کَٹے اور بَچھے۔ جاویدخان

کَٹا بھینس کالاڈلا بچہ ہوتا ہے اور بَچھہ گائے کا چہیتا۔جب تک کوئی بھینس کَٹا نہیں دے گی تو وہ دُودھ نہیں دے گی،بالکل ایسی ہی ضد گائے کی ہے۔دونوں کا دُودھ کَٹے او ر بَچھے سے لگا بندھا ہے۔حالانکہ کَٹے اور بَچھے (بچھڑا)کے علاوہ کَٹی اور بَچھی (مونث) بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں۔بلکہ بہت زیادہ رکھتی ہیں۔کیوں کہ کَٹی (مونث) بڑی ہو کر بھینس بن جاتی ہے اور بَچھی بڑی ہو کر گائے ہوتی ہے۔پھر دونوں اپنی اپنی ماں کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے دُودھ دیتی ہیں۔جب تک کَٹے، کَٹیاں اور بَچھے،بَچھیاں آتے رہیں گے دُودھ بھی آتا رہے گا۔کَٹے اور بَچھے بھی کُچھ کم نہیں کَٹے بڑے ہو کر بھینسے بنتے ہیں جبکہ بَچھے بڑے ہو جائیں تو بیل ہو جاتے ہیں۔

پہلے وقتوں جب زمانہ جدید نہ ہوا تھا مشین نے انسان کی جگہ ابھی نہیں لی تھی تو بیل کھیتی باڑی،رہٹ کھینچنے اور بیل گاڑی چلانے کاکام بخوشی کرتے تھے۔یہ مشکل کام وہ عادتاً بھی انجام دیتے رہے کبھی کبھار مجبوراً! بھی۔کسی کَٹے نے بڑے ہو کر بھینس گاڑی چلانے کی رِیت نہیں ڈالی۔بَس یہی اِک بات بیل اور بھینسے کو ایک دوسرے سے مُمتاز کرتی ہے۔

ہمارے پُرانے بزرگوں جو کافی پُرانے دور سے تھے۔اپنے زمانے میں بھینسے اور بیل لڑایا کرتے تھے۔جس کا بھینسا ہار جاتا وہ اُسی دَم ذبح کرتا اورلوگوں میں بانٹ دیتا۔بھینسے یا بیل کا ہارنا عزت کا ہارنا تھا۔ا۔چھی شکل کا بھینسا اور بیل اس لیے بھی اَفادیت رکھتے کے وہ خُوش شکل نسل کو آگے بڑھانے میں ہر دَم تیار رہتے تھے۔بیل کھیتوں میں کسان کے ہانکنے پر یاپھر پچکارنے پر مَست ہوتے آن کی آن میں کھیت،کھیلیان ہو جاتے۔بیلوں کو پچکارنے،ہانکنے اور چلانے والے جوانوں اور خانوں کو آج ہماری زمینیں سسک رہی ہیں۔ہل کی ہتھی پکڑکر ہل زمین میں دبانے والے جوان اورپھر اُس زور کو زمین کا سینہ چیرکا کھینچے جانے والے بیلوں میں اور آج کے بَچھوں اور جوانوں میں کیا مقابلہ۔

دوسے تین سالہ بَچھے کو ہل چلانے کی عادت ڈالی جاتی تھی کیونکہ اُس کہ فن کار اَبا نے اِس مٹی سے لہلہاتی فصلیں اُگائی تھیں اور کسان کو کئی ایک خُوبصورت بَچھے،بَچھیاں بھی دیے تھے۔بَچھیاں جو گائے کی ہمیشہ چُلبُلی بیٹیاں رہی ہیں کو سُگھڑ بنانے کے لیے کبھی زیادہ محنت نہ کرنا پڑی تھی۔بھینس،بھینسے اور اُن کی ساری آل اولاد تالابوں جوہڑوں میں کُودنے اور لَت پَت ہونے میں کبھی نہیں شرماتی ہے۔بلکہ پورا خاندان تیراکی سے لُطف اندوز ہوتا ہے۔بھینس   خاندان اُسی تالاب میں نہاتا،پیشاب کرتا اور وہی پانی پی کر تازہ دَم ہشاش بشاش ہو جاتا ہے۔گائے خاندان تالاب کے کنارے اس تفریح پہ حیران پریشان،آنکھیں پھاڑے کھڑا رہتا ہے۔تالاب میں گارا،کیچڑ اوربھینس خاندان کے بیشاب کی بُو رہ جاتی ہے۔مگر بھینس اور اُس  کی شرارتی کَٹیاں تالاب سے باہر نکل کر آنکھیں مَٹکاتی،مُسکاتی چوکڑیاں بھرتی اپنے ساتھ تھوپے گارے کو دیکھ کر گو یا اداء خاص سے کہتی ہیں۔دیکھا ہمارا میک اَپ۔!

بھینس اور گائیں اپنے بَچھڑؤں اور کَٹوں کو پہلے پہلے دِنوں خُوب میک اَپ کراتی ہیں۔زبان سے چاٹ چاٹ کر بال سنوارتی ہیں۔اتنی کنگی کرتی ہیں کہ جی نہیں بھرتا۔پھر کرتی ہیں اور پھر بار بار کرتی ہیں۔ہمارے ہیر ڈریسرؤں کا بالوں کو جَل لگانا دراصل   اسی صدی کی چُرائی گئی ٹیکنالوجی ہے۔اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ گائے بھینسوں میں بھی زمان و مکان کی قید سے آزاد دیکھنے کی صلاحیت ہے۔اور کبھی کبھی اس آزاد کیفیت میں کیا کچھ کر سکتی ہیں۔البتہ گائیں یا بھینسیں یہ پارلری صرف اپنے ہی بچوں پہ آزماتی ہیں کسی دوسری کے بچے پہ آزمانے کی کوشش نہیں کرتیں۔

بھینسوں کوگوبر میں بیٹھنا  کبھی بُرا نہیں لگتا۔بہت زیادہ کام کوئی بھینس نہیں کر سکتی اسی لیے کَٹیاں بھی حفظان صحت کے اُصول پائے حقارت سے ٹھُکرا کر بَس میک اَپ پہ تو جہ دیتی ہیں۔کَٹے اپنے جَل لگے بالوں پہ اِتراتے پھرتے ہیں۔بَچھوں کا کام کھتی باڑی تو رہا نہیں۔کسی قُربانی کے انتظار والی بات ہو سکتی ہے۔ضروری نہیں کہ ہر بھینس کالی ہو سُرخ بھی ہوتی ہیں۔سفید نایاب ہیں۔البتہ جدید سائنس کالے کو سفید کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔پہلے کَٹے بَچھے دیسی خوراک کھاتے تھے اَب کھاد ملی کھاتے ہیں۔کسی کا صحت مند ہونے کی تصدیق محاورۃً اُسے ”ہٹا کَٹا“کہہ کر کی جاتی تھی۔اس سے کَٹوں کی صحت اور زور آوری کااندازہ ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر جدید دُور میں گنگا اُلٹی بہنے لگی ہے۔جو جتنا ہٹا کَٹا ہے وہ اتنا ہی بیمار ہے۔بھینسا کبھی دُودھ نہیں دیتا مگر ہماری پہاڑی بولی کے کسی محاورے میں ایسی کرامت کبھی کبھی ہو جاتی ہے۔”سنڈے نے دُودھ دیا“ یعنی سخت کنجوس نے اک آنا دیا۔یا کہیں ناممکن کا ممکن ہوا۔مگر کبھی کسی کَٹے یا بَچھے کے متعلق دُودھ دینے کا محاورہ ہماری زبان میں نہیں آیا۔دُودھ تو کَٹیاں بھی نہیں دیتی وہ تو صرف میک اَپ کرتی،مُسکاتی اور اِتراتی رہتی ہیں۔بَس نظر نہ لگے۔رہی بات کَٹوں اور بَچھوں کی تو وہ کسی سے پیچھے کیوں رہیں۔بالوں کو سنوارتے،جَل،کاجل،سفیدی لیے پھرتے ہیں۔ضرور پھریں ہماری بلا سے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply