جاہل انسان.

میرا نام نذر محمد ہے، لوگ مجھے نذرا ریڑھی والا ہے کہتے ہیں، تین بچوں کا باپ ہوں، گھر والی سلامت ہے، اس چھوٹے سے خاندان کے ساتھ ماشاءاللہ اپنے ذاتی گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہا ہوں۔ اپنے والدین کا اکلوتا ہونے کی وجہ سے ان کی وفات کے بعد اس گھر کا بھی اکیلا ہی مالک ہوں۔ کاروبار میرا چھابڑی لگانا ہے، زیادہ تر فروٹ لگاتا ہوں، کبھی کبھار سبزی بھی لگائی ہے لیکن وہ مجھے راس نہیں آئی۔ بچے تینوں محلے کے سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں، میں خود پڑھ نہیں سکا، والدین نے شاید تعلیم کی اہمیت کا احساس نہیں کیا تھا یا ان وقتوں میں ہمارے گاؤں میں کوئی سکول ہی نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو گاؤں سے بہت دور۔ بہرحال تعلیم سے میرا واسطہ نہیں پڑا لیکن ہاں لین دین کے حساب لوگ مجھے بہت پکا کہتے ہیں۔ گھر والی کی کچھ تعلیم ہے، اسی لئے محلے کے بچوں کو قرآن پڑھاتی ہے، صبح قرآن پڑھنے ہمارے گھر میں بچوں کا رش لگا رہتا ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ تعلیم کے بہت فائدے ہیں، اس لئے میں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجا ہے۔ بڑے ہوکر اچھی نوکری کریں گے۔ میری طرح سے چھابڑی تو نہیں لگائیں گے۔ میرے محلے کے ملک صاحب میرے خیال میں بہت اچھے انسان ہیں لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بندہ کرپشن کرتا ہے۔ ٹھیکیداری ان کا کام ہے، مجھے کیا معلوم کہ یہ کرپشن کیا ہوتی ہے۔ سنا ہے ہمارے وزیراعظم نے بھی کرپشن کی ہے، اس سے جائیدادیں بنائی ہیں لیکن میں تو جب سے سنتا آرہا ہوں، یہ لوگ تو جائیداد والے ہی ہیں۔ محلے کی مسجد کے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ عزت اور ذلت اللہ دینے والا ہے، اس طرح وہ کسی کو دولت دے کر آزماتا ہے اور کسی کو غریب رکھ کر اور یہ بھی کہ غریب لوگ اللہ کے زیادہ پسندیدہ اور قریب ہوتے ہیں۔

تو بات میں کر رہا تھا محلے کے ملک صاحب کی۔ ہمارے ملک صاحب محلے کے کونسلر کے الیکشن میں اکثر کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دھاندلی کرتا ہے۔ میں نے کبھی پہلے ووٹ نہیں ڈالا تھا لیکن ایک دفعہ بازار میں پولیس والے نے میری چھابڑی الٹ دی تھی، وجہ یہ تھی کہ ان کو بھتا نہیں دے سکا تھا۔ مجھے پیسوں کی کچھ اچانک ضرورت تھی کیونکہ چھوٹے بچے کی بیماری کا مسئلہ تھا اور اسے ہسپتال میں لیجانا پڑ گیا تھا۔ کچھ دن تک چھابڑی بھی نہیں لگا سکا اور جس دن کام پر گیا، اس دن پولیس والے بابو جی نے پیسوں کا مطالبہ کیا تو میرے منت کرنے پر بھی اس نے فروٹ کی بھری ریڑھی الٹ دی۔ میرا بہت نقصان ہوا۔ کسی نے یہ خبر ملک صاحب تک پہنچا دی اور اللہ بھلا کرے ان کا، انہوں نے میری مالی مدد بھی کی اور ان پولیس والوں کے بھتے سے میری جان بھی چھڑوا دی۔ اس کے بعد سے جب بھی الیکشن ہوتے ہیں، میں ملک صاحب سے پوچھ کر ووٹ دیتا ہوں، جہاں اور جس کو وہ کہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بچوں کی تعلیم کے بعد نوکری دلوانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ ایک دفعہ میرا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا گیا تھا بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے جوکہ کام کے مندے ٹھنڈے کی وجہ سے ہوجاتا ہے تو ملک صاحب کے گھر کا دروازہ ہی کھٹکھٹایا تو انہوں نے مدد کی اور بجلی دوبارہ بحال ہوگئی تھی۔

آج کل پھر سنا ہے الیکشن قریب ہیں۔ ہمارے محلے میں بھی کافی جوش و خروش ہے۔ میں نے بھی رات ایک سیاسی اکٹھ میں محلے داروں کے کہنے پر شرکت کی۔ سنا تھا کہ وہاں ملک صاحب کے مقابلے والے تقریر کریں گے اور بعد میں کھانے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ محلے کی مسجد کے مولوی صاحب بھی وہاں موجود ہونگے، میں بھی چلا گیا۔ ایک نوجوان بڑی گرجدار تقریر کررہے تھے، غالباً کچھ جاہل عوام کے بارے میں فرما رہے تھے۔ میں جیسے جیسے سنتا گیا، اپنے آپ پر ایسا محسوس کرتا گیا کہ وہ جاہل عوام میں ہی ہوں۔ میں نے ہی اس ملک کو برباد کیا ہے۔ میری وجہ سے ہی کرپشن ہوتی ہے۔ میری بچوں کی وجہ سے اس ملک میں گندگی ہے۔ میں ہی ضمیر فروش ہوں۔ میں ہی خواتین کے حقوق کو غصب کرنے والا ہوں۔ میرے جیسے غیر مہذب لوگ ہی اس ملک کی ترقی کی رہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس نوجوان کی تقریر کا ایک ایک لفظ میرے دل پر تیر بن کر برس رہا تھا۔ واقعی میں ذہنی بھوکا انسان آج یہاں اس وقت بریانی کی پلیٹ کے عوض ووٹ دینے آیا تھا اور وہ نوجوان کہہ رہا تھا کہ ایسے جاہلوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ مولوی صاحب بھی فرمایا کرتے تھے کہ جاہل اور عالم کبھی برابر نہیں ہوسکتے لیکن اس وقت یہ بات مجھے سمجھ نہیں آتی تھی لیکن اب تو سب روشن ہوچکا تھا۔

میں سوچ رہا تھا کہ شاید ووٹ ہی ہے سارے فساد کی جڑ، ملک صاحب اسی لئے میری مدد کرتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے مجھ سےکبھی کبھی ہی سہی سلام تو کرتے ہیں۔ میری جو اوقات اور حیثیت ہے، اپنے گلی میں محلے میں وہ میں جانتا ہوں لیکن ووٹ سے جو میرے بعض اوقات کام ہوجاتے ہیں وہ بھی نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا لیکن یہاں تو مجھے ہی تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا تھا۔ آج مجھے اپنی اس ملک میں حیثیت اور ووٹ کی اہمیت کا بھی اندازہ بھی ہورہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں میں جاہل ہوں…. میں ضمیر فروش ہوں۔ میں ملک کی بربادی کا ذمہ دار ہوں لیکن ایک سوال میرا بھی ہے۔ میری اس جہالت اور پسماندہ ذہنیت کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کے جواب کے بعد مجھ سے میرے ووٹ کا حق بھلے چھین لینا۔

Facebook Comments

محمدمنشاء طارق
چوہدری محمد منشاء طارق ورک، مقیم ابوظہبی متحدہ عرب امارات. تعلق اسلام آباد پاکستان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply