الیکشن 120، اک تبصرہ۔۔۔ انعام رانا

دم تحریر قریب دو سو چار پولنگ سٹیشنز کے نتائج آ چکے ہیں اور محترمہ کلثوم نواز قریب چودہ ہزار کی لیڈ سے محترمہ یاسمین راشد سے جیت رہی ہیں۔ دو سو بیس پولنگ سٹیشنز میں سے دو سو چار کے غیر سرکاری غیر حتمی رزلٹ سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ محترمہ کلثوم نواز الیکشن جیت چکی ہیں۔ یہ الیکشن بہت زیادہ اہمیت کا حامل بن چکا تھا کیونکہ یہ نواز شریف صاحب کی خالی کردہ سیٹ پر ہو رہا تھا۔ مسلم لیگ ن اس الیکشن کو اپنے مینڈیٹ اور اس بات کے ثبوت کیلیے جیتنا چاہتی تھی کہ عوام نے نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف اس الیکشن کو ایک پبلک ریفرنڈم کے طور پر پیش کر رہی تھی۔

دونوں میں سے کون اپنا پوائنٹ ثابت کر سکا، یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ اس بات کو بہرحال ماننا ہو گا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے یہ الیکشن انتہائی بہادری سے لڑا۔ وہ ڈور ٹو ڈور کمپین کرتی رہیں اور حلقے میں ایک انتہائی عوامی مہم چلائی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ تحریک انصاف نے اس الیکشن کو اس سنجیدگی سے نہیں لڑا جس کا یہ الیکشن متقاضی تھا۔ عمران خان بطور پارٹی سربراہ اتنے اہم الیکشن میں اپنا مکمل رول ادا کرنے میں ناکام رہے۔ اگر یہ الیکشن مکمل دلجمعی سے لڑا جاتا تو شاید ہار تو ہوتی مگر بہت ہی کم مارجن سے۔ نواز شریف کے “خاندانی حلقے” میں، حکومت کا مقابلہ کرتے ہوے، ایسے حالات میں محترمہ یاسمین راشد کا اتنے زیادہ ووٹ لے جانا بلاشبہ ایک کامیابی ہے اور ایک امید کہ اچھے امیدوار اگر محنت کریں تو شاید جلد وہ وقت آئے گا جب وہ “الیکٹیبلز” کے مقابلے میں جیتیں گے۔ الیکشن کا ایک اہم پہلو محترمہ مریم نواز کی الیکشن کمپین ہے۔

مریم بطور لیڈر پہلی بار الیکشن کمپین کو لیڈ کر رہی تھیں۔ یاد رہے کہ یہ حلقہ ن لیگ کا اس قدر مضبوط گڑھ ہے کہ مشرف دور میں بھی یہاں اپنی پسند کے نتائج حاصل نا کیے جا سکے۔ انکی مدد کے لیے حکومتی مشینری اور وہ تمام وعدے موجود تھے جو ووٹر کو کھینچتے ہیں۔ مریم نواز نے نواز شریف کی نااہلی کو بطور مظلومیت کیش کروانے کی بھی پوری کوشش کی۔ اس کے باوجود ان کی پرفارمنس مایوس کن رہی۔ وہ نا تو یاسمین راشد جیسی عوامی مہم چلا سکیں اور نا ہی ووٹر کو باہر نکال پائیں۔ الیکشن میں ووٹرز ٹرن اوور انتہائی کم رہا اور گو ،یہ ضمنی الیکشن تھا مگر اسکی اہمیت کے باوجود ٹرن اوور تینتیس سے پینتیس فیصد رہا۔ مسلم لیگ ن اس حلقے میں اپنی لیڈ کو بھی برقرار نہ رکھ سکی اور قریب چودہ ہزار کی لیڈ حاصل کر پائی۔ مریم کی دو فاش غلطیاں رہیں۔ ایک تو اس الیکشن کو “اسٹیبلشمنٹ مخالف ریفرینڈم” بنانے کی کوشش جس نے خومخواہ کی سازشوں کو جنم دیا یہ انکی مستقبل قریب کی سیاسی زندگی کیلیے خطرناک ہو گا۔ دوسرا شہباز شریف اور انکے خاندان کو اس الیکشن سے دور رکھ کر “گھر کے گندے کپڑے” سرعام دھونا، شاید مستقبل میں ووٹر کو مزید تقسیم اور ن لیگ کو کمزور کرے گا۔ اس الیکشن کا ایک اہم پہلو جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا عبرت ناک صفایا ہے۔ لاہور جو کبھی بھٹو کے سحر میں تھا اور شہید بے نظیر کے دور تک لاہور کے جیالے پیپلز پارٹی کیپہچان تھے، آج  پیپلز پارٹی کا امیدوار چوتھے نمبر پر آیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جماعت اسلامی تو خیر گرو کے خالصے کی مانند ایک ووٹ سوا لاکھ ہی گنتی ہے۔ سو وہ شاید الیکشن نتائج سے مطمئن ہی ہوں گے۔ اس الیکشن نے خطرے کی ایک گھنٹی بھی بجائی ہے۔ ملی مسلم لیگ اور دفاع پاکستان کے حمایت یافتہ امیدوار تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ دوسری جانب مولوی خادم رضوی(گالیوں والے) کے امیدوار بھی ہزاروں میں ووٹ لے گئے۔ پاکستان کی مین سٹریم سیاسی جماعتوں اور سنجیدہ حلقوں کو اس پر توجہ دینی ہو گی کہ ایسے عناصر کو کھلا ہاتھ دینے کا نتیجہ خطرناک نکلے گا۔ وہ ن لیگ کا ووٹ تو نہیں توڑ پائیں گے لیکن معاشرے میں نفرت، عصبیت اور منافرت کا کاروبار مزید بڑھائیں گے۔ ایسے عناصر کو اپنی “سیاسی تبلیغ” کی اجازت دینا اسٹیبلشمنٹ کی شدید غلطی ہو گی۔ الیکشن عوام کا اپنی رائے کا اظہار ہوتا ہے اور ان کو قوت فیصلہ کا اختیار دیتا ہے۔ لیکن موجودہ الیکشن سسٹم روز بہ روز یہ ثابت کرتا جا رہا ہے کہ اس کو اوور آل کی ضرورت ہے۔ عوام کو جب تک ان کی روزمرہ ضرورتوں کے لالچ سے آزاد نہیں کیا جاتا، وہ نوکری، موٹر سائیکل، گلی، نالی اور قیمے والے نان کو قومی ایشوز سے زیادہ اہم خیال کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”الیکشن 120، اک تبصرہ۔۔۔ انعام رانا

  1. امیرِ شہر غریبوں کو لوُٹ لیتا ہے
    کبھی بحیلہء مذہب، کبھی بنامِ وطن
    مِلی مسلم لیگ ایک نو ذائدہ سیاسی جماعت ضرور ہے مگر اِس کے خالقین وہی ہیں جو سرمایہ داروں کے فلسفہء جہاد پر یقین رکھتے ہیں۔ سرمایہ داروں کا فلسفہء جہاد اب تک لاکھوں سروں کا چڑھاوہ قبول کر چُکا ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جو اب تک بنامِ وطن ہزاروں عام کشمیریوں کو جہاد کی بَلی پر لٹکا چُکی ہے۔ جنگی جنونی ذہنیئت اور شہرت رکھنے والے، اگر مِلّی مسلم لیگ کے نام پر سیاسی عمل کا حصہ بنے بھی تو منافرت کو عام کرنے کی کوشش ہی کریں گے مگر آپ نے درست فرمایا کہ اُن کے انتخابات میں حصہ لینے کے عمل کو خوش آمدید کہنا چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے کہ بد ترین سرمایہ داروں کے مقابلہ میں بھی عوام نے نفرت فروشوں کو مسترد کر دیا۔

Leave a Reply