بلوچستان کے پشتونوں کا مقدمہ۔عابد میر

سامراج کی ایک نمایاں علامت عوام دشمنی ہے۔یہ کبھی بھی کسی بھی صورت عوام کا اتحاد گوارا نہیں کرتا، کہ اسی میں اس کی ہلاکت کا راز پوشیدہ ہے۔سو، بیسویں صدی کے وسط میں نصف دنیا سمیت برصغیر پہ قابض برطانوی سامراج دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں شکست خوردہ ہو کر گھر کو پلٹنے لگا تو جاتے جاتے سرحدوں کی لکیر کے ذریعے اس خطے کے باسیوں کے مابین وہ دراڑ ڈال گیا، جس نے انہیں مستقل تقسیم میں مبتلا کر دیا۔

گو کہ سن سینتالیس میں ہندوستان کی مہا تقسیم سے قبل ہی ہمارا پورا خطہ انگریز کے ہاتھوں حصے بخرے ہو چکا تھا، لیکن سینتالیس کے بعد ہونے والی تقسیم نے کچھ یوں غیرفطری لکیریں کھینچیں کہ جس کے نتائج اس خطے کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔وہاں پنجاب کو ہندوستان اور پاکستان کے مابین تقسیم کر دیا گیا، تو یہاں ایران و افغانستان کے بعد باقی ماندہ بلوچستان کے حصے بخرے کر دیے گئے۔کچھ حصے سندھ تو کچھ پنجاب میں چلے گئے۔سندھ میں گو کہ کوئی بڑی جغرافیائی تقسیم تو نہ ہوئی لیکن کراچی میں ایک بڑی آبادکاری کے ذریعے اس کی مستقبل کی تقسیم کی شاید ایک اینٹ رکھ دی گئی۔

اس حصے بخرے میں سب سے زیادہ متاثر پشتون ہوئے۔جو پہلے ہی ڈیورڈ لائن نامی ایک غیرفطری و متنازع لکیر کے نتیجے میں اپنے ہی گھر میں تقسیم ہو چکے تھے۔ڈیورڈ لائن بنیادی طور پر افغان ملت پر وہ پہلا وار تھا، جس نے اس غیور قوم کی مستقل تقسیم اور ان کے وطن میں مستقل انتشار کی بنیاد رکھ دی۔افغانستان میں عشروں سے جاری شورش و انتشار کی حالیہ وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں، سراغ لگائیں تو اس کے آخر میں حتمی طور پر کہیں نہ کہیں اس کا سرا اسی خونی لکیر سے جا ملے گا۔

ڈیورنڈ لائن کے زخم خوردہ پشتون کے ساتھ دوسرا بڑا ظلم اس وقت ہوا جب کچھ بلوچ علاقوں کو ان کے تاریخی وطن کے ساتھ ملا کر ’برٹش بلوچستان‘ کا نام دے دیا گیا۔یہ برٹش سامراج کی کھلی جارحیت تھی۔پشتون تاریخی طور پر افغان ملت کا حصہ رہے ہیں۔اول تو انہیں تاریخی طور پر افغان وطن کا حصہ ہونا تھا، عالمی سامراجی پالیسیوں کے نتیجے میں یہ نہ ہو سکا تو فطری طور پر انہیں پختونخوا وطن کا حصہ ہونا چاہیے تھا (اس میں موجودہ خیبر پختونخوا کو شامل سمجھیں)۔لیکن انگریز نے مستقبل کی ایک وسیع تقسیم در تقسیم کی منصوبہ بندی کے ساتھ خان قلات سے ریاست کے کچھ علاقے اجارے پر لے کر ریاست قلات کو برائے نام خودمختار حیثیت دے دی، اور کچھ بلوچ علاقوں کو ملا کر پشتون اکثریتی علاقوں کو برٹش بلوچستان کا نام دے دیا۔

ہمارے خطے میں جدید سیاست کا آغاز بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے ہو۔اس زمانے میں بلوچ، پشتون قیادت نے اپنے اپنے تاریخی وطن میں رہتے ہوئے مشترکہ سیاسی جدوجہد کا طرز اپنایا، جو مستقبل کے سیاسی رہنماؤں کے لیے گویا گائیڈ لائن کی حیثیت اختیار کر گیا۔یوسف عزیز مگسی سے لے کر، خان عبدالصمد خان اچکزئی اور پھر میر غوث بخش بزنجو تک یہ تسلسل کسی نہ کسی صورت برقرار رہا۔

سن ستر کی دہائی میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد، جوں ہی بلوچستان کی صوبائی و قومی حیثیت بحال ہوئی، بلوچ پشتون رہنماؤں کی جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ پشتونوں کے تاریخی وطن کو ان کی قومی شناخت عطا کی جائے۔بلوچ قیادت اس معاملے پر ہمیشہ پشتون دوستوں کی ہم قدم و ہم آواز رہی۔ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وہ تاریخی موقع تھا جب اس غیرفطری تقسیم کو ختم کر کے، خطے کے پشتونوں کو ان کی رضا سے یا تو موجودہ خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا جاتا یا الگ صوبائی تشخص دیا جاتا، جو ان کا جائزحق تھا۔لیکن اس صورت میں مقتدرہ یہاں کے عوام کے مابین مستقل تقسیم کا ایک کارڈ کھو دیتی، اس لیے تمام تر جدوجہد کے باوجود اس سے صرفِ نظر کیا گیا۔

بلوچ قیادت چوں کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد بلوچستان کی بنیادی شناخت کے بحال ہوتے ہی وطن کے بنیادی مسائل کے حل میں منہمک رہی،اس لیے یہ معاملہ سردخانے کی نذر ہو گیا۔بلکہ محض نو ماہ بعد اس پہلی عوامی حکومت کو چلتا کر دیا گیا، تمام مرکزی رہنما زندانوں کی نذر ہوئے۔المیہ یہ ہوا کہ اَسی کی دہائی تک آتے آتے خان صمد خان اور میر بزنجو کی زندگی کا سفر تمام ہو چکا، ان کی صورت ہمارے خطے میں سیاسی فہم و فراست کا سفر بھی تمام ہوا۔گزشتہ تیس چالیس برسوں میں یہ پورا خطہ اور یہاں کی اقوام اس سطح کی سیاسی قیادت پیدا نہ کر سکے، یوں بنیادی مسائل کی تشخیص و حل میں بھی ناکام رہے۔

گزشتہ بیس برس کی ہماری سیاست محض سیاسی نعرہ بازی اور ذاتی مفادات کی تکمیل کی آئینہ دار ہے۔پاکستانی کا مجموعی طرزِ سیاست اختیار کرنے کے بعد ہمارے خطے کے سیاست دان بھی عارضی مفادات اور آسائشوں کے اسیر ہو کر رہ گئے۔کھوکھلی نعرہ بازی کے ذریعے عوام کے درمیان نفرت کا وہ بیج بو دیا گیا جو آج باردو بھرا تناور درخت بن چکا ہے۔جس میں تباہی کے ثمر کے سوا کچھ نہیں لگتا۔

اب ایسے میں اہلِ علم و اہلِ قلم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آگے بڑھ کر نفرت کے ان شعلوں پہ پیار کا پانی ڈالیں اورعوام کو اس غیرفطری تقسیم سے نکالنے کی سعی کریں۔پشتون دانش وروں کی یہ دُہائی بالکل جائز ہے کہ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ وہ اپنے وطن میں اپنے تشخص تک سے محروم ہیں اور اپنے تاریخی وطن کو بھی’بلوچستان‘ (بمعنی، بلوچوں کے رہنے کی جگہ) کہنے پر مجبور ہیں۔جس کا نفسیاتی اظہار دو قومی صوبہ، پشتون بلوچ صوبہ یا جنوبی پشتونخوا کی اصطلاحات سے ہوتا رہتا ہے۔اسے محض تعصب یا نفرت سے موسوم کرنے کی بجائے تحلیلِ نفسی سے کام لے کر اس کا تاریخی کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔

بہرکیف، اس وقت صوبے میں پشتونوں کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت واضح اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں موجود ہے۔پشتونوں کے علیحدہ وطن کا قیام جن کا صرف نہ صرف نعرہ رہا ہے بلکہ یہ نکتہ ان کے آئین میں بھی شامل ہے۔یہی وقت ہے کہ وہ مل کر اس کے لیے لابنگ کریں، اسمبلی میں قرارداد لائیں۔بالخصوص ان دنوں جب کہ دوسری پشتون قوم پرست جماعت اے این پی بھی اس معاملے پہ ان کی ہم نوا ہو چکی ہے۔جب کہ بلوچ قیادت پہلے ہی اس معاملے پر ہمیشہ لبیک کہتی رہی ہے۔اس لیے اس معاملے کے منطقی حل کا اس سے بہتر تاریخی موقع شاید ہی پھر کبھی مل سکے۔

آج اس سلسلے میں کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوتی تو مستقبل میں یہ محض سیاسی نعرہ ہی رہ جائے گا۔سیاست، موجود تضاد میں سے اپنے حصے کے انتخاب اور اسے کامیابی سے نمٹانے ہی کا نام ہے۔مکمل اقتدار و اختیار کے ہوتے ہوئے ایک بنیادی تضاد کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بہرحال پشتون قیادت نے ہی کرنا ہے، اور اسی بنیاد پر ان کے مستقبل کا فیصلہ پشتون عوام ہی کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلوچ نے اس میں یوں بھی اپنی آواز ملانی ہے کہ حقِ ہمسائیگی کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔

Facebook Comments

عابد میر
عابد میر بلوچستان سے محبت اور وفا کا نام ہے۔ آپ ایک ترقی پسند سائیٹ حال احوال کے ایڈیٹر ہیں جو بلوچ مسائل کی نشاندھی اور کلچر کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply