ہمیں اپنی آئی ایس آئی پہ فخر ہے۔۔۔ رانا او رنگزیب

محکمۂ بین الاقوامی مخابرات جسے انگریزی میں ڈائریکٹوریٹ آف انٹر سروسز انٹلیجنس یا مختصراً انٹر سروسز انٹلیجنس یا بین الخدماتی مخابرات (Inter-Services Intelligence) اور آئی ایس آئی (ISI) کہاجاتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مایہ ناز خفیہ ادارہ ہے۔ جو ملکی مفادات کی حفاظت اور دشمن ایجنٹوں کی تخریبی کارروائیوں کا قبل از وقت پتا چلا کر انہیں ختم کرنے کےلیے بنائی گئی ہے۔ اس سے پہلے انٹیلیجنس بیورو ‏‎(I.B)‎‏ اور ملٹری انٹیلیجنس ‏‎(M.I)‎‏ کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔ لیکن بعد میں اسکا قیام عمل میں آیا 1947ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد دو نئی انٹیلیجنس ایجنسیوں انٹیلیجنس بیورو اور ملٹری انٹیلیجنس کا قیام عمل میں آیا لیکن خفیہ اطلاعات کا تینوں مسلح افواج سے تبادلہ کرنے میں ملٹری انٹیلیجنس کی کمزوری کی وجہ سے I.S.I کا قیام عمل میں لایا گیا۔. 1948ء میں ایک آسٹریلوی نژاد برطانوی فوجی افسر میجر جنرل رابرٹ کا‎ؤ‎تھم‎ (جو اس وقت پاکستانی فوج میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے) نے I.S.I قائم کی۔اس وقت آئی ایس آئی میں تینوں مسلح افواج سے افسران شامل کیے گئے. 14 جولائی 1948ء میں لیفٹیننٹ کرنل شاہد حمید جنہیں بعد میں دو ستارہ میجر جنرل بنایا گیا.پھر میجر جنرل (ریٹائرڈ)سکندر مرزا (جو اس وقت ڈیفنس سیکرٹری تھے) نے انہیں ملٹری انٹیلیجنس کا ڈائریکٹر بنا دیا۔پھر انہیں آئی ایس آئی کی تنظیم کرنے کو کہا گیا.اور انہوں نے یہ کام میجر جنرل رابرٹ کاتھوم (جو اس وقت ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے) کی مدد سے کیا۔

تینوں مسلح افواج سے افسران لیے گئے.اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سویلین بھی بھرتی کیے گئے.I.S.I کی موجودہ ترقی کے پیچھے میجر جنرل کاتھوم کا ذہن کارفرما تھا.جو I.S.I کے 1950-59 تک ڈائریکٹر جنرل رہے. I.S.I کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں واقع ہے.اسکا سربراہ حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے.اسکے ماتحت مزید 3 ڈپٹی ڈائریکٹر جنرلز کام کرتے ہیں بھارتی خفیہ ایجنسی” را” آئی ایس آئی کی دیرینہ مخالف ہے۔ لیکن فتح اکثر آئی ایس آئی کی ہی ہوئی ہے۔ آئی ایس آئی نے بھارتی فوجی حملوں اور خفیہ فوجی مشقوں کی فائلز اندرا گاندھی کی میز پر پہنچنے سے پہلے ہی اڑا لی تھیں۔ یوں بھارتیوں کے حملے سے پہلے ہی پاکستانی فوج ہوشیار ہوگئی اور مورچہ بندی کر لی۔ جس پر بھارتی فوج پیچھے ہٹ گئی۔(اس تحریر کیلئے گوگل سرچ انجن سے مدد لی گئی ہے )آئی ایس آئی جو کہ پاکستانی فوج کا ذیلی ادارہ ہے۔جس کا نشان مار خور ہے۔مجھے چند سال پہلے تک یہ بھی نہیں علم تھا کہ آئی ایس آئی میں کوئی سویلین بھی شامل ہوتا ہے یا نہیں۔ہمارے کچھ دانشور اپنی مکمل دانش کے ساتھ دن رات اس ادارے کے خلاف ناک کان منہ  سے دھواں اگل رہے ہیں۔کوئی واقعہ بھارت میں ہو یا پاکستان میں انکی تان خفیہ پر ہی ٹوٹتی ہے۔حتیٰ کہ اپنی گھریلو ناچاقیوں کا الزام بھی آئی ایس آئی پر لگا کے خود مطمئن ہو جاتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ مجھے کوئی کسی قسم کی نفسیاتی بیماری لاحق ہے یا کوئی دماغی مرض کا شکار ہوں۔ جب بھی کوئی الزام آئی ایس آئی پر لگایا جاتا ہے تو مجھے ایک عجیب سا دکھ محسوس ہوتا ہے۔جیسے میرے کسی اپنے پر الزام لگا دیا گیا ہو۔ اب جو بات میں کہنے جا رہا ہوں، ہو سکتا ہے میرے بہت سے دوستوں کو اس سے تکلیف پہنچے مگر میں سچ کہنے میں نہ کوئی شرم محسوس کرتا ہوں نہ جھجک۔ وطن عزیز کے سیاستدانوں کی اکثریت ان خانوادوں سے تعلق رکھتی ہے جن کی اپنی دھرتی سے غداری ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ پاکستان کے کل بھی مخالف اور غدار تھے آج بھی۔کل انکے آباواجداد جاگیروں وظیفوں کیلئے اپنی دھرتی اور قوم کے خلاف مخبریاں کرتے رہے۔آج یہ خود وہی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔جس ایجنسی نے را، موساد، خاد، سی آئی اے، کے جی بی جیسی ایجنسیاں آگے لگا رکھی ہیں اس کے لئے ہمارے حکمران اپنے ہم وطن ،ہم مذہب اور ہم زبان ورنگ سویلین کا جال بچھا رہے ہیں۔ مگر انکی خام خیالی ان شاء اللہ خام خیالی ہی رہے گی ۔کبھی انکے خواب شرمندہءتعبیر نہیں ہونگے۔ستر سال سے ان لوگوں نے ہر حربہ آزمایا مگر پاکستان کے فخر کو نیچا نہیں دکھا پائے۔پاکستانیو، یاد رکھنا یہ وہ مداری ہیں جو تماشائی کو ایک نیا سانپ دکھانے کا وعدہ کرکے اپنی ناقص دوائی بیچ کے چلتے بنتے ہیں۔ جب بھی کہیں فوج کے حق میں بات کرو تو کچھ لوگوں کے تن بدن میں آگ دہک اٹھتی ہے اور جمہوریت کا سانس رکنے لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت بہت اچھی آمریت سے ہزار گنا بہتر ہوتی ہے۔دوسرا رونا کہ جمہوری حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی۔بجا ہے تسلیم ہے مگر دانشورو صحافیو اور لکھاریو تم کو موبائل فون سے لے کر چینلز کی بھرمار تک سب ایک آمر کا دیا وردان ہے۔لگاتار دس سال سے جمہوری حکومت پاکستان میں عام شہری کا معیار زندگی معمولی سا بھی بلند نہیں کرسکی۔ہاں سیاستدانوں کے اپنے اثاثے تین لاکھ سے تین کروڑ اور تین کروڑ سے تین ارب کو چھونے لگے ہیں۔ سینکڑوں لوگ فوج اور اسکے اداروں پر طنز و تشنیع اور سب وشتم میں مصروف ہیں۔مگر کسی نے کبھی سیاستدان سے کبھی سوال نہیں کیا کہ تم ملک کی خارجہ پالیسی کو کیوں عضومعطل بنا کے بیٹھے ہو؟ جتنی سیاستدان کرسی سے محبت کرتے ہیں، اس سے ہزاروں گنا محبت فوج اور دوسرے سیکیورٹی کے لوگ بمعہ پولیس اپنےملک سے کرتے ہیں

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply