کرونا وائرس: عذاب یا وبا۔۔۔ذیشان نور خلجی

کرونا وائرس اللہ کا عذاب ہے جو ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے یا صرف سائنسی اصطلاح کی حد تک ایک وائرس ہے جو ہماری بد احتیاطیوں کی بدولت وبا کی صورت اختیار کر چکا ؟
اس سوال کو لے کے حضرت انسان واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ چکا۔ ایک اہل مذہب دوسرا اہل سائنس۔ اور میرے خیال میں یہی وہ وقت ہے جب ہر دو طبقات کو اپنی کھینچی گئی خود ساختہ لکیروں کو عبور کر کے ایک دوسرے کے قریب آنا ہے۔ کیوں کہ انسان مادی وجود کے ساتھ ساتھ ایک روحانی وجود کا بھی حامل ہے۔ صرف مادیت پہ یقین رکھنے والوں کی عمارت بھی ڈھے چکی ہے اور صرف روحانیت کو ہی سب کچھ سمجھنے والوں کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ کیوں کہ اگر جدید طب اس کا حل ڈھونڈنے سے قاصر ہے تو وہ در بھی بند ہو چکے ہیں ماضی میں جہاں سے شفاء ملا کرتی تھی۔

ہم اوپر اٹھائے گئے سوال کے تناظر میں کچھ جائزہ لیتے ہیں۔ جب یہ وباء پھوٹی تو اہل مذہب نے اسے خدا کا عذاب گردانا۔ لیکن میرا ماننا ہے انہوں نے عجلت سے کام لیا۔ کیوں کہ بعد میں جب یہ آفت ان کے سر پہ پڑی تو اسے آزمائش سے بدل دیا گیا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ الہامی پیغامات کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے تو پھر ہم یہ وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ واقعی یہ خدا کی طرف سے اتری آزمائش ہے۔ اور مذہب کے مطالعہ سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ آزمائش کا باب اب انفرادیت کی حد تک سکڑ چکا ہے۔ اور اہل سائنس کی بات کریں تو ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ ایک وبا ہی ہے تو پھر کہاں گیا آپ کا وہ خدا (سائنس) جس کے زعم میں آپ نے آسمانی خدا کو ہی جھٹلا دیا تھا۔

دراصل ایسا نازک وقت آ گیا ہے کہ اگر اہل مذہب کے تراشے ہوئے صنم اس ایک وائرس کے سامنے بت آزری کی طرح ڈھیر ہو چکے ہیں تو اہل سائنس کا اس چھوٹے سے وائرس نے یہ حال کر دیا ہے کہ مچھر نے نمرود کا کیا، کیا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ سمجھ ہی نہیں سکے کہ مذہب اور سائنس دو مختلف دفاتر ہیں۔ مذہب کا دائرہ کار روحانیت ہے۔ سائنس اس کے حلقہ اثر میں نہیں آتی۔ اور سائنس کبھی انسان کی روحانی زندگی سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتی۔

سائنس اور مذہب کا ٹکراؤ  صرف اور صرف ہماری اختراع ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے جب ایک شخص کو مادی مسائل درپیش آتے ہیں کہ جن کا دائرہ کار سراسر سائنسی ہوتا ہے تو لازمی امر ہے کہ مذہب اسے حل کرنے سے قاصر ہو گا۔ اور جب اسے روحانی معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ سائنس اس کا حل تلاشنے میں کامیاب ہو۔ اور اسی لئے آج سائنس اور مذہب دونوں ہی ناکام ہو چکے کہ ہم نے ان دونوں سے وہ کام لینا شروع کر دیئے ہیں جو ان کے کرنے کے تھے ہی نہیں۔ ایک ٹرک ڈرائیور کو بڑھئی کا کام سونپ دیا جائے تو وہ جگ ہنسائی کا باعث ہی بنے گا۔
وائرس کے حوالے سے بات کی جائے تو آنے والے دنوں یہ ضرور ہو گا کہ سائنس اس کا حل ڈھونڈ نکالے گی۔ لیکن امید ہے کہ حل صرف یہی ہو گا کہ ایک دن یہ وائرس خود ہی اپنی مدت پوری کر کے چلا جائے گا۔ ہاں، لیکن یہ دعویٰ ضرور کیا جائے گا کہ ہم نے اس کی ویکسین تیار کر لی ہے اور اب اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دعا ہے، ایسا ہی ہو کہ پہلے بھی سائنس ایسے معاملات میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ لیکن کیا تب کوئی اس پہلو پہ بھی سوچے گا کہ اپنی مدت گزارنے کے بعد یہ وائرس خود ہی ایسا خطرناک نہیں رہا جیسا کہ آج سے چند سال قبل بھی یہ موجود تو تھا لیکن مہلک نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین ! دراصل یہ وائرس اہل زمین کے لئے ایک مخمصہ ہی ثابت ہوا ہے اور ہم باوجود کوشش کے اس قضئیے کو حل کرنے سے قاصر ہیں۔ لہذا اس کو ادھر ہی چھوڑتے ہوئے ہمیں ابھی وہ کام کرنے چاہئیں جو وقت کی ضرورت ہے۔ تو اس مصیبت کی گھڑی میں ایک باشعور انسان کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ مذہب کا باب اس بارے بہت روشن ہے کہ ہمیں اسباب تو لازمی اپنانے چاہئیں لیکن پھر اس کا نتیجہ بھی معبود کی منشا پہ رکھ چھوڑنا چاہیے۔
لہذا ہمیں چاہیے ہم دوا بھی کر یں اور دعا بھی۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ انسان جب بیمار ہوتا ہے تو اسے جسمانی سہارے کے ساتھ ساتھ روحانی سہارے کی بھی اشد ضرورت رہتی ہے۔ سو ہمیں اپنے حکیم اور ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ اپنے خدا اور بھگوان کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply