کلیدِ سلطانی۔شکور پٹھان

پیارے بابا جان اور اماں

السلام علیکم۔

امید ہے آپ اور اماں خیریت سے ہوں گے۔ اس بار بہت دیر سے خط لکھ رہا ہوں۔ لیکن بابا جان

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔۔۔

باعث تاخیر جان کر نہ صرف آپ کی طبیعت باغ باغ ہوجائے گی بلکہ آپ کا سر بھی فخر سے بلند ہوجائے گا۔
بابا جان جب آپ نے مجھے یہاں کے لیے رخصت کیا تھا تو اماں نے میرے رزق میں برکت اور آپ نے میری ترقی اور کامرانیوں کے لیے دعائیں کی تھیں۔ آج وہ دن آگیا ہے کہ میں آپ کو سر بلند کر کے اطلاع دے سکوں کہ آپ کی دعائیں پوری ہوئیں اور آج میری اس مقام تک رسائی ہوئی جس کے آپ متمنی تھے۔

بابا جان، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پرایا ملک پرایا  اور ہر طرح کا بد خواہ یہاں بھرا پڑا ہے۔ یہاں جہاں ہر کوئی اپنے خوابوں کو تعبیر دینے اور اور اپنا مستقبل روشن بنانے کے لیے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر آیا ہے تو ہر کوئی آگے بڑھنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔

بابا جان آپ کی نصیحتیں اور دعائیں ہمیشہ میرے  پیش نظر رہی ہیں۔ محنت میں کبھی میں نے عار نہ جانا ۔ لیکن محنت تو یہاں سب ہی کرتے ہیں۔ مجھے آپ کی نصیحت یاد تھی کہ اپنے افسران بالا کی خوشنودی ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ وہ اولی الامر کے زمرے میں آتے ہیں۔ میں نے اس بات کو سینے سے لگائے رکھا اور دفتر میں جو اور جس طرح کا کام ملا، کبھی انکار نہیں کیا۔ ساتھ ہی اپنے سے برتر افسران کی ہر طرح سے خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ جو ہمارے بڑے صاحب ہیں، یعنی وہ جو سب سے بڑے صاحب کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں اور وہی ہیں جو ہماری ترقی اور تنخواہوں میں اضافےکی سفارشات کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں میں نے کبھی کسی طرح کی کمی نہ چھوڑی۔ دفتری اوقات کے علاوہ بھی بلکہ چھٹیوں کے دن بھی ان کے گھر جا کر ان کے کام آتا رہا۔ اکثر جب صاحب اور بیگم صاحب کسی شام کہیں باہر کسی تقریب میں جاتے ہیں تو گھر پر ان کے ننھے بچوں کی دیکھ بھال میں ہی کرتا ہوں۔ ایسے کام بہت سے ادارے یہاں پیسے لے کر کرتے ہیں اور یہ “بے بی سٹنگ” کہلاتی ہے۔ میرے اس بے لوث رویے سے صاحب کی خاصی بچت ہوجاتی ہے۔ بچوں کو وقت پر کھانا اور دودھ وغیرہ دینے کے علاوہ سب سے ننھے کی چھی دھلانا کا فرض بھی میں انتہائی خوشدلی سے انجام دیتا ہوں۔ بیگم صاحبہ میری کارکردگی سے بہت خوش ہیں اور صاحب کو کہتے سنا کہ مسکین کے آجانے سے ملازمہ کی ضرورت نہیں رہی۔

بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ بھی صاحب کے گھر کے دوسرے چھوٹے موٹے کام بھی کر دیتا ہوں۔ اور ایک دن بیگم صاحبہ نے جب گھر کا کچھ سودا منگوایا تو میں نے یہ سوچ کر کہ یہ بھی ایک طرح سے میرا اپنا ہی سامان ہے، اصل سے نصف دام بتائے۔ بیگم صاحبہ تب سے ایسی مجھ سے راضی ہوئیں کہ ہر ماہ کا سودا مجھ سے ہی منگواتی ہیں۔ یہ جو اماں کو پچھلے تین چار ماہ سے پیسے نہیں بھجوائے اس کا سبب یہی ہے کہ صاحب کے گھر کے اخراجات میں تقریباً ساری تنخواہ ہی نکل جاتی ہے۔ آپ ناراض نہ ہوں۔ میں آپ کو بتاؤں گا کہ چند پیسوں کی قربانی دے کر میں نے کیا کچھ حاصل کیا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ میں آپ کو وہ خوش خبری سناؤں جس کے لیے میں نے یہ تمہید باندھی ہے۔

دراصل دفتر میں مجھ سے سینئر دو افراد کام چھوڑ کر چلے گئے۔ ان نا شکروں کا مطالبہ تھا کہ ان کی تنخواہ میں ان کے کام کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ میرے افسر جو مجھ سے بہت خوش رہتے ہیں کہ میں دفتری اوقات کے علاوہ بھی دیر تک کام کرتا ہوں اور “اوور ٹائم ” وغیرہ کا مطالبہ بھی نہیں کرتا۔ میرے ساتھی میرے اس ایثار سے نالا ں رہتے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں حاسد اور بد خواہ کہاں نہیں ہوتے۔ خیر میرے افسر نے مجھے خوشخبری سنائی کہ آج سے ان دونوں نالائق ملازمان کا کام بھی میرے ذمے تفویض کیا جارہا ہے۔ یعنی میرے موجودہ ذمہ داریوں کے علاوہ مجھے مزید دو افراد کے کام کا بھی اہل سمجھا گیا ہے۔ اور یہ کہ کمپنی میری اس بے لوث کارکردگی کا اعتراف کرتی ہے اور میرا عہدہ بڑھا کر مجھے بھی (جونئیر) افسران میں شامل کیا جارہا ہے۔

بابا جان یہ وہ دن تھا جس کی خوشخبری آپ کو دینے کا میں مدتوں سے انتظار کر رہا تھا۔ اب دفتر کے وقت سے بہت پہلے پہنچ جاتا ہوں اور رات گئے گھر واپس آتا ہوں کہ ذمہ داری بڑی چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو خط لکھ کر یہ خوشخبری نہ دے سکا۔ چھٹی کا دن بھی دفتر میں گذرتا ہےکہ میری ذمہ داریاں ہی اس قدر ہیں۔

آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس ترقی کے ساتھ تنخواہ بھی بڑھی ہوگی۔ فی الحال ایسا کچھ نہیں کیونکہ میرے ادارے کے مالی حالات فی الحال کسی قسم کے نئے اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اور ادارے کا دیرینہ کارکن ہونے کے حوالے سے مجھے ان مجبوریوں کا احساس ہے۔ میرے سب سے بڑے افسر جو حال ہی میں اپنی سالانہ چھٹیوں پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ جزائر ہوائی کی ایک ماہ کی سیاحت کے بعد واپس لوٹے تھے، اور یہاں سے ہوائی کا ہوائی ٹکٹ بہت مہنگا ہے۔ وہاں ہوٹلوں کے کرائے بھی بہت زیادہ ہیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ ایک ماہ وہاں گذارنے پر میری سالانہ تنخواہ سے زیادہ اخراجات آئے لیکن، بہرحال جو ذہنی مشقت وہ ہمارے ادارے کے لیے اٹھاتے ہیں یہ ان کا حق بنتا ہے۔

تو کہنا یہ تھا کہ بڑے صاحب نے میری پیٹھ ٹھونکی اور فرمایا کہ کمپنی ہذا میری نئی ذمہ دار یوں کے ساتھ ملنے والی مراعات کو میرا حق سمجھتی ہے اور مجھے بھی وہ مراعات اور اختیارات حاصل ہوں گے جو جملہ افسران کو حاصل ہیں۔

ان مراعات اور سہولتوں میں فی الحال تنخواہ کا اضافہ وغیرہ شامل نہیں ہے لیکن کمپنی کے مالی حالات بہتر ہوجائے کے بعد شاید اس پر بھی غور کیا جائے گا۔ لیکن ابا جان آپ کا سر یقیناً فخر سے بلند ہو جائے گا جب میں ان مراعات کے بارے میں بتاؤں گا۔

چونکہ اب میرا شمار افسران میں ہونے لگا ہے چنانچہ مجھے کینٹین کے اس حصے میں کھانا کھانے کی اجازت ہے جو افسران کے لیے مخصوص ہے۔ میں نے بوجوہ اس اختیار کو استعمال نہیں کیا۔ دراصل مجھے اماں نے بچپن سے ہاتھوں سے نوالہ بنا کر دال چاول اور روٹی سالن کھانے کی عادت ڈالی ہوئی ہے۔ چمچ اور چھری کانٹے سے کھانا بڑا مشکل لگتا ہے، میں جب ہاتھ سے کھاتا ہوں تو ساتھ بیٹھے افسران ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور میری میز پر بیٹھنے سے کتراتے ہیں۔ میں فی الحال نچلے درجے کا ملازمین والے حصے ہی میں کھاتا ہوں ، البتہ اوروں سے ہٹ کر بیٹھتا ہوں کہ میرے منصب کا تقاضا ہے۔

لیکن اصل چیز اور اختیار جو اس ترقی کا حاصل ہے اور جو میری تمام تر محنت اور آپ کی اور اماں کی دعاؤں کا صلہ ہے، وہ یہ ہے کہ اب میں بھی وہ طہارت خانے ( انہیں انگریزی میں ٹوائلٹ کہتے ہیں ) استعمال کرسکتا ہوں جو افسران کے لیے مخصوص ہیں۔ کلرک اور دیگر اہل کاروں کا وہاں جانا ممنوع ہے۔ اس کی چابی ہمارے ریسیپشن پر لٹکی رہتی ہے اور صرف اجازت یافتہ افراد ہی کی رسائی اس چابی تک ہے اور آپ کا بیٹا ان چند خوش نصیبوں میں سے ہے جسے یہ چابی لے جانے کا اختیار اور اعزازحاصل ہے۔

بابا جان آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ جب یہ چابی لے کر اور اس کے چھلے کو انگلیوں میں جھلاتے ہوئے جب میں لوگوں کے سامنے سے گذرتا ہوں تو ان کی آنکھوں میں جو ، حسرت، حیرت، حسد اور دشک کے ملے جلے جذبات ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر میرا سر تن جاتا ہے۔ جی چاہتا ہے سارا دن یہ چابی لیے یہاں سے گذرتا رہوں اور حاسدوں کے سینے پر مونگ دلتا رہوں۔

بابا جان ان غسل خانوں میں انگریزی طرز کے کرسی نما قدمچے بنے ہوتے ہیں۔ آپ نے شاید اب تک ایسے قدمچے نہیں دیکھے۔ ان پر بیٹھ کر آدمی دنیا مافیہا کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ آپ کا بیٹا ان چند لوگوں میں سے ہے جسے یہاں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہے وہ جو کہتے ہیں ناں کہ

یہ رتبہ بلند جسے ملا، مل گیا۔

ابتدا میں تو جی چاہتا تھا کہ ہر وقت یہ چابی ہاتھ میں لہراتا ہوا سب کے سامنے سے بار بار گذروں لیکن مجھ سے بالا افسر نے متنبہ کیا کہ اس سے

آتی ہے پرواز میں کوتاہی

یعنی میرے کام پر فرق پڑتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ میرے پاس جو تین افراد کی ذمہ داری ہے اس میں مزید اضافہ کردیا جائے کہ میرے پاس فاضل وقت اوروں سے زیادہ نظر آرہا ہے۔

بابا جان یہ وہ مقام ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے آپ کے لائق فرزند نے دن رات ایک کردیے تھے اور آج وہاں پہنچ کر بھی دکھا دیا۔

سب سے بڑے افسر صاحب کا غسل خانہ بالکل الگ تھلگ ہے جو ان کے کمرے سے متصل ہے۔ ایک بار جب میں صاحب سے ایک دستخط لینے گیا تو صاحب نے مجھے غسل خانے سے اپنی گھڑی لانے کے لیے کہا۔ کیا بتاؤں کیا غسل خانہ تھا۔ نرم دبیز قالین، ہاتھ اور منہ پوچھنے کے علیحدہ چھوٹے سے تو لیے۔ طرح طرح کے رقیق صابن، خوشبو یات، واش بیسن کے ساتھ رکھے گلدان میں تازہ پھول اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ میں اس طلسم ہوش ربا میں کھویا ہوا تھا کہ بڑے صاحب کی ڈپٹتی ہوئی آواز سے چونک گیا۔

بابا جان آپ کی دعاؤں سی یہاں تک پہنچا ہوں۔ اللہ آپ اور اماں کو زندگی دے اور آپ کی دعائیں اور میری محنت اور افسران کی خوشنودی شامل رہی تو ایک دن آپ کا بیٹا آپ کو یہ خبر بھی دے گا کہ وہ آج بڑے صاحب والے اس غسل خانے کی قالین سے ڈھکی کرسی یعنی کموڈ پر بیٹھا ہے۔

اب انشاء اللہ یہی مطمع نظر ہے اور یہی نصب العین۔

والاسلام

آپ کی دعاؤں کا طالب ۔۔۔آپ کا بیٹا

Advertisements
julia rana solicitors

مسکین احمد!

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کلیدِ سلطانی۔شکور پٹھان

Leave a Reply