اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم کا خطاب

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم کا خطاب
طاہر یاسین طاہر
ہمیں یہ امر تسلیم کرنا چاہیے کہ اس وقت پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے،جبکہ بھارت،امریکہ اور اسرائیل و افغانستان تسلسل کے ساتھ پاکستان پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت بانی کرتا ہے، اوریہ کہ بھارت و افغانستان میں ہونے والی عسکری مداخلت، یا دہشت گردی میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو جو منہ میں آتا ہے، کہہ گذرتے ہیں۔حالانکہ دہشت گردوں کی پشت بانی کے حوالے سے پاکستان پر امریکہ و بھارت اور افغانستان جو الزام تراشیاں کر رہےہیں، ان الزامات میں قطعی صداقت نہیں ہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے، بلکہ یہ بھارت ہی ہے جو افغانستان کے راستے پاکستان میں مداخلت کرتے ہوئے تخریب کاریاں کرواتا ہے۔افغانستان کے صدر اشرف غنی امریکہ و بھارتی زبان بولتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان  کی ٹاپ لیڈر شپ، جو پاکستان کو مطلوب ہے، انھیں افغانستان نے پناہ دی ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے عالمی سربراہان مملکت پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان افغانستان سمیت کسی بھی ملک کے لیے ’قربانی کا بکرا‘ نہیں بنے گا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر پاکستانی مؤقف کی دو ٹوک وضاحت کی۔عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بےشمار قربانیوں کے بعد افغانستان میں سیاسی اور فوجی تعطل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جانا پریشان کن ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کسی کے لیے بھی قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار نہیں۔وزیراعظم نےیہ بھی کہا کہ پاکستان، افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑنے کے لیے تیار نہیں، نہ ہی ہم کسی ایسی ناکام حکمت عملی کی تائید کرتے ہیں جو افغانستان اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو درپیش مسائل میں اضافے کا سبب بنے۔
اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے آغاز سے لے کر آج تکہزاروں پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔جبکہ پاکستان نے 120ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان بھی اٹھایا۔انہوں نے داعش اور القاعدہ سمیت دیگر انتہاپسند گروہوں کے ترجیحی خاتمے اور طالبان کے ساتھ سیاسی حل تلاش کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کی تردید کی۔ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں‘ بلکہ یہ پناہ گاہیں افغان سرزمین کے ان حصوں میں موجود ہیں جہاں طالبان کا کنٹرول قائم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر سرحد پار حملے افغانستان میں موجود پاکستان مخالف دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے ہوتے ہیں۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’تمام سرحد پار حملوں کے خاتمے کے لیے ہم افغان حکومت اور اتحادی فورسز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی نگرانی اور سرحدی کنٹرول کی کوششوں کے ساتھ تعاون کریں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جب عالمی برادری پاکستان پر ڈو مور کے حوالے سے دبائو بڑھا رہی ہے تو ایسے میں بالخصوص افغانستان کے حوالے سے وزیر اعظم نے دو ٹوک موقف اپنا کر عالمی برادری کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان سے ڈدو مور کا مطالبہ کرنے کے بجائے زمینی حقائق کا بھی ادراک کیا جائے۔یہ بات طے ہے کہ امریکہ اپنی عیارانہ عسکری و سفارتی پالیسیوں کے ذریعے افغانستان کی جنگ پاکستان کی سر زمین تک لے آنا چاہتا ہے۔امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ اس کی شروع کی گئی جنگ اب پاکستان کے ذمہ ڈال دی جائے۔ اگر امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایسا کوئی کام کرتا ہے تو یہ یہ خطےاور عالمی برادری کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ اور نقصان دہ بات ہو گی۔ پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے۔ طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ پاکستان افغان امن پالیسی کا حصہ بننے کو تو ہمہ وقت تیار ہے مگر پاکستان افغانستان یا کسی بھی دوسرے ملک کے لیے اب مزید جنگیں نہیں لڑ سکتا۔افغانستان میں امن کے لیے خود افغانوں کوبھی کردار ادا کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply