فاٹا کے انضمام کا ایشو اور چند غلط فہمیاں۔ایمل خٹک

جب سے حکومت کی نامزد کردہ فاٹا ریفامز کمیشن کی سفارشات سامنے آئی ہیں اس کے بعد فاٹا کی اصلاحات اور خاص کر فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام کے حوالے سے سیاسی کارکنوں میں گرما گرم بحث و مباحثہ شروع ہے ۔ انضمام کے ایشو کے حوالے سے کافی غلط فہمیاں بھی موجود ہیں  ۔ بعض سیاسی کارکن اپنی  سیاسی رقابتوں اور تعصبات کی وجہ سے کئی حقائق کو نظرانداز کررہےہیں۔ فاٹا کے  صوبے میں انضمام کی حمایت یا مخالفت ہر فرد کا حق ہے۔ یہ ایک سیاسی ایشو ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ سیاسی اختلاف رائے اور ذاتی دشمنی میں فرق سمجھنے سےقاصر نظر آتے ہیں ۔ اور سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی سے  تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کا انداز بیان اور لہجہ سیاسی سے زیادہ ذاتیات پر مبنی نظر آتا ہے۔ اور ان کا یہ طرزعمل ان کے سب سے زیادہ سیاسی طور پر باشعور اور تربیت یافتہ کارکن ہونے کے ان کے دعوؤں کی بھی نفی کرتی ہے۔

اس مضمون کا مقصد انضمام کی اچھائی یا برائی بیان کرنا نہیں اگرچہ راقم انضمام کے حق میں ہے بلکہ انضمام کے ایشو کے حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ اور اس کو صحیح تناظر میں دیکھنا ہے ۔ سب سے پہلی غلط فہمی تو یہ ہے کہ قبائلی عوام انضمام نہیں چاہتے ۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ انضمام کا ایجنڈا اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا ہے ۔ تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ اس سے قبائل کی آزادی سلب ہوجائےگی اور وہ غلام بن جائیں گے۔

انضمام کے حوالے سے چند نکات درج ذیل ہیں ۔
ایک  تو یہ کہ  ایشو نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔ یہ ایشو کسی اور کا نہیں بلکہ فاٹا کا سراسر داخلی ایشو ہے اور فاٹا میں اس حوالے سے وسیع افہام و تفہیم موجود ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ مخالفت بھی ہے ۔ مگر فاٹا میں سرگرم عمل زیادہ تر سیاسی جماعتیں اور قبائلی سیاسی کارکن کچھ عرصے سے اس ایشو کو اٹھا رہے ہیں ۔

دوسرا یہ ایشو کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ کئی سیاسی جماعتوں کا مشترکہ   ہے. فاٹا اصلاحات کا مطالبہ قبائلی عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے ۔ اور اس مطالبے میں بندوبستی علاقوں کے سیاسی اور سماجی کارکنوں نے بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اس کو سیاسی حساب برابر کرنے کے لیے صرف اے این پی کا ایشو قرار دینا زمینی حقائق سے روگردانی ہے ۔ ملک کی دس بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل مشترکہ کمیٹی برائے فاٹا اصلاحات کا 2010 میں قیام ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کمیٹی جس میں پاکستان مسلم لیگ ( نواز) پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، قومی وطن پارٹی، جمعیت علماء اسلام ( ف) ، متحدہ قومی موومنٹ ، مسلم لیگ ( ق) اور نیشنل پارٹی شامل تھی نے اکتوبر 2013 میں گیارہ نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا پیش کیا۔ اصلاحات کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کے سلسلے میں ایک اور بڑی کامیابی دسمبر 2014 میں منظور شدہ بیس نکاتی قومی منصوبہ عمل بھی تھا جس کا بارہواں نکتہ فاٹا میں اصلاحات کے بارے میں تھا۔

اس طرح اس کمیٹی کے بعد قبائلی سیاسی راہنماؤں پر مشتمل آل فاٹا پولیٹیکل الائنس بھی بنی۔ فاٹا پولیٹیکل الائنس نے اپنے مطالبات بشمول فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے  لیے مختلف سیاسی جماعتوں کو ہمنوا بنانے کے لیے سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے دورے بھی کیے اور مختلف سیاسی راہنماؤں سے رابطے کیے آل فاٹا پولیٹیکل الائنس نے تقریباً تمام قبائلی علاقوں اور بندوبستی علاقوں میں اپنے مطالبات کے حق میں پرامن ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کیا ۔ مثال کے طور پر چھبیس دسمبر 2015 کو باجوڑ اور جنوری 2017 میں خیبر ایجنسی میں بڑی ریلی نکالی گئی ۔ اس طرح الائنس نے سولہ نومبر 2015 کو ڈی چوک اسلام آباد میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاھرہ کیا ۔ جس میں تمام قبائلی علاقوں سے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

قبائلی علاقوں میں سیاسی بیداری کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ نے نو ستمبر 2015 کو فاٹا میں اصلاحات کے لیے بائیسویں آئینی ترمیم پیش کی ۔ اس آئینی ترمیم میں جس کو اکثریتی فاٹا اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل تھی قبائلی علاقوں کے ضم ہونے کی بات کی گئی تھی۔ اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر وفاقی حکومت نے نومبر 2015 کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی فاٹا اصلاحات کمیٹی تشکیل دی اور اس کو اصلاحات تجویز کرنے کی ذمہ داری دی ۔ اس طرح چوبیس اگست 2016 کو فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے حکومت کی مقرر کردہ ریفارمز کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کی جس میں کمیٹی نے اراکین پارلیمنٹ کے پانچ نکات کو مان لیا۔ جس میں قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کا نکتہ بھی شامل تھا۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں کچھ قبائلی اراکین پارلیمنٹ کا موقف تبدیل ہوا۔

انضمام کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ( ف) کر رہی ہے۔ فاٹا گرینڈ الائنس جو روایتی مالکان اور پولیٹیکل انتظامیہ کی ہمنوا شخصیات پر مشتمل ہے بھی انضمام کی مخالفت کررہی ہے ان میں سے کئی مالکان ماضی میں سیاسی اصلاحات اور سیاسی سرگرمیوں کی مخالفت میں میں پیش پیش رہے ہیں ۔

تیسرا یہ تاثر کہ شاید انضمام کا مطالبہ کسی اور جانب سے یا اسٹیبلشمنٹ نے فلوٹ کیا ہے بھی بالکل غلط ہے کیونکہ یہ ایشو بنانے اور اٹھانے میں خالصتاً  قبائلی سیاسی کارکنوں ، راہنماؤں اور دانشورں کا اہم رول رہا ہے۔ اس ایشو کو ایشو بنانے ، اجاگر کرنے اور زندہ رکھنے کے پیچھے لمبی تاریخ ہے ۔ سب سے پہلے فاٹا کی اصلاحات اور حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں میں پشتون قوم پرست جماعتوں کا نام آتا ہے ۔ قوم پرست جماعتوں اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بیشمار پریس کانفرنسوں ، سیمینارز ، جرگوں ، اور ریلیوں کے ذریعے اس ایشو کو اٹھایا ہے اور اس کو قومی مباحث اور قومی ایجنڈے پر لانے میں اہم رول رہا ہے۔

اس سلسلے میں قبائلی دانشوروں اور کارکنوں کی مختلف تنظیموں جیسے تحریک اتحاد قبائل ، فاٹا یونین آف جرنلسٹ ، فاٹا لائیرز فورم، امن تحریک ، پختونخوا اولسی تحریک وغیرہ کے علاوہ بعض غیر سرکاری تنظیموں جیسے شہید بھٹو فاؤنڈیشن ، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان ،ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان ، عورت فاؤنڈیشن، سنگی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن ، ادارہ استحکام شرکتی ترقی وغیرہ کا بھی اہم کردار رہا ہے ۔

اگر شہید بھٹو فاونڈیشن نے اصلاحات کے مسئلے پر مشترکہ ایجنڈا بنانے اور اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تو دیگر ملکی غیر سرکاری تنظیموں نے قبائیلی کارکنوں کو اپنےمسائل کی نشاندہی ، اسے اجاگر کرنے اور عوام کو متحرک کرنے کے لیے ضروری استعداد کاری اور تربیت فراہم کی اور قبائلی کارکنوں کی حقوق کے بارے میں بالعموم اور اصلاحات کے حوالے سے بالخصوص آگاہی اور بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فاٹا ریفارمز کمیٹی نے اگر اس مطالبے کو اپنی سفارشات میں شامل کیا ہے تو یہ قبائلی عوام کے مطالبے کی بدولت ہوا ہے۔ یہ ایشو پولیٹیکل ڈس کورس یعنی سیاسی مباحث کا حصہ بن جانے کے بعد فاٹا ریفارمز کمیٹی بھی اس مطالبے کو نظر انداز نہ کرسکی اور اس کو سفارشات میں شامل کیا ۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا انضمام پر کیا موقف ہے اور کیا نہیں ۔ میرے کچھ عزیز دوستوں کے دعوے ایک طرف وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ جو خود بھی فوج میں اہم عہدوں پر رہےہیں اور فاٹا کو بھی دیکھ رہے ہیں کے ایک پالیسی بیان کا حوالہ دینا چاہتا ہوں ۔ امسال بیس جولائی کو سینٹ میں فاٹا اصلاحات پر تحریک کا جواب دیتےہوئے وفاقی وزیر سفیران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فوج نے فاٹا کو بغیر مرکزی دھارے میں لائے بغیر ضم کرنے کی مخالفت کی ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ فوج نے کسی مرحلے پر فاٹا اصلاحات کی مخالفت نہیں کی۔ اس بیان نے ان زیر گردش  افواہوں اور اطلاعات پر مہر ثبت کردی کہ فوجی قیادت موجودہ صورتحال میں انضمام کے حق میں نہیں۔ مختلف جماعتوں کی آپس کی اختلافات اور رقابتیں ایک طرف مگر فاٹا میں اس اصلاحات کے عمل کو کسی فرد یا ریاستی ادارے سے منسوب کرنا یا ان کو کریڈٹ دینا میرے خیال میں انتہائی زیادتی کی بات ہوگی ۔

یہ بات کہ فاٹا آزاد ہے غلط ہے۔ جس فاٹا کو میں جانتا ہوں وہ تو پاکستان کی عملداری میں شامل ہے۔ بالواسطہ کمزور سہیں مگر وہاں پاکستان کی عملداری اور قانون رائج ہے۔ کسی ساتھی نے میری اس بات کے جواب میں کہ قبائلی علاقے اس وجہ سے آزاد نہیں کہ اس کی اپنی کرنسی ، نصاب تعلیم اور گورنس کے اپنے منتخب ادارے نہیں یہ دلیل بھی دی کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا اپنا جھنڈا اور اسمبلی ہے پھر بھی وہ آزاد نہیں ۔ فاٹا کا آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان سے موازنہ بے جا اس وجہ سے ہے کہ ان علاقوں میں ٹوٹی پھوٹی  ہی سہی منتخب کونسل ، عدلیہ اور سیلف گورننس کے دیگر ادارے موجود ہیں۔ جبکہ فاٹا میں اس قسم کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔

کچھ دوستوں نے فاٹا کی مماثلت چین کی برطانیہ کو ہانگ کانگ لیز پر دینے اور واپس لینے سے دی ۔ لیز پر دینا اور لینا ایک کارباری سودا ہے جبکہ ڈیورینڈ ایک دوطرفہ سیاسی معاہدہ ۔ کسی نے برطانوی دور میں موجود ریاستوں کی حیثیت کو فاٹا سے مماثل قرار دے دیا ۔ دیر، چترال ، سوات وغیرہ نیم خودمختار ریاستیں تھیں  جو انگریزوں کے اثر سے باہر نہیں تھی۔ پانچ سو سے زائد ریاستوں میں انگریز فوج یا اس کی مقرر کردہ انتظامیہ نظم و نسق چلانے کے لیے موجود نہیں تھی جبکہ قبائلی علاقے ریاستوں کی طرح بالواسطہ کنٹرول کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقے نہ تو ریاستوں کی طرح کوئی اکائی تھی اور نہ کوئی یکساں اور مرکزی نظم و نسق  موجود تھا ۔ اس کے علاوہ انگریزوں کے زیر انتظام قبائیلی علاقوں میں ان ریاستوں کی طرح سیلف گورنس کے ادارے بھی نہیں تھے ۔

اگر کسی وجہ سے کوئی بھی سیاسی جماعت اس تمام پراسس کا فعال حصہ نہیں رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی عمل ہوا نہیں ۔ سیاسی عمل کے اپنے حرکیات ہوتے ہیں وہ کسی کی شرکت کرنے یا نہ کرنے سے رکتے نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ الگ سوال ہے کہ انضمام کا مطالبہ سیاسی جماعتوں کی توقعات اور مطالبات کے عین مطابق ہے یا نہیں اور مجوزہ مطالبہ ان جماعتوں کی نظریاتی اور سیاسی فریم ورک کے ساتھ کس حد تک مطابقت رکھتی ہے اور کس حد تک نہیں ۔ وہ یہ سیاسی جماعتیں جانے اور ان کے کارکن ویسے بھی سیاست میں ایک قدم آگے جانے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ مگر بحیثیت مجموعی اصلاحات سے قبائلی عوام کی زندگی نسبتاً  آسان ہوجائے گی اور اب ان کو بھی ملک کے دیگر شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ھوں گے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ زیادتی اور بے انصافی کی صورت میں ان کو قانونی داد رسی کے بیشمار ذرائع اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے کئی فورم اور مواقع میسر آئیں گے ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply