وہ ہزاروں نوجوانوں کا آئیڈیل تھا،
تحریریں ضمیر جھنجھوڑ دیتی تھیں،
اَب کچھ عرصے سے نہ اُس کے لفظوں میں اثر ہے،
نہ ہی لہجے میں کھنک رہی ہے۔۔۔
لوگوں سے اُلجھنا معمول بنا لیا ہے۔
میں سالار سے اپنے مشہور لکھاری کا ذکر کرتے ہوئے شدید دکھ اور افسوس کی حالت میں تھا۔۔۔
پہلے وہ آزاد صحافی تھا۔۔۔اَب ملازم ہے۔۔۔
اَب اُس نے قلم سیٹھ کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔
جس سے بھی سیٹھ کے مفادات کو نقصان پہنچے ، اُس سے الجھنا ہی اس کا کام ہے۔ ورنہ سیٹھ دام نہیں دیتا۔
سالار نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
(بصد معذرت، ایک بڑے لکھاری کی بے سروپا تنقید اس کہانی کے لکھنے کی وجہ بنی)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں