دار العمل

زرمینہ زر
(زرمینہ جرنلسٹ ہے اور کراچی یونیورسٹی سے جرنلزم میں پی ایچ ڈی کی اسٹوڈنٹ ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

دار العمل…
مکالمہ کانفرنس میں شرکت کے بعد بہت سی کہانیاں دل و دماغ میں شور مچانے لگیں جنہیں بیان کر نے کے لیے بالاخر قلم اٹھانا ہی پڑا.ایک بات بیٹھے بیٹھے ذہن کے پردے پر آگئی ہماری والدہ کہا کر تی تھی تمهارے ابا نے کبھی عورت کا نشہ نہیں کیا ایرانی النسل خوبرو خوش شکل حاضر جواب دراز قد خوبصورت آنکھیں بہادر کڑیل جوان ہونے کے باوجود خواتین سے ایک فاصلے پر رہے حالانکہ پہلی نوکری بھی سنیما میں کی.ہم نے جب اس دار فانی میں آنکھیں کھولیں تب وہ تبلیغی جماعت میں جا چکے تھے جب تک زندگی رہی دین کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے بہت سے بھٹکے ہوؤں کو اللہ رب العزت کے حکم سے اس کے گھر کا راستہ دکھا یا کہتے ہیں کہ اللہ پاک اپنے حقوق تو جس کے چاہیں معاف کر دیں گے مگر بندوں کے بندوں پر حقوق نہیں اس لیے حقوق العباد پر زور دیا جاتاہے..
ہر باپ کی طرح میرے بابا کو بھی مجھ سے بے حد محبت تھی چھو ٹی ہو نے کی وجہ سے لا ڈلی بھی تھی ایک بار میں اداس بیٹھی تھی کہنے لگے اماں (بلو چ کلچر میں بیٹی کو پیار سے اماں کہتے ہیں) کیوں اداس ہو کیا ہوا میں نے کہا آج میری گڑیا کی سالگرہ ہے.کہنے لگے اچھا تو کیا ہوا میں نے کہا میرے پاس کیک نہیں ہے کیسے مناؤں کہنے لگے اچھا چلو ابھی آپ کو کیک دلواتے ہیں اتنے اچانک کہنے پرمیں خو شی سے جھوم اٹهی ابا میری انگلی تھام کر مجھے بیکری لے گئے وہاں میں نے اپنی پسند کا کیک لیا کہا جاؤاب خوشی خوشی کیک کاٹو.میری پیدائش کے دن تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ایک بار میریٹ سے کیک منگوایا رات جلد سونے والے بابا دیر تک بیٹھے رہے اور میرے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے..
ریٹائر منٹ کے بعد انہوں نے پی سی او کھولا ایک شام گھر آئے اور کہا چلو جلدی ،پی سی او میں کسی سے ملوانا ہے میں ان کے ساتھ آئی دیکھا ایک خاتون بڑی سی چادر اوڑهے بیٹھی ہے ان کے ساته ایک لڑکی بھی تھی سلام دعا کے بعد بابا کہنے لگے یہ ہے میری بیٹی زر مینہ جو کرا چی یو نیورسٹی میں پڑ هتی ہے اس لڑکی کی طر ف اشارہ کر کے مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے یہ بچی بھی میری بیٹی کی طر ح ہے یہ بھی پڑه رہی ہے میری نگا ہیں اس لڑکی سے ہو تے ہوئے ٹیبل پر رکھے کیک پر گئی اور اگلی نظر بابا پر ۔وہ میری نظروں کا مفہوم سمجھ گئے کہا آج اس بچی کی سالگرہ ہے اسے مبارکباد دو اور اس کے ساتھ کیک کاٹو میرا دل بہت عجیب ہوا میرے بابا کسی اور کی بیٹی کی سالگرہ اتنی خوشی سے کیوں منا رہے ہیں بہر حال میں نے بظاہر خوشی مگر در حقیقت بے دلی سے اس لڑکی کے ساتھ کیک پر چھری چلائی اور کچھ دیر بعد گھر آگئی.بابا جب گھر آئے تو میں نے مناسب الفاظ میں حد ادب کو ملحوظ خاطر رکهتے ہوئے پو چھا آپ نے اس لڑکی کی سالگرہ کیوں منائی(دل میں کہا یہ تو صرف میرا حق ہے) بابا کے جواب پر مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ فخر بھی ہوا انہوں نے کہا بیٹا یہ جو خاتون بیٹھی تھی یہ بہت غریب ہے یہ لڑکی اس کی بیٹی ہے اس بچی کا والد فوت ہو چکا ہے یہ کبھی کبھار پی سی او میں فون کر نے آتی ہے آج اس بچی کی سالگرہ تھی لیکن اس کی ماں کے پاس پیسے نہیں تھے جس سے وہ اپنی بچی کی خوشی کے لیے کیک خر ید سکتی اس لیے میں اس کے لیے کیک لایا اور تمیں بلایا تاکہ ہم مل کر اس کی خو شی سیلیبریٹ کر یں آپ نے دیکھا وہ بچی کتنا خوش ہو ئی تھی.میں حیرت سے بابا کو دیکھتی رہی جنهوں نے آج اس لڑکی کو کتنی خوشی دی ہر انسان کے لیے اس کی پیدائش کا دن یقینا اہم ہو تاہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کے دن کو سیلیبریٹ کر ے بنا کسی مفاد لالچ کے بس اس کی خوشی کے لیے..
یتیمی اپنے ساتھ بہت سی بے فکر ی اور خوشیاں لے جاتی ہے ایک معمولی سی خوشی بھی اس حال میں انسان کو بہت بڑی لگتی ہے یہ میرے بابا کی ایک چھوٹی سی نیکی تھی جو اس لڑکی اور اس کی والدہ کے لیے یقینا بہت اہم تھی آج جب بابا اس دنیا میں نہیں ہیں تب کوئی مجھے عزت سے بیٹی کہتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھتا ہے تب مجھے بے اختیار اپنے بابا یاد آجاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ واقعہ بھی نگاہوں کے آگے گھوم جاتا ہے کہ واقعی یہ دنیا دار العمل ہے آپ کا ایک اچھا عمل آپ کی نسلوں کو آباد کر دیتا ہے انہیں دنیا کی بد نظروں سے دور کر دیتا ہے اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے ورنہ یقین جانئیے یہ دنیا برائی اور غلاظت کا ڈهیر ہے یہاں کام آتی ہیں تو بس بڑوں کی دعائیں ان کا نیک عمل جو ڈهال بن کر انسان کے اوپر سایہ کر تا ہے۔ دعا ہے اللہ رب العزت میرے بابا کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کر ے اور ہمیں بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے نیک اور صالح عمل کر نے کی تو فیق دے آمین

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply