این میری شمل،گوئٹے انسٹیٹوٹ اور جرمن زبان (تیسری قسط)

این میری شمل،گوئٹے انسٹیٹوٹ اور جرمن زبان (تیسری قسط)
احمد رضوان
سیالکوٹ کا ایک اکہرے بدن والا لمڈا جواپنی طوطا ناک اور عقابی نگاہ کی وجہ سے سب کی آنکھ میں کھٹکتا تھا۔ مردہ چمڑے کا بیوپار ، زندہ چمڑے کا طلبگار اور امیدوار ویزا برائےکاروبار۔اپنے مخصوص سیالکوٹی لہجے سے جڑمن زبان کی روز ٹانگیں توڑتا تھا۔اپنے رنگین اور سنگین ناکام معاشقوں سے ہم سب کنواروں کا خون گرمائے رکھتا جیسے چونڈہ کے محاذ پر جنگِ جذبات چل رہی ہواور ہم اسلحہ بکف اٹینشن اور ٹینشن میں رہتے۔مشہور زمانہ سیالکوٹی محاورہ کی نسبت سے اس کو اسی پالتو اور فالتو پرندے کے نام سے مخاطب کیا جاتا تھا جو اپنی بانگوں سے پیر مبشر زیدی کی راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کیے رکھتا ہے۔ایک اور انجینئر صاحب تھے جو ایک مشہور سرامک ٹائل بنانے والی فرم میں جاب کرتے تھے اور کمپنی کے خرچ پر بزنس ٹور پر جرمنی کا چکر لگا آئے تھے اور اب مزید بزنس کے رابطوں اور سہولت کی غرض سے جرمن سیکھنے کے لئے کلاس میں آتے تھے ۔آپ کے تازہ تازہ جرمن پلٹ تجربات بھی ہم ناکتخداؤں کو مائل بہ رذائل رکھتے تھے۔ایک جرمن ادب کا شائق سلمان نامی عبقری بھی تھا جو جرمن زبان نطشے اور گوئٹے کی تصنیفات بہتر انداز میں سمجھنے کے نقطہ نظر سے سیکھ رہا تھا ،نستعلیق، معنک اور اور اپنے آپ میں منہمک ۔اوپر سے شانت اور اندر سے علم سے لبالب ،جب بولتا تو پتہ چلتا تھا اس علم کےسمندر کی گہرائی اور گیرائی کتنی ہے۔ طلبِ علم کی اصلی تڑپ اسے مجسم صورت میں دیکھ کر دل میں بیدار ہوجاتی تھی

آئے دن ایک نیا تماشا لگتا کلاس میں ، جب انگلش یواور او کے مقابل جرمن دو نقاطی یوو (ü)اور او (ö)منہ ٹیڑھا کرکےمیونخ کو موینشن پڑھا جاتا تو عجیب سی شکل بن جاتی ۔ڈی کو ٹی اور جی کو ش پڑھا جاتا ۔کلاس سےواپس آکر یہ سمجھ نہ آتی کہ انگلش بول رہے ہیں یا جرمن مکس کرکے ہوسٹل کے عملے کو چائے کا آرڈر دے رہے ہیں اور اگلا بندہ حریان کھڑا دیکھ رہا ہوتاشائد زیادہ پڑھ پڑھ کربابو سے یابو(فارسی میں خر اور لاہوریوں کا من بھاتا کھا جا) بن گئے ہیں اور جوانی کی گرمی دماغ کو چڑھ گئی ہے ۔جب امتحان سر پر آئے تو اورل امتحان میں سب لولی لنگڑی جرمن سنا کر واجبی نمبروں سے پاس ہوئے مگر تحریری امتحان میں سب نے پیر بوٹی شاہ کا کھل کھلا کر استعمال کیا ۔امتحان والے دن ہمارےسیالکوٹی کلاس فیلو خوش قسمتی اور ہماری بدنصیبی نشست ساتھ ساتھ تھی اور ممتحن جانتے بوجھتے انجان بنی سب دیکھ رہی تھی ،پرچہ ملٹی پل چوائس ، مختصر سوالات اور خالی جگہ پر کرنےوالےسوالات پرمشتمل تھا ۔ اشاروں اشاروں میں کچھ کہنے سے بھلا کہاں کام چلتا ،ہماری قوم ویسے بھی اس مقولے کی بہت بڑی فین ہے کہ علم بانٹنے سے بڑھتاہے بشرطیکہ اسے امتحان گاہ میں شیرینی کی طرح بانٹا جائے۔ نالائقی کی انتہاملاحظہ ہو جب سرگوشی میں اسے خالی جگہ پر کرنے کے لئےممتحن سے نظر بچا کر جواب بتاتا تو اگلا سوال ہوتا ہجے اورتلفظ بھی بتاؤ تو دل کرتا پرچہ اور کرتا پھاڑ کر صحرا کی طرف نکل جاؤں یا اچھرے والی نہر میں چھلانگ لگا دوں مگر نہر کا گدلا اور گندا پانی اپنے پراگندہ خیالات سے بھی ذیادہ میلا ہوتا تھا اس لئے اس کی دامے درمے کی بجائے سخنے مدد کرنے میں ہی عافیت جانی۔خیر سب نے بقدر اپنی اپنی ہمت کے مطابق نمبر لے کر شاندار طریقے سے درجہ اول مکمل کیا اور ڈپلومہ وصول کرتے ہوئے کیمرہ کی طرف دیکھتے ہوئے خوب دندیاں نکالیں اور ایک دوسرے سے مبارکبادیاں بٹوریں۔

اسی جرمن زبان کے استعمال کا ایک مزے دار واقعہ یاد آگیا ، جب زرا جرمن رواں ہوگئی مطلب ابتدائی درجے سے آگے کھسک گئے(شکر ہے خود نہیں کِھسکے) تو تینوں دوست ایک دن سردی کی آمد آمد پر پرانی انارکلی کی اس تنگ گلی میں گھس گئے جہاں بابو لوگوں کے لئےولایت سے درآمد شدہ برانڈڈ کوٹ ارزاں نرخوں پر دستیاب تھے .بس اصل معرکہ یہ ہوتا تھاکہ آپ نے کس مہارت سے اس کی قیمت کم کروا کر اپنے تئیں اسے پٹھان سے ہتھیا لیا۔ دونوں پارٹیوں میں مقابلہ پڑ جاتا تھا ،مال بیچنے اور قیمت کم کرواکر سودا پٹانے والوں میں اورجس کے آخر میں دونوں فریق یہ سمجھتے ہیں ہم نےفریق ثانی کو لوٹ لیا، دکاندار پشتو میں اپنے سیلز مین کے ساتھ قیمت ڈسکس کرتا اور ہم تینوں کوٹ دیکھ کر جرمن زبان میں اس کی قیمت طے کرتے وہ پٹر پٹرہماری طرف دیکھتے یہ کون سی زبان بول رہے اور پھر ہم ان کی طرف جواباََ تکا کرتے ۔اس کے بعد یہ ہوتا کہ جرمن ہماری خفیہ زبان بن گئی ہر اس جگہ پر جہاں اندیشہ نقص امن کے سبب اپنی مادری زبان کا استعمال خجل خوار اور مار کا سبب بن سکتی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

گوئٹے انسٹیٹوٹ صرف ایک علمی درس گاہ کا ہی نام نہیں ہے،یہ ایک ایساتہذیبی اور ثقافتی مرکز ہے جو گھٹن ذدہ معاشرے میں ایک نخلستان کا وجود رکھتا ہے ، جہاں علم بانٹنے کے ساتھ ساتھ تمام ثقافتی سرگرمیوں کے بارے بھی پتہ چلتا رہتا ،گاہے گاہے انسٹیٹوٹ کے تعاون یا اشتراک سے ایسے خوبصورت پروگرام ترتیب دیے جاتے جہاں سکھلائی کے سارے مواقع موجود ہوتے۔ہر ہفتے انسٹیٹوٹ کے ہال میں یورپین فلموں کو اسکرین کیا جاتا جو ایک نہایت عمدہ سلسلہ تھا کہ ان فلموں کو آپ ویسے کہیں اور اتنی آسانی سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آن لائن اور انٹرنیٹ کا زمانہ ہنوز دلی (دال پر زبر اور لام پر شد دے کر لطف اٹھائیے)دور است تھا اور جو انگلش فلمیں پاکستان آتی تھیں، زیادہ تر ہالی وڈ کی ایکشن موویز ہوتی تھیں اس اکثریتی طبقے کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے جو سجنیدہ،آرٹ فلموں کو تضیع اوقات سمجھتا ہے۔
رفیع پیر تھیٹراور اجوکا تھیٹر کےاسٹیج اور اسٹریٹ ڈراموں کی ریہرسل تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ۔سرکاری ٹی وی کے ڈراموں میں کام کرنے والے بے شمار فنکار جن میں سے کچھ اداکارئیں جو اب یادرہ گئی ہیں وجہ صاف ظاہر ہے کہ کیوں، ان میں انیتا کیمفر، سویرا ندیم، مدیحہ گوہر، فریال گوہر اور دوسرے کتنے فنکار وں کا دیدار پردہِ سیمیں سے باہریہیں پہلی بار ہوا اور ان بڑے لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوشی ہوتی کہ سچا فنکار بےریا اور حساس ہوتا ہے اور درد بھرا دل رکھتا ہے۔لاہور ایک علم، ادب اور ادیب پرور شہر ہے اور اس میں ہونے والی ادبی تقریبات یقیناََ مضافات میں رہنے والوں کے لئے ایک خصوصی کشش رکھتی ہیں۔اور اگر آپ کو ان ادبی اور ثقافتی تقریبات میں شرکت کا موقع مل جائے تو جو کتابی علم آپ کو سارے سال کے سلیبس سے سیکھنے کو نہیں ملتا ،چند نشستوں میں آپ اس سے ذیادہ اکتسابی علم حاصل کر لیتے ہیں۔
جاری۔۔۔۔۔
(اگلی قسط میں اختتام کی پوری کوشش ان شااللہ)

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply