یہ گروہی عصبیت اور تفاخر کیوں؟۔۔محمد منیب خان

شور تو پہلے بھی تھا لیکن اب آوازیں غیر ضروری حد تک اونچی ہو گئی ہیں۔ اب کسی دلیل اور جواز کو منطق کی کسوٹی پہ پرکھانہیں جاتا۔ ہم آہستہ آہستہ  تعصب و تفاخر  کے اس گڑھے میں تقریباً گر چکے ہیں جس کو خود ہی گزشتہ ستر سالوں سےخرگوش کی طرح مٹی کھرچ کھرچ کر بنا رہے تھے۔ تکبر اور گھمنڈ کی پہلی دلیل تو شیطان نے دی تھی کہ میں آگ سے بنا ہوں لہذااس مٹی سے بنے کمتر انسان کو کیونکر سجدہ کروں۔ اس کے بعد یہ دلیل انسان کے لاشعور کا مستقل حصہ بن گئی اور ہم صدیوں بعد شعور کا سفر طے کر کے بھی جہاں پہنچے وہاں انفرادی و گروہی تعصب کا ہی غلبہ ہے۔ شیطان کی دلیل کو انسان نے سینہ بہ سینہ آگے چلایا۔ اور ہم نے اس کو کچھ زیاہ ہی سنجیدگی سے لیا۔ گروہ چاہے مسلکی ہو، لسانی، سیاسی یا مذہبی سب ہی سب عصبیت اور تکبر کا شکار ہوئے۔ اور تو اور مسلمان بھی بحیثیت مسلمان غیر مذہب کو حقارت سے دیکھتا ہے۔ گو اللہ نے مسلمانوں کوبہت سی بشارتیں دے رکھی ہیں لیکن ان سب بشاتوں کا تعلق محض عقیدے سے نہیں بلکہ عقیدے کی عملی تکمیل سے ہے۔ جملہ معترضہ عرض کر دوں کہ عقیدے کی  تکمیل آج جس شکل میں رائج ہے قرون اولی کی کوئی ہستی اگر آج نمودار ہو جائے تو وہ چودہ سو سالہ اسلامی تشریحات کو دیکھ کر یہ ضرور پوچھے گی کہ یہ کونسا دین ہے؟۔۔۔ یوں تو مسلمانوں کو ملنے والی ساری خوشخبریوں کا حاصل تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم دوسروں کو دعوت دیتے اور خود کو ہدایت ملنے پہ رب کے ہاں شکر کے سجدے بجا لاتے لیکن ا ب ہماری دعوت و تبلیغ دوسرے مذہب تک جانے کی بجائے مسلکی تفریق میں محصور ہو گئی اور شکر نے تعصب اور تکبر کی شکل اختیارکر لی۔

72 سال پہلےپاکستانیبننے والے اب  محض پاکستانی نہیں رہے بلکہ تقسیم سے اتنے گروہوں میں بٹ گئے ہیں کہ ایک پاکستانی ا ور اس کا سایہ دو مختلف گروہوں کا حصہ ہیں۔ کسی جگہ پہ ہمیں اپنے لسانی گروہ کا ساتھ دینا ہے کسی قضیے میں اپنے پیشےسے وابستہ ہجوم کے حق میں دلائل گھڑنے ہیں۔ کسی معاملے میں اپنے مسلک کی مذہبی تعبیر کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ کسی فیصلےمیں اپنے مجرم کے جرم کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا ہے۔ لیکن اصل المیہ تو یہ ہے کہ یہ سب کرتےہوئے کسی علمی دلیل، کسی منطق، کسی فکر اور زمینی حقائق کا سہارا لینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی۔ بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ میرا پروفیشنل گروہ، میری سیاسی جماعت، میرا ادارہ، میرے دوست میری برادری کس طرف ہے۔ میں نے ان کی ہربات کو حق کہنا ہے بلکہ حق منوانا ہے۔ ہمارا گروہ، ہماری جماعت، ہمارا مسلک کیسے غلط ہو سکتے ہیں؟ جس لمحے یہ سوال جنم لیتاہے اسی لمحے علم و عقل جذبات کے تابع ہو جاتی ہے۔ اس فکری افلاس کی پیدائش کے ساتھ ہی تفاخر اور عصبیت کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ اس عصبیت اور تفاخر کے داخل ہوتے ہی جہاں علم و شعور رخصت ہوتا ہے وہاں گروہ اور شخص عمل سے زیادہ رد عمل کی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

یہ عصبیت اور تفاخر محض کسی گروہ، قبیلے یا جماعت تک محدود نہیں بلکہ پہلے ان سب عناصر کی اکائیآدمیان خواص سےمتاثر ہوا۔ انفرادی عصبیت کا بیج گروہی عصبیت کے تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ اور اب عصبیت کا ایک ایسا جنگل آباد ہوچکا ہے جس کی زمین میں مزید کئی انفرادی بیج درخت بننے کو تیار ہیں۔ ذرا اپنی روزمرہ کی گفتگو پہ نظر دوڑائیں۔ اپنا احتساب کرناشاید مشکل ہو چلیں اپنے متعلقین کی گفتگو پہ غور و خوض کریں۔ آپ کو سنائی دینے والے ہر تیسرے جملے میں ہر شخص اپنی تعریف کرتا نظر آئے گا۔تو مجھے جانتا نہیں میں ہوں کون؟یہ جملہ تو ہر جھگڑے کی جگہ پہ یوں بولا جاتا ہے جیسے خدا نےسپرمین کا ٹیگ لگا کر بھیجا ہو اور سب لوگ اسے اڑاتا ہوا دیکھ کر بھی پوچھ رہے ہوں کہ یہ ہے کون۔۔۔

پاکستان کی حالیہ سیاسی اور سماجی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو ایسی گروہی اور انفرادی عصبیت کی درجنوں مثالیں سامنے آئیں گی۔یہاں موجود ہرشخص اور ہر  گروہ کسی زعم میں مبتلا ہے۔ اسی زعم میں کوئی کسی پہ حملہ کر دیتا ہے۔ رد عمل کی نفسیات کا شکارہوتے ہوئے دوسرا گروہ جوابی حملہ کرتا ہے۔ مکا مارنے کے لیے کسی عمل کسی تکنیک کی ضرورت نہیں محض طاقت ہونی چاہیے لیکن کس کو کس وقت اور کتنی طاقتو سے مکا مارنا ہے یہ معاملہ عقل ہے۔ لیکن گروہی تفاخر اور گھمنڈ میں عقل کی غیر موجودگی سے ہونےوالے کسی بھی ٹکراؤ سے بس حادثہ ہی جنم لے سکتا ہے حادثے ہی جنم لے رہے ہیں۔

ممکن ہے آپ کو فخر ہو، اپنے کردار پہ، اپنے علم پہ، اپنے عہدے اور وسائل پہ اور اپنے گروہ کی طاقت پہ۔ لیکن یہ سب بھی آخر کب تک؟ اس دنیا میں اگر فرعون کی بادشاہت برقرار نہ رہ سکی، اگر یہاں سکندر اعظم جیسا فاتح تاریخ کی کتابوں میں دفن ہوگیا تو آپکا مقام کیا ہے؟ انفرادی طور پہ آپ نہ تو حکیم لقمان ہیں اور نہ عیسیٰ  ابنِ  مریم، نہ ہی فلسفہ اور دلیل میں ارسطو یا سقراط۔ نہ ہی آپ خالد بن ولید ہیں اور نہ ہی آپ جولیس سیزر۔ نہ ہی آپ کا گروہ اور جماعت آسمانی تعلیمات کے ساتھ وجود میں آئے ہیں۔ آپ سفیدکوٹ پہنیں یا کالا یا پھر آپ خاکی وردی زیب تن کریں۔ آپ سب عام انسان ہیں عام گروہوں سے وابستہ، عام اداروں میں کام کرنے والےانسان۔ آپ کو فخر قانون اور آئین کی سربلندی میں ہونا چاہیے نا کہ قانون اور آئین کو توڑنے میں۔ قانون کو روندنا شیطان کی صفت ہے اس پہ بھلا تفاخر کیسا؟ آخر اپنے پیشے کے لحاظ سے گروہی تعلق پہ فخر کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply