مذہب اور سائنس کی بحث۔۔یاسر پیرزادہ

یہ بحث جتنی پرانی ہے اتنی ہی دلچسپ ہے ، دنیا میں جب بھی کوئی بڑی ایجاد ہوتی ہے ، خوفناک جنگ چھڑتی ہے ، وبا پھوٹتی ہے ، انوکھی تحریک چلتی ہے، نا گہانی آفت آتی ہے یازمانہ کروٹ بدلتا ہے تو اِس بحث کو گویانیا ایندھن مل جاتا ہے۔

صدیاں گزر گئیں مگر یہ بحث آج بھی اسی زور شور سے جاری ہے ،اہل مذہب کا ایمان ڈگمگایا ہے اور نہ سائنس نے ہار مانی ہے ۔سائنس کی تمام جادوئی ایجادات کے باوجود آج بھی دنیا کی سوا سات ارب آبادی میں سے چھ ارب مذہب کو مانتی ہے،

آج بھی امریکی صدر بائبل پر حلف اٹھاتا ہے اورآج بھی ڈالر پرلکھا ہے ’ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں ‘۔

کچھ سال پہلے برطانیہ ، جرمنی اور فرانس میںسائنس ، طب، انجینئرنگ اور تکنیکی شعبوںسے تعلق رکھنے والے تین ہزار افراد پر ایک سروے کیا گیا،یہ سروے نیٹ ورک برائے سائنس اور طب نامی ایک تنظیم نے کیا ،سروے میں سوال کیا گیا کہ کیا وہ مذہب میں یقین رکھتے ہیں تو 25% نے نفی میں جواب دیا جبکہ حیرت انگیز طور پر45% نے کہا کہ وہ مذہب یا روحانیت میں یقین رکھتے ہیں۔اسی طرح 2009میں امریکہ میں سائنس دانوں پر بھی ایسا ہی ملتا جلتا سروے کیا گیا تو معلوم ہواکہ ہر تین میں سے ایک سائنس دان خدا پر یقین رکھتا ہے جبکہ عام لوگوں میں یہ شرح 83%کے قریب تھی۔

نصف سے بھی کم سائنس دانوں نے کہا کہ اُ ن کی کوئی مذہبی وابستگی نہیں اور عام لوگو ںمیں سے یہ بات صرف 17%فیصد لوگوں نے کہی(دی گارڈین، 27اگست 2018)۔

جب سے کورونا وائرس آیا ہے مذہب اور سائنس کی بحث پھر سے انگڑائی لے کر بیدار ہو گئی ہے بلکہ ہمارے ہاں تو یہ خلط مبحث بن کر رہ گئی ہے ۔اہل مذہب کو یہ غلط فہمی ہے کہ سائنس کی ہر ایجاد مذہب کے خلاف ایک قسم کااعلان جنگ ہوتی ہے ، سو پہلے تو وہ ہر نئی سائنسی دریافت میں سے کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے مختلف نقصانات گنواتے ہیں اور اگر بات نہ بنے تو پھرخواہ مخواہ اُس دریافت کو مذہب کے مقابلے میں لا کھڑا کرتے ہیں، کورونا وائرس کے معاملے میں یہی ہو رہا ہے ، اہل مذہب سائنس دانوں کو جتلا رہے ہیں کہ کیسے خدا نے ایک چھوٹے سے جرثومے کے ذریعے انسان کو اُس کی اوقات یاد دلا دی ہے ۔دوسری طرف سائنس کے پجاریوں کا رویہ بھی مختلف نہیں ،وہ مذہب کے ماننے والوں پر پھبتیاں کس رہے ہیں اور انہیں طعنے دے رہے ہیں کہ سائنس نے تو فلاں فلاں ایجاد کی ، دوا بنائی ، تھیوری دی ،مذہب نے اِس کے مقابلے میں انسانیت کے لیے کیا کام کیا!یہی خلط مبحث ہے۔

سائنس کی ہر ایجاد مذہب کے خلاف اعلان جنگ نہیں ہوتی اور نہ ہی مذہب کی تعلیمات ہمیشہ سائنس کے خلاف کوئی مقدمہ ہی بناتی ہیں ۔مثلاًسائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اِس کرہ ارض میں 78%نائٹروجن اور 21%فیصد آکسیجن ہے جو زندگی کے لیے ضروری ہے جبکہ مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ یہ زندگی ہمیں گزارنی کیسے ہے۔

چند دن پہلے اِس بندہ ناچیز نے عرض کیا تھا کہ یہ کائنات طبعی اصولوں پر چلتی ہے ، یہ اصول آفاقی ہیں اور ہر کسی پر یکساں لاگو ہیں ، جیسے نیوٹن کے قوانین حرکت ویٹیکن سٹی میں بھی اتنے ہی موثر ہیں جتنے مسجد اقصیٰ میں ۔

آج جب کلیسا، مسجد ،مندرسب کورونا وائرس کی وجہ سے احتیاطاً عارضی طور پر بند کر دیے گئے ہیں تو اِس کا یہی مطلب ہے کہ وائرس نے کسی کے ایمان کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرنابلکہ طبعی اور آفاقی اصولوں کے تحت چلنا ہے۔

اسی لیے پوری دنیا میں مذہب کے پیروکاروں نے اپنی اپنی عبادت گاہیں بند کر دی ہیں اور صرف عبات گاہیں ہی نہیں شراب خانے ، جوئے خانے ، ریستوران ، کیفے، میوزیم ، سینما،اسٹیڈیم اور عیاشی کے اڈے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ جنگ مذہب اور سائنس کی نہیں ، یہ انسانیت کی بقا کی جنگ ہے ۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وائرس خدا کا عذاب ہے ، بعض احباب کا خیال ہے کہ عذاب نہیں بلکہ تنبیہ ہے اور کچھ اسے خدا کی طرف سے پیغام سمجھتے ہیں ۔

جہاں تک عذاب کا معاملہ ہے تو اِس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ، قرآن اور حدیث کے حوالوں سے مختلف علمائے کرا م یہ بحث کر چکے کہ اِس قسم کی وبائیں خدا کاعذاب نہیں ہوتیں کیونکہ قوموں پر عذاب صرف اُس صورت میں نازل کیا جاتا تھا جب وہ خدا کے بھیجے گئے پیغمبر کی صریحاً نا فرمانی کا ارتکاب کرتی تھیں اور ایسا عذاب نازل کرتے وقت اللہ تعالیٰ پہلے اپنے نیک بندوں کو بچا لے جاتا تھا ۔

قرآن مجید میں جا بجا اس عذاب کا ذکر ہے ، مثال کے طور پر حضرت نوحؑ ، حضرت شعیبؑ اور حضرت لوطؑ کی بابت آیات قرآن میں پڑھ لیں جہاں واضح انداز میں یہ بات لکھی ہے ۔جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ یہ خدا کی طرف سے تنبیہ یا انسان کے لیے ایک قسم کا پیغام ہے جسے سمجھنا چاہیے تو یہ بات کچھ مبہم ہے کیونکہ ہمیں یہ علم نہیں کہ کون سی وبا یا آفت کس درجے کی ہو تو اسے تنبیہ سمجھنا ہے اور کب اسے پیغام کا نام دینا ہے ،تاہم اہل مذہب تسلیم کرتے ہیں کہ وجہ چاہے جو بھی ہو خدا نے ہمیں کسی بھی وبا ، مرض یا آفت کا تدارک کرنے سے نہیں روکا۔

انسان کو تدبیر بھی کرنی چاہیے اور دعا بھی مانگنی چاہیے۔اِس مرحلے پر سائنس اور مذہب کا اختلاف تھیوری میں تو ختم ہو جاتا ہے مگر حقیقت میں جاری رہتا ہے اور اِس کی وجہ بہت دلچسپ ہے۔وجہ یہ کہ ہم نے اپنے مذہب کی دعا والی بات تو پلے سے باندھ لی ہے مگر تدبیر والی بات بھول گئے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ محض دعا سے ہی کام چل جائے گا ،جبکہ سائنس دان تدبیر میں لگے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہب اور سائنس کی خلیج بڑھ گئی ہے اور ہم اسے ایک دوسرے کی ضد سمجھنے لگے ہیں ۔

خدا علم بھی اسی کی جھولی میں ڈالتا ہے جو اُس کا طالب ہوتا ہے جبکہ ہم اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں ،علم کے لیے جھولی ہی نہیں پھیلاتے ،سائنس کے طلب گار ہی نہیں ،حالانکہ ہمارا تو مذہب ہی ’اقرا‘ سے شروع ہوتا ہے۔

اِس حکم پر عمل نہیں کر رہے اسی لیے دنیا میں در بدر ہیں اور منہ اٹھا کر غیروں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب وہ کورونا کا علاج دریافت کریں اور پھرہم کہہ سکیں کہ یہ تو فلاں مسلمان سائنس دان نے گیارہویں صدی میں پہلے ہی دریافت کر لیا تھا !

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply