو اس منصوبے سے مروڑ اٹھ رہے ہیں کیونکہ چین اس منصوبے کی تکمیل سے ان دونوں ممالک کی محتاجی سے نکل آئے گا۔ چونکہ ایشیا اور افریقہ دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے تو روس بھی اس خطے میں تجارت کرنا چاہتا ہے۔ اس کیلیے اس کے پاس صرف دو راستے ہیں ایک ایران کی چاہ بہار اور دوسری گوادر پورٹ، مگر چاہ بہار کی گہرائی محص 11 میٹر ہے جو وسیع تر تجارتی مقاصد کیلیے استعمال نہیں ہو سکتی۔ اس لیے روس بھی اس منصوبے میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ اگرچہ بھارت اور ایران ملک کر چاہ بہار پورٹ بنا رہے ہیں مگر جلد یا بدیر وسط ایشیائی ریستوں اور روس کو گوادر کی وجہ سے پاکستان پہ انحصار کرنا پڑے گا۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک اندازے کے مطابق روزانہ اسی ہزار ٹرک چین، روس اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک سے گوادر کی طرف آمدورفت کرینگے۔ پاکستان کو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں 20 سے 25 ارب کی بچت ہوگی۔ اکنامک کوریڈور کے قریب بہت بڑے انرجی زون بنیں گے، کئی صنعتی اور تجارتی مراکز قائم ہونگے تو لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔ اس کے علاوہ اتنے لمبے روٹس پر صرف کینٹین، ٹائر پنکچر اوردیگر سروسزسے بھی ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار مل جائیگا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان پوری دنیا کے تیل، گیس اورایگریکلچرل،صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن چکا ہے۔
سی پیک منصوبے کی تیزی سے تکمیل کیلیے کام تیزی سے شروع ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے تین ارب عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ گودر پورٹ کے مکمل ہونے پر پاکستان کو تقریباً 9,10 ارب ڈالر کا سالانہ ریونیو حاصل ہو گا اور 20,25 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا اور صنعتی ترقی کا پہیہ چلے گا اور عوام کی خوشحالی کا باعث بنیں گے۔

Facebook Comments

مبین امجد
انگریزی ادب کا طالب علم، چھوٹا موٹا رائٹر، زیادہ ریڈر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply