سیاست اور جذباتی لوگ۔بلال آتش

یوں تو میں سیاست پر گفتگو سے, قلم کشائی سے حتی المقدور گریز کرتا ہوں لیکن چلیں آج اس معاملے پر  بھی تھوڑی مغز ماری کر لیتے ہیں۔

دیکھیے صاحبان! پہلے تو ایک بات سمجھ لیں۔ ملکی سطح پر سیاست یہاں جو بھی کر رہا ہے , اس کو سپورٹ کرنے والے بھی ملک پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یقیناً پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔اس کے مخالفین بھی اسی وطن پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور یقیناً وہ بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔

کل قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے وطن عزیز کی دو بڑی  سیاسی جماعتوں کے مابین مقابلہ تھا  اور جیتنا صرف ایک ہی کو تھا۔ جس کا پلہ بھاری ہوا، وہ جماعت سیٹ جیت گئی ہے۔ اب اس ضمن میں جتنی بھی باتیں ہو رہی ہیں وہ سب کی سب محض الزامات یا ٹھٹھہ لگانے کے لیے ہو رہی ہیں الا ماشاءاللہ۔

دیکھیے ایک بات سمجھ لیں۔ کم از کم پنجاب کی حد تک اگر آپ کسی کو ن لیگ کا حامی ہونے پہ یا ووٹر ہونے پہ پٹواری کا طعنہ دیتے ہیں۔ اس کو کندذہن کہہ کر بغلیں بجاتے ہیں اور خود کو ڈگری ہولڈر یا پڑھا لکھا سمجھتے ہیں تو یقین جانیے آپ نے سب کچھ پڑھ لکھ کر گنوایا ہے۔ بات دلیل سے ,  پیار سے , نرم لہجے میں اور اپنا سمجھ کر کی جائے تو ہی کوئی آپ کی بات کو سمجھے گا۔ آپ کا حامی بنے گااور اگرآپ کا مقصد صرف کسی کو ذلیل کرنا اور کم عقل لوگوں کی طرح طعن و تشنیع کرنا ہے تو پھر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ اپنے بہت سے پوٹینشل ووٹس کو خود ہی لات مار رہے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ بالکل صحیح بھی ہیں تو اس رویے سے آپ دوسروں کو ضد اور شدید مخالفت پہ ازخود مجبور کر رہے ہیں۔ پھر نہ تو آپ کی صحیح بات کوئی سمجھنے کی کوشش کرے گا اور نہ ہی حالات کو معروضی طریقے سے سمجھے گا۔

دوسری طرف۔۔۔دوسری جماعت کے ہمارے لوگ ہیں۔ وہ بھی کوئی اچھی اپروچ کے ساتھ معاملات نہیں سنبھالتے۔ دکھ ہوتا ہے جب ایک سیاسی نظریاتی جدوجہد کو خواہ آپ کے نزدیک کوئی صحیح ہے یا غلط , اس کو ایک جنگ بنا دیا جائے۔ مرنے مارنے پر آ جائیں۔ معرکہ حق و باطل بنا دیا جائے۔ کسی کو غدارکے ,یہودی ایجنٹ کے اور عالمی مہرے کے تمغوں سے نوازا جائے جبکہ آپ کے پاس اپنی باتیں ثابت کرنے کا کوئی خاص مٹیریل بھی نہ ہو۔ پھر دوسری جماعت کے ووٹر کو اور حامی کو نہایت غلیظ قسم کے القابات سے نوازیں اور مسلسل نوازتے رہیں۔ او بھائی کوئی خدا کا خوف کریں۔ ذرا  خود پر  ہی رحم کریں اور  دوسروں کا خیال کریں۔

دکھ ہوتا ہے جب یوں ایک دوسرے کو اس طرح رگیدا جاتا ہے۔ جب گالم گلوچ کی جاتی ہے۔ ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیں۔ عزتوں کو اچھالا جاتا ہے۔ سیاسی جدوجہد ہے اس کو وہیں تک محدود رکھو۔ اب کل کی مثال لے لیں۔ ایک سیٹ۔ ۔۔محض ایک سیٹ کا الیکشن۔ اناؤں کو ایک طرف رکھیں۔ مقابلے کو ایک طرف رکھیں۔ مجھے بتائیں، ایک سیٹ سے کون سی پارٹی کا پلہ ہلکا ہوا یا کس پارٹی کی اسمبلی میں نمائندگی پہ کوئی فرق پڑا؟ پڑا؟ بالکل نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب سے آخر میں ایک بات عرض کر دوں۔ اپنی جماعتی وابستگی کی خاطر  آپ اپنے اردگرد جن لوگوں سے لڑتے ہیں۔ جن کو گالیاں دیتے ہیں۔ جن سے لڑ پڑتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے ساتھ اب تک زندگی کی تمام غمی خوشیاں دیکھتے آئے ہیں۔ جن کے ساتھ آپ نے اچھے برے وقت کا سامنا کیا ہے۔ جن کے ساتھ شاید کل کو قبرستانوں میں بھی پڑوسی بننے کے چانس ہیں۔ یعنی ساری عمر جن لوگوں کے درمیان گزری اور باقی بھی انہی کے ساتھ گزرنی ہے۔ وہی آپ کے دست و بازو بنے تھے , بنیں گے۔ ان کا تو کچھ خیال کریں۔ آپس کے اختلافات کو اپنی مقررہ حد میں رکھیں۔ اس اختلاف سے اپنی ساری عمر کی کمائی محبتیں برباد نہ کریں۔ یہ الیکشن جیتنے والے یا ہارنے والے ویسے آپ کے دست و بازو کبھی نہیں بنیں گے نہ بن سکتے ہیں جیسے یہ آپ کے اہل علاقہ اور دوست یار بنے تھے اور بنتے رہیں گے۔ اس چھوٹی سی بات کو سمجھ لیں تو شاید ہماری محبتیں قائم رہیں۔ شاید ہم ایک دوسرے کو اپنا سمجھیں اور شاید ہم ایک دوسرے کے دست و بازو بنتے رہیں۔باقی آگے آپ احباب کی مرضی ہے کہ زندگی خلوص و محبت کے ساتھ بتانی ہے یا لڑائی جھگڑے اور بغض و عناد میں صرف کرنی ہے۔رہے نام مولا کا۔سلامت رہیں!

Facebook Comments

بلال آتش
معتدل نظریات اور عدم تشدد کا قائل ہوں اور ایسے ہی احباب کو پسند کرتا ہوں۔ نفرتوں کے پرچار کی بجائے محبتوں کے پھیلاؤ پہ یقین رکھتا ہوں۔ عام سا انسان ہوں اور عوام ہی میں نشست و برخواست رکھتا ہوں اور عوام ہی کی بات کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply